شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) قصر کا حکم کہاں سے ہے (۲) وصیت کی تنفیذ (۳)نماز میں ثنا کا حکم (۴) قسطوں میں خرید کر فروخت کرنا
قصر کا حکم کہاں سے ہے
باندرہ ویسٹ ممبئی مہاراشٹر میں رہنے والا سفر میں نکلے تو قصر کہاں سے کرے گا؟ ممبئی کارپوریشن کی حدود سے نکلتے ہی یا جو علاقے ممبئی کارپوریشن سے متصل ہیں جن کا سلسلہ پندرہ بیس کلو میٹر تک ہے ،تو کیا اس آبادی سے باہر نکلنے کے بعد قصر کرے گا ؟محمد احمد ،ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ھوالموفق: اس مسئلے میں فقہاء نے جو اصول تحریر کیا ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص شہر کے جس راستے سے سفر کے لئے جارہا ہے، جب اس راستے میں واقع آبادی کا آخری مکان گزر جائے اس وقت قصر شروع ہوگا۔ اس کامستدل حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک اثر ہے کہ آپؓ جس جا نب سے باہر نکل رہے تھے اس طرف کے آخری مکان کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اس سے آگے جانے کے بعد قصر کریںگے۔ دور حاضر میں بڑے شہروں کی آبادی اور حدود کی وسعت کے پیش نظر علماء کے ذہنوں میں بھی کچھ سوالات پیدا ہونے کی وجہ سے کئی فقہ اکیڈمیوں میں اس مسئلے پر غور وخوض بھی ہوچکا ہے مگر تفصیلات طویل ہیں۔ عام طور سے جو رائے قائم ہوئی وہ یہ ہے کہ شہر کی آخری حد جہاں ختم ہوتی ہے اس جانب جہاں تک آبادی ہے قصر اس کے بعد شروع ہوگا، پہلے نہیں۔ و اللہ اعلم وعلمہ اتم
وصیت کی تنفیذ
ایک خاتون نے اپنی وفات سے قبل وصیت کی کہ میرے تمام زیورات مسجد میں دے دیے جائیں۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے ترکے میں صرف یہی زیورات پائے گئے،نقدی یا دیگر اموال موجود نہیں البتہ مرحومہ کو اپنے والد کے ترکے میں سے کچھ حصہ ملنا متوقع ہےمگر ابھی وہ مال وصول نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں ان کی وصیت کتنی مقدار میں نافذ ہوگی؟کیا آئندہ والد کے ترکے سے جو مال ملے گا ، اس پر بھی وصیت کا اطلاق ہوگا؟
نعیم الدین ،جے پور
باسمہ تعالیٰ:ھو الموفق : وصیت کی تنفیذ شرعاً اُس مال پر ہوتی ہے جو وصیت کرنے والے کے مِلک و قبضہ میں وقت ِ وفات موجود ہو۔ اگر کوئی شخص اپنے کل مال کی وصیت کر دے تو وہ وصیت صرف ایک تہائی مال میں نافذ ہوتی ہے، باقی دو تہائی مال ورثاء کا حق ہوتا ہے، الا یہ کہ ورثاء خوش دلی سے اجازت دے دیں۔ صورتِ مسئولہ میں چونکہ وفات کے وقت مرحومہ کے ترکے میں صرف زیورات موجود تھے،لہٰذا ان کی وصیت صرف ایک تہائی زیورات کی مالیت تک نافذ ہوگی، بقیہ زیورات ورثاء کا حق ہیں،وہ چاہیں تو اپنی رضامندی سے پورے زیورات مسجد کو دے سکتے ہیں، لیکن شرعاً ان پر لازم نہیں۔ جہاں تک والد کے ترکے سے متوقع حصہ کا تعلق ہے، چونکہ وہ مال مرحومہ کی وفات کے وقت ان کے قبضے میں نہیں تھا، اس لئے وہ وصیت کے حکم میں داخل نہیں ہے بلکہ جب وہ حصہ ورثاء کو ملے گا تو وہ نیا ترکہ شمار ہوگا اور شرعی حصوں کے مطابق ورثا میں تقسیم کیا جائے گا۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
نماز میں ثنا کا حکم
نماز میں ثنا کی کیا حیثیت ہے اور مسبوق (بعد میں شاملِ نماز ہونے والے) کیلئے ثنا کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ ثنا پڑھےگا؟ مدبر عالم ،بہار
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: ثنا کا مقام تکبیر تحریمہ کے بعد ہے، امام مقتدی سبھی کے لئے نیت باندھنے کے بعد ثنا کا پڑھنا مسنون ہے لیکن جب امام قرأت شروع کردے اس وقت مقتدی ثنا نہ پڑھےگا، البتہ سری نماز ہے تو رکوع سے پہلے جب یاد آئے ثنا پڑھ لے۔ مسبوق جس کی کوئی رکعت چھوٹ گئی ہو ،وہ اگر سری نماز کی دوسری رکعت میں یا چار رکعت والے فرض کی تیسری چوتھی رکعت میں شامل ہو تو اس وقت بھی ثنا پڑھ لے لیکن امام کے سلام پھیرنے کے بعد جب یہ اپنی مابقیہ نماز ادا کرنے کھڑا ہوتا ہے اس وقت یہ منفرد کے حکم میں ہے، اپنی چھوٹی ہوئی نماز پڑھتے وقت ثنا اور تعوذ کے بعد قرأت شروع کرے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
قسطوں میں خرید کر فروخت کرنا
ایک صاحب کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ وہ بجاج سے قسطوں میں فون لے کر بیچ دینا چاہتے ہیں تا کہ ادھر پیسے مل جائیں ادھر اقساط ادا کرتے رہیں۔ کیا یہ صورت جائز ہے ؟عبد اللہ ،ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ھوالموفق: انسان کسی چیز کو خریدنے کے بعد شرعاً اس کا مالک بن جاتا ہے چاہے نقد خریداری کی ہو یا ادھار ۔سودا مکمل ہو جانے کے بعد ادھار خریدنے کی صورت میں بھی اسے ہر تصرف کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ تاجروں میں یہ عام ہے کہ بیشتر ادھار خریدنے کے بعد بایع کو قیمت ادا کرنے سے پہلے بھی فروخت کردیتے ہیں۔
شریعت نے ادھار خریدے ہوئے مال کو فروخت کرنے سے منع نہیں کیا البتہ مبیع بر قبضے سے پہلے فروخت کرنے سے منع کیاگیا ہے لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر کسی کمپنی سے جائز طریقے پر کوئی چیز قسطوں میں خریدی تو وہ جب چاہے اسے فروخت کرسکتا ہے لیکن اگر کمپنی نے ادھار کی وجہ سے سود لگایا ہے تو سودی معاملہ کرنے کا گنہگار ہوگا ۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم