اسلامی تہذیب کی بنیاد اسی احساس پر استوار ہے کہ انسان کی تمام سعی کا حاصل، تمام اطاعت کا مقصود، اور تمام محبت کا مرکز خدا کی خوشنودی ہے۔
عبادت کا مفہوم محض اعمالِ مخصوصہ کی تکمیل نہیں بلکہ رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ تصویر:آئی این این
عبادت محض چند مخصوص اعمال کا نام نہیں، جنہیں ہم نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ کے دائرے میںرکھ کر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ عبادت کا مفہوم اس سے کہیں بلند، گہرا اور ہمہ گیر ہے۔ یہ دراصل انسان کے پورے وجود کی ایک ایسی سمت متعین کرتی ہے، جہاں ہر حرکت، ہر خاموشی، اور ہر جذبہ رضائے الٰہی کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔
جس لمحے انسان اپنے ارادے کو خدا کی رضا کے تابع کر دیتا ہے، وہ لمحہ عین عبادت بن جاتا ہے چاہے وہ کسی مظلوم کا سہارا بن رہا ہو، کسی علم کی خدمت کر رہا ہو، یا محض اپنی نیت کو درست کر رہا ہو۔ تمام عبادات اور اعمالِ صالحہ کا اصل محور یہی ہے: رضائے الٰہی۔ یہی وہ مرکز ِ معنا ہے جس کے بغیر دین محض رسم و رواج کی ہیئت اختیار کر لیتا ہے جسم باقی رہتا ہے، مگر روح رخصت ہو جاتی ہے۔
اسلامی تہذیب کی بنیاد اسی احساس پر استوار ہے کہ انسان کی تمام سعی کا حاصل، تمام اطاعت کا مقصود، اور تمام محبت کا مرکز خدا کی خوشنودی ہے۔ اگر یہ مرکز مفقود ہو جائے تو دین ایک رسم، اخلاق ایک عادت، اور عبادت ایک مشق بن کر رہ جاتی ہے۔ دوسرے مذاہب میں عبادت اکثر نجات، کفارے یا خواہشات کی تکمیل کے گرد گھومتی ہے۔یہی محدودیت مذہب کے روحانی جوہر کو کھو دیتی ہے۔ جب انسان مذہب کو صرف پابندیوں اور رسومات کا مجموعہ سمجھنے لگتا ہے، تو وہ مذہب سے دور ہوکر دراصل آزادی کے نام پر خواہشات کی غلامی اختیار کرلیتا ہے۔ یہ مذہب بیزاری کا نہیں بلکہ نفس کی غلامی ہوتی ہے ۔
ایک وہ عبادت ہے جو انسان کو زمین سے اٹھا کر آسمان سے جوڑ دیتی ہے، اور ایک وہ ہے جو آسمان سے کاٹ کر انسان کو اس کی اپنی خواہشات کا اسیر بنا دیتی ہے۔ اسلام اسی مقامِ توازن کا نام ہے جہاں عبادت آزادی نہیں چھینتی، بلکہ انسان کو حقیقی آزادی سے روشناس کراتی ہے: خواہش سے نہیں، رضا سے جینا۔
ایک سچے مومن کی نگاہ میں عبادت کا مفہوم محض اعمالِ مخصوصہ کی تکمیل نہیں بلکہ رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ وہ جنت کی آرزو اور جہنم کے خوف سے اوپر اٹھ کر ایک ایسے مقام پر پہنچتا ہے جہاں عبادت محض فرض کی ادائیگی نہیں رہتی، بلکہ ایک عاشقانہ تعلق کا اظہار بن جاتی ہے۔ اگر عبادت کا مقصد صرف جنت حاصل کرنا یا عذاب سے بچنا ہو، تو دراصل انسان اپنے ارادے کو ایک محدود دائرے میں قید کر لیتا ہے۔ یہ عبادت کے جوہر کو نہیں، اس کے سائے کو تھامنے کے مترادف ہے۔
جب عبادت محض حساب و کتاب کی منطق پر اتر آئے — تو بندگی کی روح تحلیل ہونے لگتی ہے۔ ایسی عبادت جسم رکھتی ہے مگر جان نہیں؛ عمل ہے مگر جذبہ نہیں؛ نتیجہ ہے مگر قرب نہیں۔ یہ کیفیت بالکل ویسی ہے جیسے ایک مریض اور ڈاکٹر کا رشتہ۔ مریض کا مقصد علاج ہے، اور ڈاکٹر کا مقصد علاج مہیا کرنا۔ دونوں اپنے اپنے کام میں مخلص ہو سکتے ہیں، مگر ان کے درمیان کوئی تعلقِ محبت نہیں۔ مریض کو ڈاکٹر کے وجود سے نہیں، اس کی مہارت سے غرض ہوتی ہے؛ اور ڈاکٹر مریض کی خوشنودی سے نہیں، اس کے علاج سے دلچسپی رکھتا ہے۔ ایسا رشتہ بظاہر کارآمد سہی، مگر اس میں کوئی باطنی حرارت نہیں، کوئی قلبی قرب نہیں۔
عبادت جب صرف عطا و ثواب کے تبادلے تک محدود ہو تو بندگی کا جوہر فنا ہو جاتا ہے۔ سچا مومن اپنے رب کو محض دینے یا عطا کرنے والا نہیں، بلکہ محبوب سمجھتا ہے۔ اس کی عبادت طلب سے نہیں، شکر سے جنم لیتی ہے، خوف سے نہیں محبت سے پھوٹتی ہے، اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے بندگی عبادت سے آگے بڑھ کر معرفت بن جاتی ہے۔
عبادت کا مقصود رضائے الٰہی بن جائے تو بندگی ایک زندہ تجربہ بن جاتی ہے۔ ایسا تجربہ جو دل میں روشنی بھرتا ہے اور عمل میں توازن۔ یہی وہ لمحہ ہے جب عبادت محض رسم نہیں رہتی، بلکہ زندگی کا وجدان بن جاتی ہے۔ ایسی عبادت میں نشاط بھی ہوتا ہے اور لذت بھی، کیونکہ اب وہ بوجھ نہیں بلکہ عشق بن چکی ہوتی ہے۔ یہی عشق انسان کو تنہائی میں بھی نگہبان بنائے رکھتا ہے؛ یہ وہ جنون ہے جو خلوت میں بھی بدی سے روکتا ہے، سجدے میں دیر تک ٹھہرنے کی آرزو جگاتا ہے، اور رات کے سناٹے میں قیام اللیل کی لذت عطا کرتا ہے۔ جب دل میں رضائے الٰہی کی شمع روشن ہو جائے تو انسان کا رویہ بدل جاتا ہے۔ وہ صبر کو ہتھیار بناتا ہے، خیانت کو ناپاکی سمجھتا ہے، اور عدل کو عبادت کا تسلسل مانتا ہے۔ ایسا شخص نہ محض نیک ہوتا ہے، بلکہ خیر کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔اس کی عبادت صرف اس کے رب کے ساتھ نہیں رہتی، بلکہ تاثیر ِ عبادت بندوں کے درمیان پھیل جاتی ہے۔ اس کے قدم جہاں پڑتے ہیں، وہاں امان قائم ہوتا ہے؛ اس کے ہاتھ جہاں اٹھتے ہیں، وہاں کسی کا آنسو تھمتا ہے؛ اور اس کے دل میں جو جذبہ موجزن ہوتا ہے، وہ پوری سماجی فضا کو بدل دیتا ہے۔ ایسی عبادت سے ایک ایسا معاشرہ جنم لیتا ہے جہاں کوئی بھوک سے نہیں سوتا،کوئی ننگے بدن نہیں پھرتا، اور خدا کی زمین پر کوئی محرومی دائمی نہیں رہتی۔ یہ وہ معاشرہ ہے جس کے نوجوان صداقت اور عفت کے علَمبردار ہوتے ہیں، جو قوت کے نہیں، کردار کے نمائندہ بنتے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے فرمایا گیا کہ عرشِ الٰہی کے سائے تلے انہیں جگہ ملے گی۔
یوں عبادت اپنے عروج پر پہنچ کر سماج کی روح بن جاتی ہے۔ یہ فرد کو پاک کرتی ہے، فرد سے معاشرہ سنوارتی ہے، اور معاشرہ کے ذریعے ایک ایسی تہذیب تعمیر کرتی ہے جس کا مرکز رضائے الٰہی ہے۔ یہی بندگی کا حاصل، یہی انسان کی معراج، اور یہی وہ راز ہے جو خدا نے انسان کے دل میں ودیعت کیا کہ سجدہ دراصل زمین پر نہیں، روح کے آسمان پر ہوتا ہے۔