۲۲؍ ماہ میں قطر ساتواں ملک ہے جسے اسرائیل نے نشانہ بنایا، اس حملے نے عرب ممالک کو ہلاکر تو رکھ دیا ہے مگر اس کا امکان کم ہے کہ وہ طاقت کے حصول کی ویسی کوشش کریں گے جیسی کوشش کی ضرورت پڑوس میں کسی غنڈہ ملک کی موجودگی میں ناگزیر ہے۔
EPAPER
Updated: September 14, 2025, 1:13 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
۲۲؍ ماہ میں قطر ساتواں ملک ہے جسے اسرائیل نے نشانہ بنایا، اس حملے نے عرب ممالک کو ہلاکر تو رکھ دیا ہے مگر اس کا امکان کم ہے کہ وہ طاقت کے حصول کی ویسی کوشش کریں گے جیسی کوشش کی ضرورت پڑوس میں کسی غنڈہ ملک کی موجودگی میں ناگزیر ہے۔
اسرائیل جو غزہ میں ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے امریکہ کی کھلی پشت پناہی میں بلا کسی روک ٹوک فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے، جو ۲۲؍ مہینوں میں ۶۴؍ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کرچکاہے، غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کر چکاہے، اور ایک لاکھ سے زائد کو زخمی اور لاکھوں کو بے گھر کرچکاہے، نے اب مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اتحادی ملک قطر کی راجدھانی دوحہ کو نشانہ بنایا ہے۔ ۷؍ اکتوبر کے بعد سے اسرائیل کا ہر قدم نہ صرف یہ کہ مبنی بر ناانصافی اور ظلم ہے بلکہ اس بات کی کوشش سے بھی عبارت ہے کہ پوری دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا جائے۔ ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد قطر ساتواں ملک ہے، جسے اسرائیل نے نشانہ بنایا ہے۔ اس سے قبل وہ لبنان پر چڑھائی کرچکاہے، یمن پر بمباری معمول کا حصہ ہے جبکہ شام میں بشار الاسد کے فرار کے فوراً بعد اس سے پہلے کہ نئی حکومت سنبھل پاتی اس نے پے در پے حملے کرکے شام کی کمر کچھ اس طرح توڑ دی کہ وہ چوں نہ کرسکے۔ فریڈم فلوٹیلا ’صمود‘ کو نشانہ بنانے کے نام پر وہ تیونیشیا کے ساحل کو دوبار نشانہ بناچکاہے۔ نیتن یاہو نے ایران کو بھی نشانہ بنایا، یہ الگ بات ہے کہ تہران نےعربوں کی طرح سلامتی کونسل میں دہائی اور عالمی برادری سے شکایت ِ بے مصرف کرنے کے بجائے خود جواب دیا اور ایسا جواب دیا کہ تل ابیب کے دانت کھٹے کر دیئے۔
اسرائیل کی جارحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض ۷۲؍ گھنٹوں میں اس نے ۶؍ ممالک لبنان (جنگ بندی کے باوجود)، شام، تیونیشیا(ساحل پر فلوٹیلا ’صمود‘ کو نشانہ بناکر)، یمن اور قطر کو نشانہ بنایا۔ فلسطین کی سرزمین پر برطانیہ اور امریکہ کی پشت پناہی سے بسایاگیا یہ ملک نیتن یاہو کی قیادت میں باربار پوری دنیا کو باور کرارہا ہے کہ وہ ایک غنڈہ ملک ہے جو دنیا کے ہر اس ملک کو چیلنج کر رہا ہے جو اُس کی ناانصافی اور مظالم کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے۔ قطر پرحملے کے ذریعہ اسرائیل نے ایک بار پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جو کسی بھی ملک پر کبھی بھی حملہ کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل نےجمعہ کو بھلے ہی بیک زبان دوحہ پرحملےکی مذمت کی ہے مگر اس میں اتنی جرأت نہیں کہ مذمتی بیان میں اسرائیل کا نام شامل کرلیا جاتا۔ اس لئے اگر اسرائیل کا نام شامل کیا جاتا تو وہ ٹرمپ جو قطر کو یہ یقین دہانی کرارہے ہیں کہ ’’آئندہ ایسا نہیں ہوگا‘‘، مذمتی قرار داد کو ویٹو کردیتے۔
امریکہ کا یہ دعویٰ بھی مضحکہ خیز ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اس کے اہم اتحادی قطر پر اسرائیل کا یہ حملہ اسے اطلاع دیئے بغیر کیاگیا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ صہیونی ریاست کے آگے امریکہ کی بے بسی کا مظہر ہے اور ٹرمپ کی اس یقین دہانی کی قلعی کھول دیتا ہے کہ ’’آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ ‘‘ اس پس منظر میں نیتن یاہو کے اس بیان کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ’’ میں قطر اور ان تمام ممالک کو جو دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں (اسرائیل اور امریکہ کی نظر میں حماس دہشت گرد گروہ ہے) سے کہنا چاہتا ہوں کہ یاتو انہیں نکال باہر کریں یا عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کریں، کیوں کہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ہم کریں گے۔ ‘‘اس بیان میں یہ واضح پیغام ہے کہ ’’حماس‘‘کو بہانہ بنا کر قطر پر ہونےوالا یہ حملہ آخری نہیں تھا اور یہ حملہ قطر تک محدود نہیں ہے۔ وہ کل دنیا کے کسی بھی ملک کو ’’دہشت گردوں ‘‘ کا جواز بنا کر نشانہ بنا سکتا ہے۔ دوحہ پر حملہ اوراس کے بعد نیتن یاہو کا مذکورہ بیان پوری دنیا کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے اور حقیقی دہشت گردی پر صیہونی ریاست کی اجارہ داری کا بیانیہ بھی ہے۔ قطر پر اس حملے نےخطے میں نہ صرف کشیدگی کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے بلکہ جنگ بندی کی کوششوں کو بھی تباہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دوحہ پر حملے کی متفقہ طور پر مذمت اور پھر جنرل اسمبلی میں ۱۴۲؍ ممالک کی حمایت سے ’’نیویارک ڈکلیئریشن‘‘ کی منظوری یقیناً اس لائق تو ہے کہ اس کا خیر مقدم کیا جائے مگر افسوس کہ یہ سب ’’نشستند و گفتند و برخاستند ‘‘سے آگے نہیں بڑھتا۔ زمینی صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کوئی قرار داد منظور کرے یا سلامتی کونسل متفقہ طور پر مذمت کرے، غزہ پر حملے بلا رکے جاری ہیں اورنیتن یاہو یہ دھمکی دے رہے ہیں کہ ’’یہ زمین ہماری ہے اور ہم یہ وعدہ پورا کرنے جارہے ہیں کہ یہاں کوئی فلسطینی ریاست نہیں بنے گی۔ ‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی پشت پناہی اور عالمی برادری کی بے حسی کی وجہ سے اسرائیل ہرروز انسانیت کو شرمسار کررہاہےمگر تمام طاقت کے باوجود وہ فتح کے قریب بھی نہیں پہنچ سکا۔ اس نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ تو بجا دی مگر اپنی تمام تر طاقت کے باوجود آج تک یرغمالوں کو رہا نہیں کرواسکا۔ دسیوں ہزار افراد کی قربانی دیکر بھی اہل فلسطین سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ وہ ڈر کر غزہ سے فرار ہورہے ہیں نہ حماس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ اپنی بقا کی جنگ اپنی استعداد بھر لڑ رہے ہیں، لمحہ فکریہ عرب ملکوں کیلئے ہے جنہوں نے عیش وعشرت کو ترجیح دی اور اپنی سیکوریٹی کو امریکہ جیسے ناقابل بھروسہ اتحادیوں کے پاس گروی رکھ دیا۔ قطر پر ہونےوالے اس حملے نے عرب ممالک کو ہلاکر تو رکھ دیا ہے مگر اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ طاقت کے حصول کی ویسی کوشش کریں گے جیسی کوشش کی ضرورت اسرائیل جیسے غنڈہ ملک کی موجودگی میں ناگزیر ہے۔