تحفہ دینا اور قبول کرنا انسانی دل کی فطری ضرورت ہے۔ یہ عمل نہ صرف تعلق کی تجدید کرتا ہے بلکہ دل میں محبت کے نئے چراغ روشن کرتا ہے۔
EPAPER
Updated: June 20, 2025, 4:33 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai
تحفہ دینا اور قبول کرنا انسانی دل کی فطری ضرورت ہے۔ یہ عمل نہ صرف تعلق کی تجدید کرتا ہے بلکہ دل میں محبت کے نئے چراغ روشن کرتا ہے۔
انسان سماجی فطرت کا حامل ہے، اور اس کا وجود محض گوشت پوست کا ڈھانچہ نہیں بلکہ جذبات، احساسات اور تعلقات کا ایک مربوط نظام ہے۔ لیکن جب یہی انسان اپنی فطرت سے بغاوت کرنے لگے، تو رشتے اجنبیت کا لباس پہن لیتے ہیں اور دلوں کے دروازے صدیوں کی خاموشی میں بند ہو جاتے ہیں۔ آج کے انسان کی سب سے بڑی محرومی اس کے اندر کی خالی جگہ ہے، ایسا خلا جو دولت، ٹیکنالوجی یا شہرت سے پُر نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے لئے محبت، توجہ، تعلق اور خلوص کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں انسان کی مصروفیات خود اس کی شخصیت کا خراج لے رہی ہیں۔ دن رات کا فرق مٹ چکا ہے اور مشینی زندگی نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں ہم خود کو تو دیکھتے ہیں، مگر دوسروں کو نظر انداز کر چکے ہیں۔ تعلقات کی زمین بنجر ہو چکی ہے، اور جذبات کے دریا سوکھ چکے ہیں۔ والدین اپنی اولاد کے لئے، بیوی شوہر کے لئے، بھائی بہنوں کیلئے اور دوست احباب ایک دوسرے کے لئے وقت نکالنے کو کارِ دارد سمجھنے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے بچوں کی آنکھوں میں جھانکنے اور ان کے دل کی بات سننے کی فرصت کسی کو نہیں۔ یہی وہ خلا ہے جہاں سے تنہائی، ذہنی الجھن، احساسِ محرومی اور مزاجی بگاڑ جنم لیتے ہیں۔
انسانی نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ ہر انسان فطری طور پر محبت، توجہ اور تعلق چاہتا ہے۔ جب یہ تقاضے نظر انداز ہوں، تو نتیجتاً دلوں میں ویرانی، مزاج میں سختی اور رویوں میں اجنبیت در آتی ہیں۔ یہی اجنبیت سب سے پہلے قریبی رشتوں کو چاٹتی ہے، غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں، توقعات کی بنیاد پر شکوے پیدا ہوتے ہیں اور بالآخر دوستیوں اور رشتہ داریوں کے قلعی شدہ در و دیوار بھی دراڑوں سے بھرجاتے ہیں۔ وقت کی قلت محض ایک بہانہ ہے؛ اصل مسئلہ ہماری ترجیحات کا بگاڑ ہے۔ انسان جس شے کو اہم سمجھے، اس کے لئے وقت خود بخود نکل آتا ہے۔
ایسے حالات میں، ایک چھوٹا سا عمل، تحفے کا تبادلہ محض ایک رسمی عمل نہیں، بلکہ ایک عمیق نفسیاتی اور روحانی پہلو رکھتا ہے۔ تحفہ دینا اور قبول کرنا انسانی دل کی فطری ضرورت ہے۔ یہ عمل نہ صرف تعلق کی تجدید کرتا ہے، بلکہ دل میں محبت کے نئے چراغ روشن کرتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے اس کی تعلیمات نہایت حسین پیرائے میں دی ہیں : ’’آپس میں تحفے دو، تاکہ محبت بڑھے، کیونکہ یہ دلوں کی کدورت کو ختم کر دیتا ہے۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
یہ حدیث محض ایک اخلاقی مشورہ نہیں، بلکہ انسانی تعلقات کا ایک نفسیاتی اصول بیان کرتی ہے۔ نفسیاتی ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ Reciprocity یعنی ایک دوسرے کو دینے اور لینے کا عمل، انسانی تعلقات میں اعتماد، اپنائیت اور خوشگوار جذبات پیدا کرتا ہے۔ تحفہ ایک چھوٹا سا پیغام ہوتا ہے کہ ’’میں تمہیں یاد رکھتا ہوں، میں تمہیں اہم سمجھتا ہوں ‘‘ اور یہی احساس انسانی رشتوں کا اصل ایندھن ہے۔
تاہم، آج تحائف کا تصور بھی مصنوعی، پرتعیش اور دکھاوے پر مبنی ہو چکا ہے۔ فیشن زدگی نے اخلاص کی روح کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ’’گفٹ ہیمپرز‘‘ کے ڈیزائنڈ فوٹوز بھیج کر یا ’’ای کارڈز‘‘ فارورڈ کرکے ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم نے تعلق کا قرض چکا دیا۔ حالانکہ، تحفے کی اصل روح اس کی قیمت میں نہیں، بلکہ اس کی نیت اور طریقۂ ابلاغ میں چھپی ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’خواہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو، تحفہ دو۔ ‘‘
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تحفہ کا تعلق مالی حیثیت سے نہیں، بلکہ دلی محبت اور تعلق کی شدت سے ہے۔ اگر ہم اپنی مالی استطاعت سے بلند ہوکر تحائف دیں، تو وہ تحفہ نہیں بلکہ تصنع، دکھاوا اور ریاکاری بن جاتے ہیں۔ شیخ سعدیؒ اس طرزِ عمل کو نہایت خوبصورت انداز میں یوں رد کرتے ہیں : ’’نیکی وہی جو بغیر قیمت کے ہو، اور تحفہ وہی جو دل سے دیا جائے نہ کہ دکھاوے سے۔ ‘‘
انسانی تعلقات میں تحفے کا سب سے حسین پہلو اس کا غیر مشروط ہونا ہے۔ جب ایک شخص دوسرے کو بغیر کسی غرض، کسی معاوضے، یا کسی امید کے کچھ دیتا ہے، تو یہی عمل رشتے کی بنیاد کو خلوص کی چٹان پر رکھ دیتا ہے۔ ایسے تحفے تعلقات کو وقت کے تھپیڑوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ نہ صرف دو دلوں کو جوڑتے ہیں بلکہ ماضی کی تلخیوں کو مٹاکر نئے آغاز کی فضا قائم کرتے ہیں۔
آج ہمیں اپنے تعلقات کو از سر نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان رشتوں کو نئی سانس دینی ہے جو بے روح ہو چکے ہیں۔ اس کا آغاز کسی بڑے اقدام یا طویل ملاقات سے نہیں، بلکہ ایک مختصر پیغام، ایک اچانک فون کال، یا ایک چھوٹے سے تحفے سے ہو سکتا ہے۔ یہ ایک عملی مظہر ہے اس تعلیم کا جسے نبوی طریقہ کہتے ہیں۔ اور یہی وہ عمل ہے جو ہمیں ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے، ہمارے بکھرتے سماج کو جوڑ سکتا ہے اور نئی نسل کو محبت، تعلق اور خلوص کی اصل معنویت سکھا سکتا ہے۔
یہ کہنا آسان ہے کہ وقت نہیں ملتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم جسے اہم سمجھتے ہیں، اس کے لئے وقت خود کو پیش کرتا ہے۔ اگر ہم دل سے چاہیں تو مصروف ترین دن میں سے بھی چند لمحے چرائے جا سکتے ہیں اور ان لمحوں میں اگر کسی عزیز کی پیشانی پر مسکراہٹ کھل جائے، تو یہی لمحہ ہماری زندگی کا بہترین سرمایہ بن سکتا ہے۔ اگر ہم چاہیں کہ کل کا معاشرہ محبت، الفت اور خلوص پر مبنی ہو تو آج ہی ہمیں یہ سنت ِ نبوی زندہ کرنی ہوگی۔ آج ہی ہمیں رشتوں کی کھنکتی زنجیروں میں محبت کے تحفوں کی مٹھاس گھولنی ہوگی۔ کل کی خوشیوں کے لئے آج کے لمحوں کو زندہ کرنا ہوگا۔
موجودہ دور کی سب سے بڑی کمی ’’توجہ‘‘ ہے۔ رشتے وقت مانگتے ہیں اور وقت دینا محبت کا سب سے مؤثر اظہار ہے۔ تحفے کا تبادلہ خالص انسانی نفسیات کے عین مطابق ایک ایسا عمل ہے جو خاموشی سے دلوں کی مرمت کرتا ہے، فاصلے کم کرتا ہے اور نبوی تعلیمات کی روشنی میں محبتوں کو دوام بخشتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس عمل کو پھر سے زندہ کریں، سادگی، خلوص اور محبت کے ساتھ۔