Inquilab Logo

میں اورعظیم پریم ایک اسکول میں پڑھتے تھے’سرنیم‘ کی وجہ سے لوگ سمجھتے تھے ہمارا کوئ خاندانی تعلق ہے

Updated: February 07, 2023, 4:40 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

باندرہ میں رہائش پزیر۸۴؍سالہ کریم علی بھائی پریم جی کی پیدائش جنوبی ممبئی کے ڈونگری علاقے میںہوئی تھی۔ موٹرسائیکل اور گاڑیوں کے ٹائر کے کاروبار سے وابستہ رہنے کے بعد ان دنوں ’سبکدوشی‘ کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن سماجی طور پر آج بھی پوری طرح فعال ہیں

photo;INN
تصویر :آئی این این

ایک کامیاب تاجر ہونے اور سماج میں تعلیم کی اہمیت سے باخبرہونے کی وجہ سے کریم علی پریم جی نےاپنے بچوںکو اعلیٰ تعلیم سے نوازا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے بچے آج بیرون ممالک میں کامیاب زندگی بسر کر رہےہیں۔ بچوںاور عزیزوں کے بیرونی ممالک میں ہونے سے ان کے مراسم جہاں ممبئی اور ملک میں وسیع ہیں وہیں بیرونی ممالک کے شہریوں سے بھی ان کی واقفیت بڑے پیمانے پر ہے۔ جس کا تذکرہ ان کی باتوںمیں اکثر ہوتاہے۔ اسکولی زمانے میں یہ اور  وپرو کمپنی کے سربراہ عظیم پریم جی  ایک ساتھ پڑھ رہے تھے جس کی وجہ سے لوگوں کو ایسا لگتا تھا کہ ان دونوں میں کوئی خاندانی تعلق ہے، حالانکہ ان دونوں میں  سرنیم کے علاوہ دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ 
موٹر سائیکل پر پورے ملک کی سیر
  ان ہی تعلقات کی بنیاد پر ایک واقعہ بیان کرتےہوئے انہوںنے بتایاکہ ’’میری موٹر سائیکل کاشور وم ، گرانٹ روڈ پر ہے جہاں سماج کے  مختلف طبقات کے لوگ موٹر سائیکل خریدنے آتے ہیں۔ ان میں کچھ خریدار ایسے بھی ہوتے تھے جن کا تعلق بیرون ممالک سے بھی ہوتا  ہے۔   اسی طرح لندن کا ایک نوجوان جوڑا تقریباً ۴۰؍سال قبل ممبئی آیاتھا، جسے میں جانتا تھا۔ یہ جوڑا ہندوستان کی سیر کرنےکا خواہشمند تھا جس کیلئے انہیں ایک موٹر سائیکل کی ضرورت تھی ۔ جوڑے نے مجھ سے موٹرسائیکل خریدی تھی۔موٹر سائیکل خریدنے کے ایک سال بعد وہ لوگ دوبارہ میرے  پاس آئے اورکہاکہ موٹرسائیکل سے ہم نے ہندوستان بھر کی سیر کرلی ہے اور خوب انجوائے کیا لیکن اب ہم واپس لندن جارہےہیںلہٰذا  ہم چاہتے ہیں کہ موٹرسائیکل آپ کسی کے ہاتھوںفروخت کردیں ۔ میں نے ان سے موٹرسائیکل واپس لے لی...لیکن ان کے جذبے اور موٹر سائیکل پر ملک کی سیرکرنے کاحوصلہ ابھی تک یاد ہے۔ ‘‘
بیرون ممالک میں ٹریفک کا نظام بہت اچھا ہے
  یورپی ممالک کی سیراور وہاں کی تہذیب اور اُصول پرستی سے متعلق اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے ،کریم بھائی نے بتایاکہ ’’ بیرونی ممالک میں سڑکوںاور چوراہوںپر سگنل اور ٹریفک پولیس اہلکار نہیں ہواکرتےتھے۔ اس کےباوجود وہاں کے لوگ اس قدر بااُصو ل تھےکہ موٹرگاڑیاں چلاتے و قت ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہیں کیاکرتےتھے۔ اگر کسی چوراہے پر میری موٹرگاڑی کھڑی ہوتی ،اسی دوران دیگر سمت سے موٹر گاڑیاں آنے لگتیں تو ،میری موٹرگاڑی اس وقت تک وہیں رکی رہتی جب تک دیگر سمت کی سبھی موٹرگاڑیاں پار نہیں ہوجاتی تھیں۔ ان گاڑیوں کےپار ہونےکےبعد میری گاڑی پار ہوتی، لوگ بہت سکون اور صبر سے ڈرائیونگ کرتے تھے۔ اس لئے وہاں سگنل اور ٹریفک پولیس کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ان ممالک کی اس خوبی سے میں بہت متاثر تھا۔ جبکہ ممبئی کا حال اس کے برعکس ہے۔ ‘‘
میری نواسی ہندوستانی کلچر سے بہت متاثر ہے
 کریم بھائی کے بقول ’’ایک بار میری نواسی امریکہ سے اپنے متعلقین کے ساتھ ہندوستان تفریح کیلئے آئی تھی۔ وہ ممبئی سے دہلی گئی تھی۔ دہلی میں تفریح کےدوران ایک سڑک پر اچانک اس کا پیر گوبرمیں جانے سے گندہ ہوگیاتھا۔ گوبر لگنے سے وہ پریشان ہوگئی تھی۔ وہاں گوبر صاف کرنےکی کوئی سہولت نہیں تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھاکہ وہ گوبر کیسے صاف کرے؟ اسی سڑک کے کنارے بیٹھا ایک ادھیڑعمر کا شخص ،میری نواسی کی کیفیت بھانپ رہاتھا۔ کچھ دیر بعد وہ شخص ہاتھ میں ایک کپڑالے کر آیا، اپنے ہاتھوں سے نواسی کے پیر اورچپل کو صاف کیا۔ میری نواسی یہ پورا منظر دیکھتی رہی۔ وہ بہت حیران تھی کہ اس کی عمر سے بڑا ایک شخص ، گوبر میں سنے اس کےپیر اور اس کی چپل اپنے ہاتھوں سے پونچھ رہاتھا۔ دہلی سے ممبئی واپس ہونے پر اس نے پورا واقعہ مجھے سنایا اور کہاکہ میںاس ہندوستان کو کبھی نہیں بھول سکتی ہوں جہاں اس طرح کے لوگ رہتےہیں۔ وہ ہندوستان کے اس کلچر سے بہت متاثر ہوئی تھی۔‘‘ 
وہ نوجوان آج  دبئی میں کامیاب زندگی گزار رہا ہے
 فدائی ایجوکیشن اکیڈمی اندھیری سے وابستہ ہونے اوریہاں کے طلبہ سے اپنی محبت اور اخوت کا تذکرہ کرہوئے انہوںنے بتایاکہ ’’ہم غریب اورپسماندہ طبقے کےطلبہ کوپڑھانےکے علاوہ ان کی رہائش کا بھی انتظام کرتےتھے۔ کچھ (گجرات ) کا ایک طالب علم ہمارے پنچ گنی کے ہوسٹل میں رہتاتھا۔اس نے دسویں جماعت میں نمایاں نمبرات سے کامیابی حاصل کی تھی۔ہمارے یہاں صرف دسویں تک کی پڑھائی کا انتظام تھا۔دسویں کے بعد ہم طلبہ کو ان کے والدین کے حوالے کردیتے ہیں مگر یہ طالب علم فدائی سے جانےکیلئے تیار نہیں تھا۔ وہ کہہ رہاتھاکہ میں کالج کی پڑھائی بھی یہاں سے کروںگا۔ اس کی ضداور پڑھائی کے شوق نے ہمیں اس کی پڑھائی کا انتظام کرنے پر مجبو ر کردیاتھا۔ میں نے اس سے کہاکہ تمہاری رہائش کا انتظام میں ایک سنیئر سٹیزن سینٹر میں کر سکتا ہوں جہاں تمہیں بزرگوں کی خدمت کرنی ہوگی، ساتھ ہی اپنی پڑھائی بھی، جس پر وہ آمادہ ہوگیا۔ اس طالب علم نے اسی سینٹر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے کمپیوٹر انجینئر نگ کا کورس مکمل کیا تھا۔ آج وہ دبئی میں ایک آئی ٹی کمپنی میں ملازمت کرکے کامیاب زندگی بسر کررہاہے ۔ ‘‘
عظیم پریم جی اور میں
 اپنے اسکول کے زمانےکی یادوںکا ذکر کرتےہوئے انہوںنے کہاکہ ’’جب میں مجگائوں کے سینٹ میری  اسکول میں زیر تعلیم تھا ،اس وقت ممبئی کےمتعدد بڑے گھرانوںکے بچے یہاں پڑھتے تھے۔جن میں عظیم پریم جی بھی شامل تھے ۔ میرے نام کے ساتھ بھی پریم جی  لگا ہوا  تھا، جس کی وجہ سے لوگ سمجھتے تھے کہ میرا تعلق بھی عظیم پریم جی سے ہے  یا پھر ہمارا کوئی خاندانی تعلق ہے مگر سچائی یہ ہےکہ میرا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔  اسکول میں وہ مجھ سے ایک کلاس پیچھے تھے۔ عظیم پریم جی کی کامیابی اور ان کی سماجی اور معاشی خدمات کو دیکھتاہوں تو فخر ہوتاہےکہ کسی دور میں ہم اسکول کے ساتھی ہواکرتےتھے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK