جب کوئی قوم زمین میں فساد پھیلانے لگتی ہے اور عدل و انصاف کے اصولوں کو پامال کرتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے ایک مدت تک مہلت دیتا ہے، لیکن جب وہ مسلسل ظلم پر قائم رہے، تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسے ظالم حکمران مسلط کر دیتا ہے جو ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
وقف قانون پر احتجاج کے ذریعے مسلمانوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ تصویر: آئی این این
جب کوئی قوم زمین میں فساد پھیلانے لگتی ہے اور عدل و انصاف کے اصولوں کو پامال کرتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے ایک مدت تک مہلت دیتا ہے، لیکن جب وہ مسلسل ظلم پر قائم رہے، تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسے ظالم حکمران مسلط کر دیتا ہے جو ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں فرمایا گیا: ”اور ہم بعض ظالموں کو بعض کا ساتھی بنا دیتے ہیں، ان اعمال کی وجہ سے جو وہ کیا کرتے تھے۔ “(سورۃ الانعام:۱۲۹)
ایک اور مقام پر فرمایا:”جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، مگر وہ نافرمانی کرتے ہیں، تو ان پر عذاب کی بات ثابت ہو جاتی ہے، اور ہم اُسے تباہ کر دیتے ہیں۔ “(سورۃ الاسراء:۱۶)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جیسے تم ہو گے، ویسے ہی تم پر حکمران مقرر کئے جائیں گے۔ “
(سنن ابی داؤد، حدیث ۲۸۵۸؛ سند حسن)
ایک حکایت بیان کی جاتی ہے۔ ایک بستی گناہوں میں ڈوب چکی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتے کو حکم دیا کہ اس بستی کو اُلٹ دو۔ فرشتے نے عرض کیا: ”اے پروردگار! اس بستی کے دروازے پر تو ایک نیک بندہ بیٹھا ہے، جو دن رات آپ کی تسبیح میں مشغول ہے۔ “اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”سب سے پہلے اُسی کو اُلٹ دو، کیونکہ وہ میری رضا کے لئے عبادت تو کرتا تھا، لیکن کبھی اپنی قوم کو گناہوں سے باز نہ رکھا۔ “ یہ واقعہ چاہے ضعیف روایت یا اسرائیلی حکایت ہو، مگر اس کا پیغام قرآن و حدیث کے مطابق ہے۔
برائی سے روکنا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”وہ جو برا کام کرتے تھے ایک دوسرے کو اس سے منع نہیں کرتے تھے۔ بیشک وہ کام برے تھے جنہیں وہ انجام دیتے تھے۔ “ (سورۃ المائدہ:۷۹)
یہ آیت ان لوگوں کی مذمت کرتی ہے جن میں برائی کو دیکھ کر اسے روکنے کا جذبہ اور اخلاقی جرأت ختم ہو چکی تھی۔ یہاں بنی اسرائیل کے اس رویے کو نمایاں کیا گیا ہے کہ ان میں برائیاں عام ہو گئی تھیں، مگر ان کے علماء، رہنما اور عام لوگ ایک دوسرے کو برائی سے باز رکھنے کا فریضہ انجام نہیں دیتے تھے۔ یہ آیت ہمیں ایک بڑے دینی اصول کی یاددہانی کراتی ہے : نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) یہ اسلام کا اجتماعی فریضہ ہے، جس سے غفلت ایک قوم کو اللہ کی ناراضی کا مستحق بنا دیتی ہے۔ برائی پر خاموشی جرم ہے، یعنی وہ برائی کو دیکھ کر بھی ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے۔ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب کسی قوم میں برائیاں پھیل جائیں اور اہل علم یا باشعور افراد بھی چپ سادھ لیں، تو اللہ کا عذاب صرف فاعلِ برائی پر نہیں بلکہ پوری قوم پر آسکتا ہے۔
علماء اور لیڈرشپ کی ذمہ داری: خاص طور پر علماء، قائدین اور بااثر افراد کو مخاطب کیا گیا کہ اگر وہ اصلاح کی ذمہ داری ادا نہ کریں، تو وہ بھی اسی برائی کے ذمہ دار بن جاتے ہیں۔ اللہ سورۃ البروج آیت نمبر ۱۲؍ میں فرماتا ہے: ’’درحقیقت تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ ‘‘
حدیث ِ نبوی ﷺ ہے:’’ جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھ کو نہ روکیں، تو قریب ہے کہ اللہ سب کو عذاب دے۔ ‘‘ (ترمذی)
ہماری اجتماعی ذمہ داری ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، ہر امت کی کامیابی کی بنیاد رہا ہے۔
ہم سب کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا:
کیا ہم اپنے گھروں میں، محلے میں، سوشل میڈیا پر برائی کو دیکھ کر خاموش رہتے ہیں ؟
کیا ہم صرف اپنی نیکی پر مطمئن ہوکر باقی معاشرے سے نظریں پھیر لیتے ہیں ؟
اصلاح کی شروعات خود سے اور اپنے گھر سے کریں۔ ہمیں چاہئے کہ نرمی، حکمت، اور محبت سے دوسروں کی اصلاح کریں۔ صرف زبان سے نہیں، بلکہ عمل، کردار اور اخلاص سے بھی اصلاح کی دعوت دیں۔ مذکورہ آیت مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے کہ اگر ہم اپنے معاشروں میں پھیلی ہوئی بدعنوانی، جھوٹ، ظلم، بےحیائی، اور دیگر منکرات پر خاموش رہے، تو ہم بھی اسی انجام کے مستحق ہو سکتے ہیں جو پچھلی امتوں کو ملا۔
• نبی ﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے، اگر یہ طاقت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر یہ بھی نہ ہو تو دل سے نفرت کرے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ ‘‘ (مسلم)
• ایک اور حدیث میں فرمایا گیا:’’جب لوگ کسی ظالم کو دیکھیں اور اسے ظلم سے نہ روکیں، تو قریب ہے کہ اللہ ان سب کو اپنے عذاب میں لپیٹ لے۔ ‘‘(ترمذی)
سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۷۹؍ ہمیں اجتماعی ذمہ داری کا شعور دیتی ہے۔ ایک مسلمان کا فریضہ صرف اپنی ذات کی اصلاح نہیں بلکہ معاشرے کی اصلاح بھی ہے۔ اگر برائیوں پر خاموشی اختیار کی گئی تو اللہ کے نزدیک یہ روش انتہائی قبیح ہے اور عذاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
اوپر دیئے ہوئے قرآن کے حوالے اور رسول کریمؐ کے ارشادات کے مد نظر ہم حالیہ امت پر آئے ہوئے عذاب الٰہی کا جب تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ وقف املاک کا جو حشر مسلمانو ں نے کیا ہے وہ غور طلب ہے۔ ہمارے سامنے ایسی مثالیں ہیں جس میں جعلی دستخط کے ذریعے وقف سے زائد زمینیں ٹرسٹ والوں نے اپنے نام کرلی ہیں۔ ایسے میں سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس مسجد میں نماز جائز ہوگی؟
کچھ مساجد جن کو ہم جانتے ہیں ، وہاں ٹرسٹ کے مکانات جو غریبوں کو دس سے پندرہ روپے ماہانہ کرایہ سے دیئے گئے تھے، آج اُن لوگوں نے پانچ سے دس ہزار کرایہ سے کسی اور کو کرایہ پر دے رکھا ہے اور اس طرح مساجد کی آمدنی پر قابض ہیں۔ اسلام میں حرام اور حلال میں فرق واضح ہے، مگر وہ سب بھول گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’ تمہارے رب کی پکڑ شدید ہے‘‘ اب جب کہ اللہ کی پکڑ ظالم حکمرانوں کے ذریعے آپڑی ہے تو ہم غیروں پر الزام عائد کررہے ہیں ، مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
سب سے بڑی ذمہ داری جو اُمت محمدیہؐ پر ڈالی گئی ہے، وہ ہم بھول گئے ہیں کہ :
’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘ (آل عمران:۱۱۰)