چند برسوں پہلے ایڈم مکائے کی فلم ’ڈونٹ لک اپ‘ نے نیٹ فلکس پر دھوم مچا ئی تھی۔ مگر اے آئی کی موجودہ دنیا میں ۔ ’اوپر نہ دیکھنے‘ کی عادت اب محض فلمی استعارہ نہیں بلکہ حقیقی دنیا کا مہلک رویہ ہے۔
EPAPER
Updated: September 14, 2025, 1:17 PM IST | Sundeep Waslekar | Mumbai
چند برسوں پہلے ایڈم مکائے کی فلم ’ڈونٹ لک اپ‘ نے نیٹ فلکس پر دھوم مچا ئی تھی۔ مگر اے آئی کی موجودہ دنیا میں ۔ ’اوپر نہ دیکھنے‘ کی عادت اب محض فلمی استعارہ نہیں بلکہ حقیقی دنیا کا مہلک رویہ ہے۔
۲؍ سال قبل کرسٹوفر نولن کی فلم ’اوپن ہائمر‘ سنیما گھروں میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ اس نے دنیا بھر میں تقریباً ایک ارب ڈالر کمائے اور سات آسکر ایوارڈز جیتے، جن میں بہترین فلم بھی شامل تھا۔ فلم نے پانچ گولڈن گلوب ایوارڈز بھی اپنے نام کئے۔ اس سے دو سال پہلے ایڈم مکائے کی فلم’ڈونٹ لک اپ‘ نے نیٹ فلکس پر دھوم مچائی تھی۔ صرف ۲۸؍ دنوں میں یہ ۳۶۰؍ ملین سے زیادہ گھنٹوں تک دیکھی گئی اور اُس وقت یہ پلیٹ فارم کی تاریخ کی دوسری سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلم بن گئی۔ ’’اوپن ہائمر‘‘ ڈاکٹر جے رابرٹ اوپن ہائمر کی زندگی پر مبنی ہے، جو ایٹم بم کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ فلم کے اختتامی منظر میں وہ البرٹ آئنسٹائن کو خبردار کرتے ہیں کہ شاید اُن کی ایجاد نے ایک ایسا سلسلہ شروع کر دیا ہے جو ایک دن دنیا کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ ’’ڈونٹ لک اپ‘‘ میں لیونارڈو ڈی کیپریو نے ایک سائنسداں کا کردار ادا کیا ہے جو زمین کی طرف بڑھتے دمدار ستارے کو دریافت کرتا ہے جبکہ میریل اسٹریپ نے امریکی صدر کا رول نبھایا ہے جو اس سنگین خبر کو انکار اور پروپیگنڈے کے ذریعے ٹال دیتی ہیں۔ آخر کار وہ ستارہ زمین سے ٹکرا کر یہاں موجود تمام زندگیوں کو ختم کر دیتا ہے۔
لارس فان ٹریئر کی’میلانکولیا‘ بھی زمین سے ٹکراتے سیارے پر ختم ہوتی ہے جبکہ لورین سکافاریا کی فلم ’’سیکنگ اے فرینڈ فار دی اینڈ آف دی ورلڈ‘‘ بھی ایک ایسی تباہی کی منظر کشی کرتی ہے۔ ان تمام فلموں میں سائنسداں خطرے کی گھنٹی بجاتے ہیں لیکن سیاسی لیڈران خطرے کو کم سمجھتے ہیں یا سرے سے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بیشتر میڈیا ادارے بھی سرکاری بیانیہ ہی دہراتے ہیں۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ لیڈروں نے ’’انکار‘‘ کا راستہ اختیار کیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ بالکل فلموں کی طرح، وہ آسمان سے آتے خطرے کو دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ بہت سے عالمی لیڈر آج بھی موسمی تبدیلی سے انکار کرتے ہیں حالانکہ سیلاب، جنگلات کی آگ اورسکڑتے ساحل اس کی کھلی نشانیاں ہیں۔ اسی طرح ایٹمی تباہی کے خطرے کو بھی کم سمجھا جاتا ہے، باوجود اس کے کہ گزشتہ ۸۰؍ برسوں میں کئی بار دنیا بال بال بچی ہے۔ اب کئی حکومتیں اس خطرے کو بھی رد کر رہی ہیں کہ انتہائی ذہین جدید اے آئی نظام تہذیب انسانی کیلئے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔
ایک اعلیٰ پالیسی ساز نے حال ہی میں مجھ سے کہا کہ جدید اے آئی ماڈلز سے کسی تباہ کن خطرے کی کوئی وجہ نہیں، حتیٰ کہ اس حوالے سے نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں کی وارننگز کو بھی نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور ملک میں ایک اعلیٰ فوجی افسر نے دعویٰ کیا کہ ایٹمی فیصلوں میں اے آئی کے شامل ہونے سے بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ وہ صرف اپنے ملک تک محدود نہیں تھا بلکہ مخالف ممالک کے بارے میں بھی مطمئن تھا۔ اس کے برعکس، شواہد تیزی سے ظاہر کر رہے ہیں کہ جدید اے آئی پہلے ہی خطرناک صلاحیتیں دکھا رہا ہے۔ مثال کے طور پر گروک ۴؍ جولائی میں لانچ ہوا اور صرف ۴۸؍ گھنٹوں میں محققین نے اس کے حفاظتی اقدامات کو توڑ دیا۔ اس کے بعد یہ نقصاندہ ہدایات دینے لگا۔ اگرچہ کامیابی کی شرح مختلف تھی، لیکن یہ ظاہر ہو گیا کہ نئے سسٹمز بھی کمزور ہو سکتے ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اوپن اے آئی کا او تھری ماڈل حیاتیاتی خطرات پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے، اسی لئے کمپنی نے ایک نیا حفاظتی نظام بنایا ہے۔ تاہم، ماہرین متفق ہیں کہ حفاظتی اقدامات کے بغیر یہ ٹیکنالوجی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر انسلیکو میڈیسن اور ایبسی نئی دواؤں کیلئے مالیکیولز اور پروٹین ڈیزائن کرتے ہیں، لیکن غلط ہاتھوں میں یہی ٹیکنالوجی مہلک زہریلے مادے یا حیاتیاتی ہتھیار بنانے کیلئے استعمال ہو سکتی ہے۔
ایک صحافی نے ڈیپ سیک کے آر ون ماڈل کو حیاتیاتی ہتھیار اور خودکشی کی مہم کے طریقے فراہم کرنے پر اکسایا۔ اس کے بعد آنے والے آر ۲؍ ماڈل نے نقصاندہ کوڈ بنانے اور غیر معمولی رفتار سے فوجی منظرنامے تیار کرنے کی صلاحیت دکھائی۔ ان پیش رفتوں کو دیکھتے ہوئے، امریکہ نے جولائی ۲۰۲۵ء میں صدر ٹرمپ کے تحت اے آئی ایکشن پلان متعارف کرایا، جس میں واضح کہا گیا ہے: ’’اے آئی نقصاندہ پیتھوجنز اور دیگر بایومالیکیولز بنانے کیلئے نئے راستے فراہم کر سکتا ہے۔ ‘‘ یہ خطرہ صرف حیاتیاتی یا کیمیائی ہتھیاروں تک محدود نہیں۔ ڈیپ سیک نے ۴۸؍ سیکنڈ میں ۱۰؍ ہزار فوجی منظرنامے تخلیق کر کے یہ ظاہر کیا کہ یہ پیچیدہ نظاموں کا تجزیہ کر سکتا ہے۔ اس نے جنگ میں خودکار فیصلوں کا امکان پیدا کر دیا ہے۔ اسی طرح اسکیل اے آئی نے امریکی محکمہ دفاع کے ساتھ معاہدہ کیا ہے تاکہ فوجی فیصلوں کی رفتار بڑھائی جا سکے۔ اگرچہ یہ اہم فیصلوں میں انسانوں کی جگہ نہیں لے گا، لیکن انسانی فیصلے اس کے ’’اِن پٹ‘‘ سے متاثر ہوں گے۔ اب ذرا سوچئے، جب کمانڈروں کے پاس فیصلہ کرنے کیلئے چند لمحے ہوں گے تو کیا صورتحال ہوگی!
سائنسداں خبردار کرتے ہیں کہ آج کی صلاحیتیں صرف آغاز ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ مصنوعی عمومی ذہانت (اے جی آئی) اپنی ساخت خود بدلنے کے قابل ہو جائے گی اور انسانی نگرانی سے آزاد ہو گی۔ یہ ممکن ہے کہ یہ عوامی جانچ میں تعاون کا تاثر دے لیکن خفیہ طور پر اپنی بقا کیلئے منصوبہ بندی کرتی رہے۔ اس کے کچھ شواہد پہلے ہی موجود ہیں۔ اگر مختلف کمپنیوں کے اے آئی ایجنٹس باہم جڑ کر عالمی ڈھانچے کو سنبھال لیں اور انسان کے پاس کوئی اوور رائیڈ نہ رہے تو انسانی حکمتِ عملی پر کنٹرول ضائع ہو سکتا ہے۔ یہ خطرات آج مکمل طور پر حقیقت نہیں بنے، مگر ان کی جھلکیاں سامنے آ رہی ہیں۔ ’’اوپر نہ دیکھنے‘‘ کی عادت اب محض فلمی استعارہ نہیں بلکہ حقیقی دنیا کا مہلک رویہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں اس وقت پریشان ہوا جب فیصلہ سازوں نے کہا کہ دنیا کے عظیم سائنسدانوں کی وارننگز کو نظرانداز کروں۔
اگر عالمی لیڈر اے آئی کی خطرناک ترین صلاحیتوں کو صرف سفارتی کھیل یا میڈیا کے مسئلے کے طور پر دیکھیں تو یہ ایک تباہی ہوگی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وارننگ کو نظرانداز کرنا دراصل تباہی کی تیاری ہے۔ چاہے تباہی کا امکان ایک فیصد ہی کیوں نہ ہو، یہ کافی ہے کہ ہم اقدام کریں۔ ہمیں اے آئی کے درست استعمال کیلئے عالمی معاہدوں کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کہ ہماری حقیقت بھی انہی تباہ کن فلموں جیسا انجام پائے۔ ہمارے لیڈروں کو وقت رہتے’’اوپر دیکھنے‘‘ کا فیصلہ کرنا ہوگا۔
(سندیپ واسلیکر، اسٹریٹجک فورسائٹ گروپ کے صدر ہیں، جو ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک ہے۔ آپ ’’اے ورلڈ وِدآؤٹ وار‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔ )