Inquilab Logo

بیت بازی کا احیاء: مثبت اقدام کی فوری ضرورت

Updated: May 01, 2023, 3:43 PM IST | Ghani Ghazi | Mumbai

ممبئی ، بھیونڈی ، تھانے ،پونے، اورنگ آباد،امراوتی، ناگپور، مالیگاؤں اور ناسک سے کبھی کبھار بیت بازی کے مقابلوں کے انعقاد کی خبریں سننے کو مل جاتی ہیں لیکن چھوٹے شہروں اور قصبوں کی اسکولوں میں یہ فن اپنی آخری سانسیں گن رہاہے جس کے سبب طلبہ میں ادبی ذوق کا فقدان نظر آرہا ہے

By organizing Bait Bazi competitions, the taste of poetry and poetry comprehension is awakened in the students
بیت بازی کے مقابلوں کے انعقاد سے طلبہ میں شعر گوئی اور شعر فہمی کا ذوق بیدار ہوتا ہے

  وہ بھی کیا دن تھے کہ اردو  زبان کے تعلیمی اداروں میں  بیت بازی کے مقابلے بڑے  اہتمام سے منعقد کئے جاتے تھے۔  طلبہ جوش و خروش کے ساتھ حصّہ لیتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔علم و ادب کے دانشور  حضرات منصفی کے فرائض انجام دیتے اور صرف طلباء وطالبات ہی نہیں بلکہ ان کے والدین اور معزز شہری بھی اشعار سننے کے لئے گھنٹوں بیٹھے  رہتے تھے۔ تعلیمی ادارے بین الجماعت ،ضلع  بلکہ ریاستی  سطح پر بھی بیت بازی  کے مقابلوں اہتمام کرتے تھے ۔ کالجوں کے وسیع و عریض ہال یا پھر اسکولوں کے میدانوں میں شامیانے سجاکر بیت بازی ہوتی تھی۔ اس دن تو  جشن کا ماحول رہتا تھا۔ انعام یافتگان کو نہ صرف ٹرافیاں  اورشیلڈ بلکہ نقد  رقوم بھی انعام میںدی جاتی تھیں۔ شرکائے بزم کی جانب سے بھی دل میں اتر جانے والے اشعار پر طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے نقد انعامات دئیے جاتے تھے۔ 
   ہر شعر پر تالیوں کی گونج گواہی دیتی تھی کہ طلبہ میں ادبی ذوق اورسخن فہمی پروان چڑھ رہے ہیں۔ بیت بازی کے لئے اساتذہ مہینوں تیاری کرواتے تھے ۔ مقابلہ میں حصہ لینے والوں کی ذہانت، یاد داشت تو قابل تحسین ہوتی ہی تھی ،حاضرین کے تلفظ کی اصلاح بھی ہو جاتی تھی۔ سونے پہ سہاگہ بچوں کے انداز بیاں پر چاروں طرف سے گلہائے داد و تحسین نچھاور کئے جاتے تھے۔ پہلے پہل تو بیت بازی بہت سادہ  ہوتی تھی جس حرف پر شعر ختم ہوتا  اسی حرف سے دوسری ٹیم کو شعر کہنا پڑتا ۔ شعر غلط ہو اتو اگلی ٹیم کواصلاح کا  موقع دیاجاتا تھا مگر  وقت کے ساتھ ساتھ بیت بازی کے نت نئے اصول و ضوابط مرتب ہوتے گئے اور اس مقابلہ کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش ہونے لگی۔ اول اول تو بیت بازی کے موضوع  پر کتابیں دستیاب نہ تھیں اور اگر ہوں گی بھی تو تعلیمی اداروں اور طلباء  و طالبات کو علم نہ تھا۔ اساتذہ اپنے طور پر بچوں کو تیار کرکے مقابلے میں اتارتے تھے۔ البتہ ممبئی ، بھیونڈی ، تھانے ،پونے، اورنگ آباد،امراوتی، ناگپور، مالیگاؤں اور ناسک  جیسے بڑے شہروں سے کبھی کبھار بیت بازی کی خبریں پڑھنے یا سننے کو مل جاتی ہیں لیکن چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں کی اسکولوں میں یہ فن اپنی آخری  سانسیں گن رہاہے جس کے سبب طلباء میں ادبی ذوق کا فقدان نظر آرہا ہے۔ ایسی شکایات عام طور پر سننےاورپڑھنے کو مل جاتی ہیں  جن کے سد باب کے لئے ٹھوس اقدامات کی اشداور فوری ضرورت ہے۔
                                                             شکوۂ  ظلمت  ِ  شب  سے  تو کہیں  بہتر  تھا
                                                             اپنے  حصہ کی کوئی   شمع   جلاتے  ؕجاتے    (    احمد  فراز  )
  اس سمت میں  چندبا شعور اہل علم و ادب نے مثبت کوششیں کی  ہیں بھیونڈی کی ’انجمن فروغ تعلیم‘  طویل عرصے سے بیت بازی  کے مقابلے  شہر کے اردو اسکولوںکے  درمیان منعقد کر رہی ہے۔اس انجمن نے  ۲۰۰۶ء میں اس موضوع  پر ’’ آپ مسافر آپ ہی منزل ‘‘ کتاب شائع کی ہے  اس کتاب کے اب تک چار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔جس میں حروف تہجی کے مطابق سیکڑوں اشعار شامل ہیں۔ اس کتاب کے مرتب اقبال عثمان مومن ہیں۔اسی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے  ۲۰۱۶ء  میں راقم الحروف نے بیت بازی میں حصہ لینے والوں کی رہنمائی کے لئے ’’شعری کہکشاں ‘‘ نامی کتاب مرتب کی تھی ۔
  معروف محقق خلیق الزماں نصرت نے بھی  ۲۰۲۱ء میں’’ بیت بازی‘‘ کے  عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ہے۔ یہ بھی  شا ئقین کے لئے بڑی کار آمد کتاب ہے۔بھیونڈی کی معروف شخصیت   ایڈوکیٹ یٰسین مومن نے اپنی ضخیم کتاب ’’ شعور جنوں ‘‘ میں مختلف عنوانات کے تحت دو ہزار سے زیادہ اشعار اکٹھا کرکے بیت  بازی میں مخصوص عنوان راؤنڈ میں حصہ لینے والوں کی مشکل آسان کردی ہے ۔
   ڈاکٹر عائشہ سمن ( ممبئی ) نے اپنی ضخیم ترین کتاب’’ شعر ستان ‘‘ کے سوانو سو صفحا ت پر بیت بازی  کے اصول و قواعد متعین کر دئیے ہیں  نیزلفظ، تخلص ،شاعر،   پہچان کون ،  تکرار لفظی ،طنز و مزاح ،منظرتصویر ، متفرق اشعار ،سلسلۂ اشعار ،تکمیل شعر جسیے مختلف راؤنڈ کی وضاحت اور تفصیلات کے ساتھ ساتھ ان کے اشعار کی مثالیں بھی پیش کی ہیں۔ اس کتاب میں محترمہ نے حروف راؤنڈ  میں ’ آ‘  سے لے کر ’ی‘  تک  کے اشعار کو بھی شامل کرکے کتاب کی اہمیت  ‘ افادیت  اور دستاویز ی حیثیت میں چار چاند لگادئیے ہیں ۔ شاعر راؤنڈ کے تحت  ۳۱ ؍ شعراء کرام کے اشعار کو جگہ  دی گئی ہے جبکہ تخلص راؤنڈ   میں ۱۵ ؍ شعراء کا کلام شامل ہے۔
  ڈاکٹر عائشہ سمن نے اس تالیف کے پیش لفظ میں بجا فرمایا ہے کہ ’’بیت بازی شعری سرمائے کے تحفظ اور اُسے نسل در نسل منتقل کرنے کا وہ کامیاب ذریعہ ہے جسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اسکول و کالج کے طلباء سے لے کر اساتذہ کرام تک میں شعری رجحان کو پروان چڑھانے کا یہ ایک معتبر وسیلہ ہے۔‘‘اردو زبان کی نزاکت، سائستگی، شگفتگی ،   شیرینی، انداز بیان،الفاظ کی لچک، جملوں کی نشست و برخاست ،مصرعوںکے اوزان ، رموزِ اوقاف اور اعراب کے ساتھ پڑھنے کا سلیقہ جیسی خوبیاں نئی نسلوں تک پہنچانے  کے لئے بیت بازی  سے  بہتر ذریعہ کوئی نہیں کہ جب تک طلباء شعر کو رموزاوقاف کے ساتھ نہیں پڑھیں گے اس کا مطلب و معنی اخذ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بیت بازی میں بچے پہ سب کچھ بخوبی سیکھ جاتے ہیں۔ پروفیسر عائشہ کی   اس کتاب کو محض ترتیب و تدوین نہیں کہا جاسکتا  بلکہ  اس  موضوع پر یہ  اپنی نوعیت کی منفرد اور معرکہ آراء تصنیف ہے جس میں موضوع کے ساتھ بھر پور انصاف کیا گیا ہے۔ حروف تہجی کے لحاظ سے   سیکڑوں اشعار کی تلاش بسیار آسان   کام نہیں ہے۔ اس کتاب میں وہ نئے اصول و ضوابط بھی قلم بند ہیں جنہیں ہم نے اس سے قبل نہ کبھی سنا نہ پڑھا تھا۔ گویا بیت بازی کا اہتمام کرنے والوں اور  بیت خواہوں  کے لئے یہ کتاب سنگ میل اور مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اُسی طرح یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز ہے جو اردو کی نئی نسلوں  ،شیدائیان ِ اردو، باذوق حضرات ،اردو پڑھانے والے اساتذہ اور ریسرچ  اسکالرس   کے لئے قد م قدم  پر رہنمائی کاباعث بنے گی ۔ 
 گویا متذکرہ  بالا تالیفات بیت بازی کے احیاء کے لئے مثبت قدم اور اس فن کو نئے سرے سے سنوارنے سجانے میں ممدو معاون ثابت ہو ں گی بشرطیکہ ان مفید ترین تالیفات کی روشنی اور رہنمائی میں ہائی اسکول،ڈگری کالج،پوسٹ گریجویشن کالج حتیٰ کہ ٹیچرس ٹریننگ کالجوں میں ہرسال باقاعدہ بیت بازی کا انعقاد کیا جائے۔ اردو تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اور ادبی انجمنوں کے اشترک سے یہ بامقصد تحریک  انجام دی جاسکتی ہے جس سے طلباء و طالبات کے دلوں میں اردو دوستی اور اردو نوازی کے نہ صرف جذبات بیدار ہوں گے بلکہ وہ ہمارے ہزاروں برس پرانے شعری سرمایہ کے محافظ بن کر اردو زبان کی ترقی و ترویج ، تبلیغ و اشاعت اور بقاء کا وسیلہ ثابت ہوں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK