اِبلاغ عربی زبان کے بابِ افعال سے بطور مصدر مستعمل ہے جس کا معنی ہے: پہنچا دینا۔ باب تفعیل سے یہی مصدر ’تبلیغ‘ کے وزن پر آتا ہے جس کا مفہوم خوب اچھی طرح پہنچا دینا ہے۔ اِبلاغ عامہ کی انگریزی اصطلاح ماس کمیونی کیشن کا مفہوم بھی یہی ہے کہ عام لوگوں تک بات پہنچائی جائے۔
قرآن حکیم نے ابلاغ کے ضمن میں اتنی جامع رہنمائی دی ہے جو ہر دور پر منطبق ہوتی ہے۔ تصویر : آئی این این
اِبلاغ عربی زبان کے بابِ افعال سے بطور مصدر مستعمل ہے جس کا معنی ہے: پہنچا دینا۔ باب تفعیل سے یہی مصدر ’تبلیغ‘ کے وزن پر آتا ہے جس کا مفہوم خوب اچھی طرح پہنچا دینا ہے۔ اِبلاغ عامہ کی انگریزی اصطلاح ماس کمیونی کیشن کا مفہوم بھی یہی ہے کہ عام لوگوں تک بات پہنچائی جائے۔ اس اصطلاح سے پہلے جرنلزم کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی لیکن اس کا دائرہ محدود تھا۔ یعنی صرف صحافتی دنیا میں شائع ہونے والی خبریں مراد تھیں ۔ اب اِبلاغِ عامّہ میں اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم، انٹرنیٹ (اور موجودہ دور کے سوشل میڈیا) وغیرہ سب شامل ہیں ۔ نزولِ قرآن کے وقت خبر کی اشاعت کا بڑا ذریعہ شاعری، اسواق (میلے) ندوات (مقامی مجلسیں ) اور ’سہرات‘ رات کی نشستیں ہوا کرتی تھیں ۔ قرآن حکیم نے اِبلاغ کے ضمن میں اتنی جامع رہنمائی دی ہے جو ہر دور پر منطبق (apply) ہوتی ہے۔
اِبلاغ کے بنیادی اصول
مستند اور ٹھوس حقیقت: پہلا اصول یہ دیا کہ خبر بے لگام نہیں ہونی چاہئے، بلکہ اس کا ایک حوالہ ہونا چاہئے۔ اور وہ حوالہ اللہ کی ربوبیت پر ایمان کی دعوت کے ساتھ انسانیت کی خیرخواہی اور راست بازی کا قیام ہے:
’’(حضرت ہود ؑنے اپنی قوم سے کہا) کہ میں تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں ، اور تمہارا ایسا خیرخواہ ہوں جس پر بھروسا کیا جاسکتا ہے۔‘‘ (اعراف:۶۸)
واضح اور ابہام سے پاک: دوسرا اصول یہ دیا کہ خبر واضح ہو۔ اس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہونا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے قرآن حکیم ’بلاغ‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے جس کا مفہوم واضح پیغام (اعلامیہ) ہے:
’’یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لئے اور یہ بھیجا گیا ہے اس لئے کہ اُن کو اس کے ذریعے خبردار کیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں ، وہ ہوش میں آجائیں۔‘‘ (ابراہیم :۵۲)
کہیں اِبلاغ کے ساتھ مبین کا لفظ استعمال ہوا: ’’اور ہم پر صاف صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔‘‘ (یٰسین: ۱۷)
مؤثر اِبلاغ: تیسرا اصول یہ دیا گیا کہ اچھی خبر سے آگاہ کردینا کافی نہیں ہے، بلکہ اسے بار بار نشر کرنا اور دلوں کی گہرائی میں اُتارنا ضروری ہے: ’’اے ؐ رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں کو پہنچا دیجئے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے پیغام پہنچایا ہی نہیں۔‘‘ (المائدہ :۶۷)
یہ فریضۂ اِبلاغ پوری دل سوزی سے ادا کیا جائے:’’انہیں سمجھائو اور ایسی نصیحت کرو جو اُن کے دلوں میں اُتر جائے۔‘‘ (النساء :۶۳)
جرأت اور بے خوفی: چوتھا اصول یہ دیا گیا کہ سچا پیغام پہنچانے میں خوف کو قریب نہ آنے دیا جائے: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔‘‘(احزاب :۳۹)
l مثبت طرزِ فکر کا فروغ: پانچواں اصول یہ دیا گیا کہ معاشرے میں ایسی خبررسانی ہو جس سے طبیعتوں میں ہیجان انگیزی اور انتشارِ ذہنی کے بجائے امن و آشتی اور مثبت طرزِفکر کو فروغ حاصل ہو۔
’’ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں پاکیزہ کلموں کی ہدایت دی گئی ہے اور یہ وہ ہیں جنہیں پسندیدہ راستے کی طرف رہنمائی دی گئی ہے۔‘‘ (الحج : ۲۴)
’’ اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔‘‘ (احزاب :۷۰)
’’ بے شک جو لوگ مومنوں کے درمیان فحش باتوں کو پھیلانا پسند کرتے ہیں ، ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘ (النور :۱۹)
اِبلاغ کا منفی پہلو
اِبلاغ میں جن باتوں سے روکا گیا ہے (منہیات) وہ حسب ذیل ہیں :
جھوٹ سے اجتناب: ’’اور جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو۔‘‘ (الحج :۳۰)
خبر کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا: بنی اسرائیل کی مذمت میں ارشاد ہوا کہ انہیں شہرمیں داخل ہوتے وقت جس کلمے کی ادائیگی کا حکم دیا گیا، انھوں نے توڑ مروڑ کر اسے کچھ کا کچھ کردیا۔
فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا سے یَفْسُقُوْنَ تک ( سورۃ البقرہ ۲: ۵۹) ملاحظہ کیجئے جس میں فرمایا گیا کہ: ’’مگر جو بات ان سے کہی گئی تھی، ظالموں نے بدل کر اُسے کچھ اور کردیا۔ آخرکار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا۔‘‘
غیرذمہ دارانہ رپورٹنگ سے گریز: اسلام نے خوف اور امن کی غیرذمہ دارانہ خبروں کی رپورٹنگ سے گریز کی ہدایت کی ہے۔ منافقین کی بد اور بُری عادات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’یہ لوگ جہاں کہیں اطمینان بخش یا خوف ناک خبر سن پاتے ہیں ، اُسے لے کر پھیلا دیتے ہیں ۔‘‘ (النساء :۸۳)
حکم دیا گیا:’’اے اہلِ ایمان! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو۔‘‘ (الحجرات :۶)
دھوکہ دہی اور چربہ سازی کی ممانعت:کسی کی تحریر کو بغیر حوالے کے اپنے نام سے نقل کردیا جائے، یا اصل مصنف کی طرف وہ کچھ منسوب کردیا جائے جو اس نے نہ کہا ہو، غلط ہے۔
ارشاد ہے:
’’پس ہلاکت و بربادی ہے ان لوگوں کے لئے جو کتاب اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس سے وہ تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیں ۔ پس بربادی ہے اس وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا اور بربادی ہے ان کے لئے اس کے سبب جو وہ کماتے رہے ہیں۔‘‘ (البقرہ:۷۹)
حوالہ دی گئی آیات شانِ نزول کے اعتبار سے مختلف پس منظر رکھتی ہیں مگر قرآن حکیم کا ایک حوالہ آفاقی ہدایت ہے۔ جو اشارتاً زندگی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے۔ خود وحی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’خبر‘ کہا:
’’مجھے ایک آگ سی نظر آئی ہے، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں ۔‘‘ (النمل:۷)
خود سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حدیث میں ’مخبرصادق‘ (سچی خبردینے والا) کا لقب استعمال ہوا۔
ان قرآنی ہدایات کی روشنی میں اِبلاغ کے منصب پر فائز افراد اگر ان اصولوں کو اپنا لیں تو قوم کو انتشارِ ذہنی اور اضطرابِ فکری سے بچایا جاسکتا ہے اور اسے ایک صحیح سمت دی جاسکتی ہے، اس لئے کہ درست سمت کے تعین کے بغیر دائروں کے سفر میں قوم کی نسلوں کی نسلیں بھٹکتی رہیں گی۔