Inquilab Logo

حسن، دولت اورعلم کسی کی میراث نہیں

Updated: March 02, 2020, 2:20 PM IST | Khaliq Amrohi

اگر جہد مسلسل کی جائے توکوئی وجہ نہیں کہ انسان کامیاب نہ

انقلاب کے کالم نگار پروفیسر سید اقبال اور ان کے ہمدم دیرینہ خلیق امروہی مضمون نگار
انقلاب کے کالم نگار پروفیسر سید اقبال اور ان کے ہمدم دیرینہ خلیق امروہی مضمون نگار

   آج میں آپ کے سامنے حاضر ہوا ہوں کہ اپنے عزیز دوست پروفیسر اقبال سید علی میاں کے بارے میں کچھ کہوں۔ خاص طورپر ایام طالب علمی کا احاطہ کروں۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں ان کا ہم جماعت بھی ہوں۔ پوری کلاس میں ہم تین دوست ہی اپنے لکھنے پڑھنے کے ذوق کی وجہ سے اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ پہلے نمبر پر ہیں عبدالاحد سازؔ دوسرے نمبر پر پروفیسر موصوف اور آخری  نمبر پر احقر۔
  ہمارے زمانے میں ایس ایس سی گیارہویں جماعت میں ہوتی تھی۔ خاکی نیکر اور سفید قمیص اسکول کا یونیفارم تھا۔ یہ یونیفارم پہلی سے گیارہویں جماعت کے لئے یکساں تھا۔ نیکر پہن کر جب اسکول جاتے تھے تواپنی ہی نظروں میں ہم رسوا ہوتے تھے  اور کوشش کرتے تھے کہ راہ میں کسی جاننے والے کی نظر ہم پر نہ پڑے۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ جب ہم پانچویں جماعت میں پہنچے تو اسکول نے اپنا یونیفارم تبدیل کردیا اور پانچویں سے بڑی جماعتوںکے لئے نیکر کی جگہ پتلون نے لے لی۔ ہم لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ نیکر کے لئے باعزت لفظ ہاف پینٹ ہے۔ اب اگر آپ نیکر کو لنگوٹ تصور کرلیں تو پروفیسر موصوف میرے لنگوٹیا یار بھی ہیں۔
  گیارہ سال کی ہم جماعتی اور عملی زندگی کے ترپن(۵۳) سال یعنی چونسٹھ سال کا ساتھ ہے ہمارا۔ ان چونسٹھ برس میں شاید ہی کوئی سال ایسا ہوگا جو ہم نہ ملے ہوں۔ الحمدللہ اب ہم ۷۰؍ سال کے آس پاس ہیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ اقبال عمر کے چور ہیں  اور دیکھنے میں اب بھی پچاس کے لگتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا حسنِ اخلاق ہے۔ ہونٹوں پر ہمیشہ ایک دھیمی سی مسکان سجی رہتی ہے۔ خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔ اور سامنے والے کو گرویدہ کرلیتے ہیں۔
  انتظامی  صلاحیتیں ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہیں۔ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظرآجاتے ہیں ۔ پہلی سے گیارہویں تک موصوف ہی کلاس کے مانیٹر رہے ۔ اول تو ایسا موقع نہیں آتا تھا لیکن اگر کوئی موقع ایسا آیا کہ لڑکوں نے مانیٹر کو گھیر لیا تو موصوف ایسے سمجھاتے تھے جیسے کوئی کثیرالعیال بیوہ اپنے بچوں کو سمجھاتی ہے، اور ہم ان کی بیچارگی کو دیکھتے ہوئے مان جاتے تھے۔
  ابھی کچھ سال پہلے انقلاب کا ایک جلسہ انجمن اسلام کی کریمی لائبریری میں تھا۔ اس کی نظامت بھی اقبال نے کی تھی۔ ہم دونوں چونکہ وقت کے پابند ہیں اس لئے قبل از وقت پہنچ گئے تھے۔ ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ بہت دنوں سے ایک سوال میرے ذہن میں تھا۔ میں نے پوچھا بھائی ! ہمیں زعم ہے کہ ہم یوپی کے ہیں ۔ اردو ہماری مادری زبان ہونے کے علاوہ گھر کی لونڈی بھی ہے۔ تم یہ بتاؤ کہ تم نے اتنی اچھی اردو لکھنے پر کیسے دسترس حاصل کی؟ انہوںنے اپنا  ہتھیار استعمال کیا اور خندہ پیشانی سے مسکراکر کہنے لگے یار! حسن ، دولت اور علم کسی کی میراث نہیں ہوتی۔ اگر جہد مسلسل کی جائے اور صحیح سمت میں کی جائے توکوئی وجہ نہیں کہ انسان کامیاب نہ ہو؟ اور دوستو یہی ان کے کالم کی کامیابی کا راز بھی  ہے۔
  جب ہم اسکول میں تھے تو شہریت مضمون  کا پہلا سبق تھا، انسان سماجی جانور ہوتا ہے ۔ ماسٹر صاحب نے حالانکہ محنت سے اور اچھی طرح سمجھایا تھا  مگر کسر رہ گئی تھی۔ پوری طرح سمجھ میں آیا جب اقبال کا کالم سائنس اور سماج پڑھا۔ عرق ریزی اور جانفشانی سے لکھتے ہیں۔ اگر میں کہوں کہ ہماری کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ہمارے قابل اساتذہ تھے تو بات اس وقت مکمل ہوگی جب ان کا اسم گرامی آپ تک پہنچے۔ اساتذہ تو سب ہی قابل تھے مگر اردو کے دو اساتذہ آسمان ادب کے جگمگاتے چاند تھے۔ ایک تھے مرحوم ابراہیم عمادی صاحب اور دوسرے تھے جناب جالب مظاہری ۔ ان کے پڑھانے کا انداز اتنا دلنشین ہوتا تھا کہ مانو پڑھا نہیں رہے ہیں۔ گھول کر پلارہے ہیں۔
  ان کا گھر بھی اردو تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ میں نے کہا ذرا بچوں کے نام تو بتاؤ۔ کہنے لگے میری دوبیٹیاںہیں۔ ایک بیٹا ہے۔ بڑی بیٹی کا نام تقدیس ہے۔ درمیان میں بیٹا محمد اخلاص ہے اور سب سے چھوٹی بٹیا کا نام تہذیب ہے۔ میں نے ان سے مصنوعی ناراضگی سے کہا تمہاری وجہ سے آج دنیا اخلاقی انحطاط کا شکارہے۔ یہ پوچھنے لگے کیسے؟ میں نے کہا تقدیس ختم ہوگئی، آج لوگ اپنے بوڑھے ماں باپ کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آتے ہیں۔ اخلاص کب ختم ہوا اس کا پتہ ہی نہیں چلا کہ اس کی جگہ ظاہرداری اورریاکاری آگئی۔ اور اگر تہذیب دیکھنی ہوتو ہمارے محلوں میں جوان بچے جو بات چیت کرتے ہیں وہ سن لو، ہر بات کے شروع میں اور بات ختم کرنے کے بعد کم از کم ایک گالی ضرور بکتے ہیں اوراس کی وجہ یہ  ہے کہ تم نے تقدیس، اخلاص اور تہذیب کو اپنے گھر کے اندر قید کردیا ہے۔ یہ سن کرموصوف  ہنس پڑے۔
  آج کے دور میں انسان کی کامیابی کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ اس کی اولاد اس کی حیات میںہی سیٹل ہوجائے۔ اس پیمانے کے مطابق بھی اقبال کامیاب انسانوں کی فہرست میں ہیں۔ بڑی بیٹی ہالینڈ میں سیٹل ہے۔ چھوٹی بیٹی کینیڈا میں ہے اور بیٹا دہلی میں رہائش پذیر ہے۔ ان کے تینوں بچے اردو میڈیم میں پڑھے ہیں۔ اس طرح بھی یہ اردو کے صف اول کے سپاہی ثابت ہوئے ہیں۔
  پروفیسر موصوف چھپے رستم بھی ہیں۔ یہ انقلاب کے سنڈے میگزین میں ایک نہیں دوکالم لکھتے ہیں۔ دوسرا کالم ڈائری ہے  ۔ جسے یہ ابواخلاص کے قلمی نام سے لکھتے ہیں جو غلط بھی نہیں ہے۔ اخلاص ان کے بیٹے کا نام ہے اوریہ اس کے ابوہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ جلد ہی ڈائری کے منتخب کالموں کی بھی ایک کتاب روزنامچہ کے عنوان سے آنی چاہئے۔
  مجھے جب جب ان کی تدریسی صلاحیتوں کی ضرورت پڑی۔ انہوںنے لبیک کہا۔ ایک دفعہ بیٹے کے لئے اور ایک مرتبہ بھتیجے کے لئے۔ انہیں فون کیا ، ضرورت بتائی کہنے لگے تمہیں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بچے کو بھیج دینا وہ تمہارا نام لے لے۔ میں نے بچوں کو بلایا اوران سے کہا کہ جاکر مل لو اور پروفیسر صاحب سے میرا نام لے لینا ۔ یہ اسم اعظم ہے ، تمہارا کام ہوجائے گا۔ انہوںنے ایسا ہی کیا اوران کا کام ہوگیا۔
  آخر میں میں اپنے عزیز دوست کو اس کی کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔ اور خدا سے دعا گوہوں کہ یوں ہی خندہ پیشانی سے اپنا کام کر تے رہیں اور صحت مند رہیں۔ میں خوش ہوں کہ آج میرا دوست صاحبِ کتاب ہوگیا اور پیمبروں کی صف میں شامل ہوگیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK