سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر درست انداز میں نافذ ہوا تو یہ ملک کیلئےمثالی ماڈل بن سکتا ہے لیکن اگر یہ محض علامتی اقدام بن کر رہ گیا تو امیدیں ایک بار پھر مایوسی میں بدل جائیں گی۔
EPAPER
Updated: September 14, 2025, 1:15 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر درست انداز میں نافذ ہوا تو یہ ملک کیلئےمثالی ماڈل بن سکتا ہے لیکن اگر یہ محض علامتی اقدام بن کر رہ گیا تو امیدیں ایک بار پھر مایوسی میں بدل جائیں گی۔
فرقہ وارانہ فسادات ہندوستان کے اجتماعی شعور پر سب سے گہرا زخم ہیں۔ یہ زخم نہ صرف جسمانی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ سماجی ہم آہنگی، بھائی چارے اور آئینی اعتماد کو بھی مجروح کرتے ہیں۔ مئی۲۰۲۳ء میں مہاراشٹر کے مردم خیز شہر اور سب سے زیادہ مسلم آبادی والے اـضلاع میں سے ایک ضلع اکولہ میں جو سانحہ پیش آیا، وہ اسی تلخ تاریخ کی ایک اور کڑی تھا۔ ایک اشتعال انگیز سوشل میڈیا پوسٹ نے ایسی آگ بھڑکائی کہ ایک جان ضائع ہوگئی، متعدد افراد زخمی ہوئے اور شہر کی گلیاں خوف و ہراس کے حصار میں آگئیں۔ تقریباً دو برس بعد سپریم کورٹ نے اس سانحے پر ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی جائے جس میں ہندو اور مسلم دونوں برادریوں سے تعلق رکھنے والے پولیس افسران شامل ہوں گے۔ عدالت نے یہ تاریخی تبصرہ کیا کہ’’ پولیس جب وردی پہنتی ہے تو اسے ہر طرح کے تعصب سے بلند ہو کر صرف قانون کے مطابق عمل کرنا چا ہئے‘‘۔ یہ الفاظ محض قانونی جملے نہیں بلکہ ایک گہرا پیغام ہیں، جو ہندوستانی انصاف کے نظام کو نئی راہ دکھا سکتے ہیں۔ اکولہ کا سانحہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ہندوستان نے اس سے قبل بھاگلپور(۸۹ء)، ممبئی(۹۲ء) گجرات (۲۰۰۲ء)، مظفر نگر(۲۰۱۳ء) اور دہلی (۲۰۲۰ء)جیسے دردناک فسادات بھی دیکھے ہیں۔ ہر بار یہی سوال اٹھا کہ کیا ریاستی ادارے غیرجانبدار تھے؟ کیا متاثرین کو بروقت انصاف ملا؟ اور کیا قانون کی حکمرانی سب پر یکساں نافذ ہوئی؟تاریخ کے صفحات ہمیں بتاتے ہیں کہ اکثر اوقات ان سوالات کے جواب نفی میں ملے ہیں۔ گواہوں کو ڈرایا گیا، ثبوت مٹائے گئے اور مقدمے برسوں تک کھٹائی میں پڑے رہے۔ کئی بار سیاسی دباؤ نے انصاف کے عمل کوبری طرح متاثرکیا۔ یہی وجہ ہے کہ متاثرین کا نظامِ انصاف پر اعتماد بار بار مجروح ہوا۔ ایسے پس منظر میں اکولہ فسادات کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کا مشترکہ ایس آئی ٹی تشکیل دینے کی ہدایت دینا ایک اہم تجربہ ہے۔ اس سے یہ امید بندھی ہے کہ شاید اس بار انصاف کا عمل نہ صرف ہوگا بلکہ نظر بھی آئے گا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں جس وضاحت کے ساتھ پولیس کو تعصب سے اوپر اٹھنے کا پیغام دیا ہے، وہ نہایت معنی خیز ہے۔ عدالت نے یاد دلایا کہ پولیس کا اصل فرض آئین اور قانون کی حفاظت ہے، نہ کہ کسی مخصوص برادری یا طاقتور طبقے کی خدمت۔ فسادات کے دوران عموماً یہ شکایت سامنے آتی ہے کہ پولیس یا تو خاموش تماشائی بنی رہتی ہے یا پھر کسی ایک فریق کی حمایت میں سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ عدالت کا یہ حکم اِن رویوں پرسخت تنقید ہے اور ایک نئی راہ کا تعین بھی۔ ہندو اور مسلم افسران پر مشتمل ایس آئی ٹی کی تشکیل دراصل علامتی اور عملی دونوں سطحوں پر اہم فیصلہ ہے۔ متاثرین کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ تحقیقات یکطرفہ نہیں ہوں گی۔ یہ ایک نئی پہل ہے، جس کا مقصد عوامی اعتماد بحال کرنا ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا افسران اپنی اصل وفاداری آئین اور قانون سے رکھیں گے یا کمیونٹی نمائندگی کے دباؤ میں آ جائیں گے؟ یہی اس تجربے کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ اگر ایس آئی ٹی نے غیرجانبداری کا ثبوت دیا تو یہ ماڈل مستقبل کے دیگر تنازعات اور فسادات کے معاملوں میں بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔
متاثرین کے لئےانصاف کا مطلب صرف مجرموں کو سزا دینا نہیں ان کے نزدیک انصاف یہ ہے کہ انہیں کھوئی ہوئی جانوں اور روزگار کے لئے مناسب معاوضہ ملے، سماج میں ان کی عزت و وقار بحال ہو، گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور آئندہ ایسے سانحات کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے متاثرین کے دل میں امید کی ایک کرن ضرور جگائی ہے، مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کی عدالتی تاریخ میں فسادات کے متاثرین کو اکثر دہائیوں تک انصاف کے انتظار میں رہنا پڑا ہے۔ جب بھی عدالتوں نے فسادات پر ازخود نوٹس لیا یا ایس آئی ٹی تشکیل دی، ابتدا میں بڑی توقعات وابستہ کی گئیں لیکن وقت کے ساتھ یہ توقعات کمزور پڑ گئیں۔ گجرات فسادات پر بنائی گئی ایس آئی ٹی کی رپورٹ آج بھی متنازع ہے۔ دہلی فسادات۲۰۲۰ء میں درجنوں گرفتاریاں ہوئیں لیکن ان کے مقدمات زیر التوا ہیں۔ یہی تلخ حقیقت ہمیں خبردار کرتی ہے کہ اکولہ کے معاملے میں محض خصوصی تفتیشی ٹیم کی تشکیل کافی نہیں۔ اس کے لئے شفافیت، تیز رفتار انصاف اور سیاسی دباؤ سے آزادی ضروری ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنی ذمہ داری نبھا دی لیکن حکومت اور سماج پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حکومت کو چا ہئے کہ وہ ایس آئی ٹی کو مکمل آزادی دے، کسی دباؤ یا مداخلت کے بغیر۔ گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جائے، متاثرین کے لئے امدادی پیکیج تیار کیا جائے اور سماجی اعتماد سازی کے لئے مثبت اقدامات کئے جائیں۔ اسی طرح سماج کو بھی اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہئے۔ فسادات محض ایک برادری کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ پورے ملک کے ضمیر کو مجروح کرتے ہیں۔ میڈیا کو چاہئے کہ وہ سنسنی خیز رپورٹنگ کے بجائے ذمہ دارانہ کردار ادا کرے تاکہ نفرت کی آگ مزید نہ بھڑکے۔
اکولہ فسادات پر سپریم کورٹ کا فیصلہ انصاف کی تلاش میں ایک نیا باب ہے۔ یہ فیصلہ اگر درست انداز میں نافذ ہوا تو یہ ملک کے لئے ایک مثالی ماڈل بن سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ محض علامتی اقدام بن کر رہ گیا تو متاثرین کی امیدیں ایک بار پھر مایوسی میں بدل جائیں گی۔ فیصلہ کتنا کامیاب ہوگا، یہ تو آنے والے دنوں میں ایس آئی ٹی کی کارکردگی طے کرے گی۔ تفتیش کی شفافیت، گواہوں کی حفاظت اور مجرموں کو سزا ہی وہ عوامل ہیں جو متاثرین کو یہ یقین دلا سکتے ہیں کہ اس بار انصاف واقعی ان کے دروازے تک پہنچا ہے۔ اکولہ کے فسادات نے ہمیں یہ سبق دیا کہ نفرت کی چنگاری لمحوں میں شہر کو آگ میں بدل سکتی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے نے ہمیں یہ امید دلائی کہ انصاف کی مشعل اب بھی روشن ہے۔ لیکن اصل سوال ابھی باقی ہے، کیا یہ مشعل اندھیروں کو واقعی ختم کر پائے گی یا پھر اس کی روشنی بھی بیچ راستے میں مدھم پڑ جائے گی؟وقت ہی اس کا جواب دے گا۔ فی الحال یہ فیصلہ ایک امید کا چراغ ہےجسے بجھنے نہیں دینا چا ہئے۔