• Fri, 21 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عقیدۂ توحید یہی نہیں ہے کہ ہم اللہ کو ایک مانیں، اس کیلئے شرک سے بچنا بھی لازمی ہے

Updated: November 21, 2025, 1:11 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

اللہ کے رسول ؐنے نہ صرف عقیدۂ توحید کی تعلیم دی ؛ بلکہ ہر لمحہ اس کو ذہن میں راسخ کرنے کے لئے ایسی دُعائیں سکھائیں، جو ہر عمل کے ساتھ انسان کو خدائے واحد کی یاد دلاتی ہے۔

Monotheism means: believing in Allah alone, not associating anyone with His essence and attributes. Photo: INN
توحید کا مطلب ہے: اللہ کو ایک ماننا، اس کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ تصویر:آئی این این
اسلام کا سب سے بنیادی عقیدہ ’ عقیدۂ توحید‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے  ان کی بنیادی تعلیم یہی تھی کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عبادت کے لائق ہے اوراسی کی عبادت کرنی ہے:  ’’ہم نے آپ سے پہلے جو رسُول بھی بھیجا ہے اُن کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔‘‘  (الانبیاء:  ۲۵) جہاں یہ بات ضروری ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے،  وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ کسی اور کو اس کی خدائی میں شریک نہیں ٹھہرایا جائے؛ اسی لئے علم کلام کے شارحین نے لکھا ہے کہ کلمہ لا اِلٰہ الا اللہ میں نفی اور اثبات دونوں پہلو کی رعایت ضروری ہے کہ اللہ کی ذات معبود ہے اور اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں، (شرح العقیدۃ الطحاویہ : ۱۰۹) اگر قرآن مجید کے الفاظ کی تہہ میں جھانک کر دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی آیت ہو جس میں صراحتاً یا اشارۃً، براہ راست یا بالواسطہ توحید کا ذکر نہ آیا ہو ؛ لیکن کم سے کم  ۹۱؍ آیتیں ایسی ہیں ، جو صراحتاً اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو بیان کرتی ہیں۔
 توحید کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی حدیثیں تو اتنی کثرت سے  منقول ہیں کہ اگر ان سب کو جمع کردیا جائے تو ایک ضخیم کتاب ہوجائے گی۔یہی عقیدہ آپؐ کی زندگی بھر کی دعوت اور آپؐ کی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ آپؐ نے پانچ باتوں کو اسلام کی بنیاد قرار دیا اور توحید کو اس کا سب سے پہلا رکن بتایا۔ ( بخاری ، عن عبداللہ بن عمرؓ ، حدیث نمبر : ۸)۔ کلمہ ٔ طیبہ کو جنت میں داخل ہونے کی کلید قرار دیا گیا۔ حضرت عثمان غنیؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐنے فرمایا : جو بھی لا اِلٰہ الا اللہ پریقین رکھتے ہوئے دنیا سے رُخصت ہوگا،  وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ( مسلم ، حدیث نمبر : ۲۶) توحید کی ضد شرک ہے، شرک سے مراد ہے: کسی بھی مخلوق کو، خواہ وہ اپنی طاقت، پھیلاؤ، ظاہری نفع رسانی، ضرر رسانی اور علومرتبت کے اعتبار سے کتنی ہی بڑی ہو، اللہ تعالیٰ کی ذات میں یا اللہ کی صفات و اختیار میں شریک اور ساجھی ٹھہرانا ۔ توحید کی جتنی زیادہ تاکید کی گئی ہے، شرک کی اتنی ہی زیادہ برائی اور مذمت بیان کی گئی ہے، قرآن مجید نے انبیاء کے اپنی قوموں سے خطابات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، ان میں ہر جگہ شرک کی مذمت کی گئی ہے اور اس کو سب سے زیادہ مبغوض اور قابل نفرت ٹھہرایا گیا ہے۔
قرآن مجید ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ انسان اللہ کو ایک مانے اور عملی طورپر اپنے آپ کو شرک سے بچائے رکھے  بلکہ موقع و محل کے لحاظ سے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عقیدۂ شرک اور مشرکانہ شعائر سے اپنی برأت اوربے تعلقی کا اظہار کرے ؛  اسی لئے پیغمبروں نے اپنی قوم سے کہا کہ میں ان تمام مشرکانہ چیزوں سے بری اور بے تعلق ہوں، جن کو تم کیا کرتے ہو، جیساکہ حضرت ابراہیم ؑنے فرمایا: ’’ اے برادران قوم! میں اُن سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔‘‘  (سورہ الانعام : ۷۸) اور حضرت ہودؑ نے اپنی قوم کو گواہ بناتے ہوئے فرمایا: ’’اور تم گواہ رہو کہ یہ جو اللہ کے سوا دوسروں کو تم نے خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا ہے اس سے میں بیزار ہوں۔‘‘(سورہ ہود:۵۴) 
اللہ کے رسول ؐنے نہ صرف عقیدۂ توحید کی تعلیم دی ؛ بلکہ ہر لمحہ اس کو ذہن میں راسخ کرنے کے لئے ایسی دُعائیں سکھائیں، جو ہر عمل کے ساتھ انسان کو خدائے واحد کی یاد دلاتی ہے ، کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد، صبح میں اور شام میں، سفر کی طرف جاتے اور واپس آتے ہوئے، آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرتے ہوئے، غرض کہ کوئی موقع ایسا نہیں جس میں دُعاء اور ذکر کے اُسلوب میں اللہ کی وحدت کا یقین انسان کے ذہن میں راسخ نہ کیا گیا ہو۔ اسی طرح شرک کے جتنے راستے ہوسکتے تھے، اسلام نے ان سب کو بند کیا۔ آپؐ نے ایسی باتوں کو بھی منع فرمایا ، جن میں شرک کا شبہ پایا جاتا تھا۔ صحابہؓ نے آپؐ کو سجدہ کرنے کی اجازت طلب کی، ظاہر ہے کہ صحابہ عبادت کی نیت سے سجدہ کی اجازت کیسے مانگ سکتے تھے؟ اُن کا مقصد تعظیم و احترام تھا؛ لیکن  آپؐ نے منع فرمایا۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۲۶۳۵)۔
 رب کے معنی آقا اور مالک کے بھی ہیں، اسی لئے اسلام سے پہلے غلام اپنے مالک کو رب کہا کرتے تھے؛ لیکن چوںکہ رب، اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں شامل ہے؛ اس لئے اس بات کی ممانعت کردی گئی کہ کوئی غلام اپنے مالک کو رب کہے۔ عبد کے معنی بندے کے بھی ہیں اور غلام کے بھی، اسی نسبت ِبندگی کو ظاہر کرنے کیلئے انسان کو ’عباد اللہ ‘ کہا جاتا ہے۔ اس لفظی مشابہت سے بچانے کے لئے اللہ کے رسولؐ نے اس بات سے منع فرمایا کہ غلام کو ’’ میرے عبد ‘‘ ( یا عبدی) کہہ کر مخاطب کیا جائے۔ (مسلم ، کتاب الالفاظ من الادب وغیرہا ، باب حکم اطلاق لفظۃ العبدۃ ، حدیث نمبر : ۲۲۴۹ ) 
ہر مسلمان اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ آخرت کی کامیابی اور ناکامی توحید اور شرک سے متعلق ہے ؛ چنانچہ آپؐ سے دریافت کیا گیا: وہ دو کون سی چیزیں ہیں جو جنت کو اور دوزخ کو  واجب کرنے والی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: جس کی موت اس حال میں ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو وہ دوزخ میں داخل ہوگا۔ (مسلم عن جابرؓ، حدیث نمبر : ۹۳) اسی لئے کوئی صاحبِ ایمان یعنی مسلمان اس بات کو گوارہ نہیں کرسکتا کہ اپنی زبان سے مشرکانہ کلمہ ادا کرے۔ ہر مسلمان کو حضرت معاذ بن جبلؓ کے حوالے سے  یہ حدیث سامنے رکھنی چاہئے کہ اللہ کے رسول  ؐ نے مجھے دس باتوں کی نصیحت فرمائی، جن میں سے پہلی بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔   (مسند احمد ، حدیث نمبر :۲۲۱۲۸)
اسلام میں عقیدۂ توحید کی اہمیت اور شرک کے ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے کسی مسلمان سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی مخلوق کو محبوب سے بڑھ کر معبود کا درجہ دے دے، محبت ماں باپ سے ہوتی ہے ، اولاد سے ہوتی ہے ، شوہر و بیوی سے ہوتی ہے ، اسی طرح اس مٹی سے بھی ہوتی ہے، جس میں وہ پیدا ہوا ہے اور جس کی فضاؤں میں وہ پروان چڑھا ہے، یہ ایک فطری محبت ہے۔ جیسے انسان کو یہ بتانے، سمجھانے یا یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ تمہیں اپنی اولاد سے محبت کرنی چاہئے، اسی طرح وطن کی محبت بھی ایک فطری چیز ہے۔ انسان پردیس میں رہتے ہوئے اپنے ملک کی ایک ایک چیز کو یاد کرتا ہے، اگر اس کے ملک سے وابستہ کوئی خبر مل جائے تو اسے شوق کی آنکھوں سے پڑھتا ہے، اجنبی ملک میں رہتے ہوئے اپنے وطن کا کوئی آدمی مل جائے تو گھنٹوں اس سے بات کرنا چاہتا ہے، کہیں جاکر اپنے وطن کو واپس آئے تو دل کو سکون اور آنکھوں کو راحت میسر آتی ہے؛ اسی لئے کسی ملک میں رہنے والے کو اس ملک سے محبت کی یاد دلانا ایک بے معنی اور غیر منطقی بات ہے۔  پھر یہ بڑا ظلم ہے کہ ایک گھر میں چار بھائی رہتے ہوں اور ایک بھائی دوسرے بھائی سے مطالبہ کرے کہ تم اس گھر سے وفاداری اور محبت ثابت کرو ، محبت اور وفاداری کا مطالبہ کرایہ دار اور مزدور سے تو کیا جاسکتا ہے ؛ لیکن مالک اورحصہ دار سے نہیں کیا جاسکتا ۔
افسوس کہ اس ملک میں نفرت کے مٹھی بھر سوداگروں کا اقلیتوں کے ساتھ یہی رویہ ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے مختلف خود ساختہ نعرے وضع کرتے ہیں اور اس کو حب الوطنی کے لئے کسوٹی قرار دیتے ہیں۔ اسی کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس وقت کچھ ریاستوں میں ’’وندے ماترم‘‘ کو بحیثیت ترانہ اسکولوں میں لازم کرنے کیلئے  قانون بنایا جارہا ہے۔ اِس ترانہ پر مسلمانوں کے موقف سے سیاسی جماعتیں خوب واقف ہیں اس کے باوجود اس پر اصرار کیا جاتا ہے، ماضی میں بھی کیا گیا اور اب پھر کیا جارہا ہے۔ اس پر مسلمانوں میں غوروخوض ہونا چاہئے اور جن ریاستو ںمیں ایسا ہورہا ہے وہاں کی حکومت پر دباؤ ڈالنے اور اس کو اعتماد میں لینے کی کوشش ہونی چاہئے۔ یہ ترانہ ہندو اقتدار کے احیاء کی دعوت دیتا ہے۔ اس ضمن میں مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کے خلاف قانونی راستہ بھی  اختیار کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK