Inquilab Logo

ہاتھرس جیسے حساس معاملے پر یوگی سرکار کا رویہ افسوسناک

Updated: October 11, 2020, 11:38 AM IST | Jamal Rizvi

اپوزیشن کی جانب سے بار بار اس حادثے پر غم و غصہ کا اظہار ہونے کے باوجود حکومت نے جو ہٹ دھرمی دکھائی، اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یوگی حکومت اقتدار کے زعم میں اس حدتک مبتلا ہے کہ اسے انصاف کی فراہمی سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اعلیٰ افسران بھی اس حادثے کے تناظر میں جس طرح کی نسلی عصبیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ بھی افسوسناک ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی کے دور میں سماجی سطح پر تعصب اور نفرت کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے

Hathras - Pic : PTI
ہاتھرس معاملے پر پورا ملک سراپا احتجاج ہے لیکن یوگی سرکارکو کچھ فرق ہی نہیں پڑ رہا ہے

ہاتھرس میں دلت طبقے سےتعلق رکھنے والی ایک لڑکی کے ساتھ جو حیوانیت کی گئی وہ کسی بھی مہذیب سماج کیلئے نہایت افسوس کی بات ہے۔اس معاملے کے منظر عام پر آنے کے بعد یوگی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جس طرح کی سیاست ہو رہی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والی لڑکی کیلئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کے بجائے اپنی سیاست چمکانے پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔اس معاملے میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان جو لفظی جنگ جاری ہے، اس میںمتاثرہ لڑکی اور اس کے خاندان کے تئیں مخلصانہ ہمدردی کا عنصرمفقود ہے۔ ان دونوں سیاسی پارٹیوں کے علاوہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے بھی اپنے اپنے طور پر اس معاملے کی بنیاد پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کی ۔ سیاسی پارٹیوں کی اس طرز کی کوششوں سے متاثرہ کو انصاف مل پائے گا، اس کے متعلق یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
 اترپردیش کی موجودہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے والی یوگی آدتیہ ناتھ نے اقتدار حاصل کرنے کے کچھ ہی مہینوں کے بعد جس طرح پولیس کو نظم و نسق کو بہتر بنانے کی مکمل’ آزادی‘ دے دی تھی، اس سے لگنے لگا تھا کہ اس ریاست میں اب سماج کے شرپسند عناصر کو بہت زیادہ آزادی حاصل نہیں رہے گی۔ وزیر اعلیٰ کی اس کوشش کے باوجود ریاست میں نظم و نسق کی حو صورتحال ہے وہ بہت افسوس ناک ہے۔ اس افسوس ناک صورتحال کی تازہ ترین مثال ہاتھرس کا حالیہ حادثہ ہے۔
 اس حادثے کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد ریاستی حکومت اور انتظامیہ نے جو رویہ اختیار کیا، وہ مزید افسوس ناک ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے بار بار اس حادثے پر غم و غصہ کا اظہار ہونے کے باوجود حکومت نے جو ہٹ دھرمی دکھائی، اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت اقتدار کے زعم میں اس حدتک مبتلا ہے کہ اسے انصاف کی فراہمی سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ریاستی انتظامیہ کے بعض اعلیٰ افسران بھی اس حادثہ کے تناظر میں جس طرح کی نسلی عصبیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ بھی افسوس ناک ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی کے دور حکومت میں سماجی سطح پر تعصب اور نفرت کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس رجحان میں اضافے کا شکار وہ تمام لوگ بنتے ہیں جو سماجی اور معاشی اعتبار سے کمزور ہیں۔ یوپی میں بھی سماجی سطح پر اس رجحان میں اضافے کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ادھر گزشتہ کچھ برسوں کے دوران اس ریاست میں سماجی سطح پر جو انتشار ظاہر ہوا وہ صرف ہندو اور مسلمان کے درمیان تعصب اور نفرت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس زد پر وہ طبقات بھی ہیں جو مذہبی اعتبار سے یکساں ہونے کے باوجود سماجی اور معاشی اعتبار سے کمزور ہیں۔ہاتھرس کا معاملہ اس ریاست کے سماجی نظام میں پیدا ہونے والی خرابی کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے۔
 بی جے پی نے اپنے بعض سیاسی مفادات کے حصول کیلئے ہندوستانی سماج میں نفرت اور تعصب کے رجحان کو جس طرح ہوا دی ہے وہ کئی سطحوں پر معاشرہ کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے یوپی میں حکومت بنانے کے بعد بڑے طمطراق سے یہ کہا تھا کہ اب ریاست میں ہر طرف امن و امان ہوگا اور سابقہ حکومتوں کے دورمیں سماج کے غنڈہ عناصر کو جو چھوٹ حاصل تھی، وہ اب ختم ہو جائے گی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے اس دعوے کو عملی شکل دینے کیلئے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا۔ یہی سبب ہے کہ اس ریاست میں پولیس کو ملی آزادی کے باوجود نظم و نسق کو برقرار رکھنا ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ریاست کے وزیرا علیٰ اس مسئلے کو حل کرنے کے بجائے ریاستی نظم و نسق کی بگڑی ہوئی صورتحال کو اپوزیشن پارٹیوں کو سازش قرار دیتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ریاست کا نظام ان کے ہاتھوں میں ہے تو کوئی دوسری سیاسی پارٹی اگر اس نظام میں خرابی پیدا کرنے کی کوشش بھی کرے تو اسے بہت زیادہ کامیابی نہیں ملے گی۔ اس ملک کی نوکرشاہی کے مزاج سے واقفیت رکھنے والے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس وقت جو سیاسی پارٹی برسر اقتدار ہوتی ہے ، تمام انتظامی امور اسی کی مرضی کے مطابق انجام پاتے ہیں۔ ایسی صورت میں ریاست میں نظم و نسق کی ابتر صورتحال کوحزب مخالف کی سازش قرار دینا کسی طور سے بھی مناسب نہیں ہے۔
 ہاتھرس معاملے میں ریاستی حکومت کی جانب سے ایک اور غیر دانشمندانہ بیان یہ سامنے آیا ہے کہ جس طرح سی اے اے مخالف مظاہروں سے نمٹا گیا، اسی طرح اس معاملے سے بھی نمٹا جائے گا۔ اگر دونوں معاملوں کی نوعیت کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ریاستی حکومت صرف طاقت کے زور پر کام کرنے میں یقین رکھتی ہے ۔ وہ اقتدار کے زعم میں اس طرح مبتلا ہے کہ اسے سماج اور عوام کے آئینی حقوق اور انتظامی امور کو بہتر طریقہ سے انجام دینے کی مطلق پروا نہیں ہے۔اس کے علاوہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش بھی بھگوا گروپ کی جانب سے ہور ہی ہیں ۔ یہ اس گروپ کا آزمودہ نسخہ ہے کہ جب کوئی حساس یا سنگین معاملہ اس کے گلے کی پھانس بن جاتا ہے تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنےکیلئے فرقہ واریت کا حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ہاتھرس معاملے میں بھی چار مسلم نوجوانوں کی گرفتاری سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت فرقہ واریت کی آڑ میں اس معاملے کی سنگینی کو کم کرنا چاہتی ہے۔ریاستی حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے جس طرح کے پینترے استعمال کئے جارہے ہیں اس میں یہ بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں یہ معاملہ کوئی اور رنگ اختیار کر لے۔
 ایسے حساس اور سنگین معاملے پر سیاست کرنے کے بجائے متاثرہ کو انصاف دلانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ اس مقصد کیلئے ریاستی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اسلئے بھی ضروری ہے کہ ہاتھرس سمیت مغربی پوپی کا جو سماجی ماحول ہے، اس میں اعلی ٰ اور ادنیٰ کی تفریق اس قدر شدید ہے کہ یہ تفریق بعض اوقات انتہائی غیر انسانی شکل میں ظاہر ہوتی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے معاملات رونما ہونے کے بعد سماج واضح طور پر دو خانوں میں تقسیم ہو جاتا ہے ۔ اس میں ایک طبقہ متاثرین کیلئے انصاف کا مطالبہ کرتا ہے اور اور دوسرا طبقہ اپنی نسلی اور سماجی برتری کی بنیاد پر اس مطالبے کو کمزور بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ہاتھرس میں بھی اس وقت یہی صورتحال نظر آتی ہے ۔ یوگی حکومت کو ترجیحی طور پر یہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ سماج میں پیدا ہو گئی اس خلیج کو کم کرنے کی کوشش کرے ۔جب تک سماج میں پسماندہ طبقہ کے افراد کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا تب تک معاشرہ انسانی قدروں کی پیروی کا اہل نہیں ہو سکتا۔ہاتھرس اور اس طرح کے دوسرے معاملات میں اس پہلو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاستی حکومت اس سمت میں کچھ مفید اقدام کرنے کے بجائے تعصب اور نفرت کے رجحان کو بالواسطہ طور پر بڑھاوا دینے کا کام کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ریاستی انتظامیہ سے وابستہ افراد کو بھی اپنے نسلی تعصب سے بالاتر ہو کر آئینی احکامات کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اتر پردیش میں حالات بہت اطمینان بخش نظر نہیں آتے۔ 
 یوگی حکومت جس طرح اس پورے معاملے کو اپوزیشن پارٹیوں کی سیاسی سازش قرار دے کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کر رہی ہے، وہ اس کی نااہلی کو ثابت کرتا ہے۔ اس معاملے میں ضلع انتظامیہ کے رویے کی غیر جانب دارانہ جانچ ہونی چاہئے۔ جن افراد نے یہ انسانیت سوز عمل انجام دیا ہے، ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہے اور متاثرہ کے اہل خانہ کیلئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔ ان اہم اور ضروری اقدامات کے متعلق سنجیدگی کا اظہار کرنے کے بجائے ریاستی سرکاران امور پر توجہ دے رہی ہے جو اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنانے والے ہیں۔ان سب کے درمیان یوگی حکومت کو اس کام کیلئے بھی سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے کہ ریاست میں امن و امان کا ماحول قائم ہو اور عوام کسی خوف و ہراس میں مبتلا ہوئے بغیر زندگی گزار سکیں ۔ اس کے ساتھ ہی ریاست گیر سطح پر ضلع انتظامیہ اور پولیس عملے کو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے مخلصانہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے اندر حکومت کے تئیں اعتماد پیدا ہو سکے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تبھی یوگی حکومت یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ ریاست میں سب کچھ ٹھیک ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK