• Sun, 14 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اس ہفتے کے موضوعات: نیپال تشدد، قطر پر اسرائیلی حملے اور مودی کا مظلومیت کارڈ

Updated: September 14, 2025, 12:43 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

اس مرتبہ بیشترغیر اردو اُخبارات نے نیپال کے دھماکہ خیز حالات، وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ کھیلا گیامظلومیت کا کارڈ، بہار میں جاری ایس آئی آر اور اس پر عوامی احتجاج، قطر پر اسرائیل کا حملہ، صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کا اساتذہ کے نام پیغام، نائب صدر جمہوریہ کیلئے ہونے والا انتخاب اورووٹ دینے کے ادھیکار وغیرہ موضوعات پر اداریئے اور مضامین لکھے۔

President Droupadi Murmu has also expressed regret over the trend of commercializing education. Photo: INN.
تعلیم کو تجارت بنادینے کے رجحان پر صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے بھی افسوس کااظہار کیا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

اس مرتبہ بیشترغیر اردو اُخبارات نے نیپال کے دھماکہ خیز حالات، وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ کھیلا گیامظلومیت کا کارڈ، بہار میں جاری ایس آئی آر اور اس پر عوامی احتجاج، قطر پر اسرائیل کا حملہ، صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کا اساتذہ کے نام پیغام، نائب صدر جمہوریہ کیلئے ہونے والا انتخاب اورووٹ دینے کے ادھیکار وغیرہ موضوعات پر اداریئے اور مضامین لکھے۔ آیئے ان میں سے کچھ منتخب ہندی، مراٹھی اور انگریزی اخبارات اداریوں کے موضوعات کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
نیپال حکومت نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ایسا ہوگا
پربھات( مراٹھی، ۱۰؍ستمبر)
’’حکومت کے فیصلے کے خلاف ملک کے نوجوانوں کے پر تشدد احتجاج کے بعدنیپالی حکومت کو مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر عائد پابندی ہٹانا پڑی۔ نیپال میں پھیلنے والی انارکی کا نوٹس صرف وہاں کی حکومت کو لینا پڑا، ایسا قطعی نہیں ہے بلکہ اب دنیا کے تمام ممالک کو اس انارکی کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ نیپال حکومت کے مطابق ملک میں کام کرنے والی مختلف سوشل میڈیا سائٹس بغیر اجازت نامہ کے جاری تھیں۔ اگرچہ یہ ایک انتظامی کارروائی کے طور پر درست ہے لیکن اس وقت جس طرح سے نوجوان سوشل میڈیا کے عادی ہیں، ان کو دیکھتے ہوئے ان نوجوانوں کے پاس اس بات کی فکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ آیا یہ سائٹس رجسٹرڈ ہیں یا نہیں۔ دوسری جانب نوجوان مظاہرین کے مطابق نیپال حکومت کی بدعنوانی کو سوشل میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر لایا جارہا تھا۔ اس لئے نیپال حکومت نے انہیں دبانے کیلئے سوشل میڈیا پر پابندی عائد کردی۔ پچھلے چند برسوں میں ’جین زی‘ نام سے مشہور نوجوان نیپال میں بدعنوانی پر مسلسل مسلسل اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے اور اس کیلئے مختلف سوشل میڈیا کی سائٹس کا استعمال کررہے تھے۔ نیپال حکومت نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی آواز کو دبانے اور اس کیلئے استعمال ہونے والے ذرائع پر پابندی لگانے کے بعد ملک کے نوجوان کی طرف سے اتنے بڑے پیمانے پر بغاوت ہوگی۔ چونکہ جدید نسل کیلئے اظہار خیال کا کوئی دوسرا پلیٹ فارم دستیاب نہیں ہے۔ اسلئے یہ نسل آسانی سے قابل رسائی پلیٹ فارم جیسے سوشل میڈیا کا استعمال اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کیلئے کررہی ہے۔ ‘‘
مودی بیرون ملک خوش اور ملک میں ناراض کیوں ؟
سامنا( مراٹھی، ۴؍ستمبر)
’’بھلے ہی وزیر اعظم نریندر مودی اپنے آپ کو’وشوگرو‘مانتے ہوں لیکن ان کا برتاؤ کبھی اس عہدے کے شایان شان نظر نہیں آیا۔ حال ہی میں مودی جاپان اور چین کا دورہ مکمل کرکے وطن واپس آئے ہیں۔ اس موقع پر بیرون ملک ان کی قہقہہ لگاتے ہوئی تصویریں وائرل ہوئیں لیکن وہ روتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہندوستان اُترے۔ انہیں رونے کیلئے کوئی نہ کوئی وجہ چاہئے تھا۔ بہار میں راہل گاندھی کی ووٹر ادھیکار یاترا کے دوران کسی نے مبینہ طور پر مودی کی ماں کو گالی دی تھی۔ بس اس کو بہانہ بنا کر وزیراعظم رونے لگے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک کی تمام ماؤں اور بہنوں کی توہین ہے۔ اگر کسی نے نہ صرف مودی بلکہ کسی کی بھی ماں اور بہن کی تذلیل کی ہے تو اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی جانی چاہئے، لیکن کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟بذات خود راہل گاندھی اور تیجسوی یادو کی زبان سے توہین آمیز کلمات کسی نے نہیں سنیں۔ جگہ جگہ میٹنگیں ہوئیں مگر کسی نے بھی مودی کی ماں کیلئے کسی بھی قسم کے توہین آمیز الفاظ استعمال نہیں کئے۔ اس دوران سبھی نے ’’ `ووٹ چور، گدی چھوڑ‘ ہی کا نعرہ بلند کیا۔ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ اس سے قبل بی جے پی کے کارکنان ہی نے ہجوم میں گھس کر ماحول خراب کرنے کی مذموم کوششیں کی ہیں۔ اس معاملے میں بذات خود مودی آنسو بھرے چہرے کے ساتھ داخل ہوئے اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ ‘‘
اسرائیل امن نہیں چاہتا ہے
دی انڈین ایکسپریس( انگریزی، ۱۱؍ستمبر)
’’قطر کے اوپر اسرائیل کے فضائی حملے غزہ میں جنگ بندی کے امکان کو متزلزل کرسکتے ہیں۔ اسرائیل نے دوحہ پر وحشیانہ کارروائی کرکے حماس کی مذاکراتی ٹیم کو نشانہ بنایا ہے۔ اس ٹیم کو جنگ بندی کی تازہ تجویز پر بات چیت کرنے کیلئے انہیں مدعو کیا گیا تھا۔ اسرائیل کے اس تازہ حملے میں حماس کے ۶؍ لیڈروں کی شہادت کی تصدیق ہوئی ہے۔ یہ حملہ اس بات کی علامت ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اس مسئلے کو مذاکراتی طور پر حل کرنے کے بجائے حماس کا مکمل خاتمہ چاہتےہیں یا پھر یہ کہ وہ جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس حملے کے فوراً بعد اسرائیل میں یرغمالیوں کے اہل خانہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم نیتن یاہو پر تنقید کی۔ بہرحال قطر کوئی عام ملک نہیں ہے۔ ایک چھوٹی سے خلیجی ریاست ہونے کے باوجود امریکہ کا کلیدی اتحادی ہے اور مشرقی وسطی میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے کی میزبانی کرتا ہے۔ قطری حکومت نے اسرائیلی حملہ کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ یقینی طور پر اسرائیل کا فضائی حملہ بین الاقوامی قوانین کے تحت خود مختاری، علاقائی سالمیت اور سیاسی آزادی کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ پچھلے دو سال اسرائیل ہر طرح کے عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کررہا ہے۔ ‘‘
اساتذہ کا وقار اور معیار گرا ہے
لوک مت سماچار( ہندی، ۸؍ ستمبر)
’’ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے بالکل درست فرمایا کہ اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اسمارٹ کلاس، اسمارٹ بلیک بورڈ اور دیگر جدید سہولیات کی اپنی اہمیت ہےلیکن سب سے اہم چیز ایک اسمارٹ ٹیچر ہے۔ جمعہ کو یوم اساتذہ کےموقع پر نئی دہلی میں نیشنل ٹیچر ایوارڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مرمو نے کہا کہ اسمارٹ ٹیچر وہ اساتذہ ہوتے ہیں جو اپنے طلبہ کی ہمہ جہت ترقی کو فوقیت دیتے ہیں۔ اسمارٹ ٹیچر محبت اور حساسیت کے ساتھ تدریس کو موثر اور دلچسپ بناتے ہیں۔ درحقیقت جدید ترین تکنیکی ترقی نے تعلیمی شعبے کو ہائی ٹیک بنا دیا ہے اور مصنوعی ذہانت نے طلبہ کے سامنے معلومات کا ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ کھول دیا ہے۔ لیکن صرف ایک استاذ ہی سکھا سکتا ہے کہ اس خزانے اور جدید ترین ٹیکنالوجی کا بہتر استعمال کیسے کیا جائے۔ ہمارے ملک میں اساتذہ کا درجہ قدیم زمانے سے بہت بلند رہا ہے۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے بادشاہ اور مہاراجہ بھی گرو کے سامنے اپنے سر جھکاتے تھے اور شہزادوں کو بھی آشرموں میں ایک عام طالب علم کی طرح رہ کر تعلیم حاصل کرنا پڑتی تھی۔ گزشتہ چند دہائیاں پہلے تک لوگ اساتذہ کا اتنا ہی احترام کرتے تھے جتنا پرانے زمانے میں گرو کا کیا جاتا تھا لیکن بدقسمتی سے تعلیم کو تجارت کے زمرے میں ڈالنے سے اساتذہ کا وقار اور معیار بری طرح گرا ہے اور دیگر پیشوں کی طرح اسے بھی ایک پیشہ سمجھا جانے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ میکانیکل طریقہ سے تعلیم حاصل کررہے ہیں، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر ہمیں الٹرا ماڈرن وسائل کی مدد سےکتابی علم بھلے ہی مل جائےحساسیت حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK