Inquilab Logo

بنگال ایک بار پھر نشانے پر

Updated: April 12, 2023, 10:28 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

رام نومی کے موقع پر شر پسند ہنگامہ آرائی کریں گے یہ بات وزیر اعلیٰ سمیت حکومت کے ہر عہدے دار کو پتہ تھی۔ممتا کا الزام ہے کہ دوسرے صوبوں سے دنگائیوں کو بنگال میں لایا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ انٹلی جنس اس خطرناک دراندازی سے لاعلم کیوں رہی؟ہاؤڑہ اور ہوگلی میں پولیس بے بسی سے شرپسندوں کا تانڈو کیوں دیکھتی رہی؟

photo;INN
تصویر :آئی این این

ایک بار پھر رام نومی کے موقع پر مغربی بنگال میں فساد برپا کیا گیا۔ پچھلے سال بھی اس تہوار کے بہانے بنگال کی دھرتی پر تشدد اور تخریب کاری، نفرت اور نفاق کا گندا کھیل کھیلا گیا تھا۔ بنگال کاسب سے اہم تہوار درگا پوجا ہے۔کالی پوجا، لکھی پوجا اور سرسوتی پوجا وغیرہ یہاں کے دیگر مقبول تہوار ہیں۔ مغربی بنگال کے کروڑوں بنگالی جو تہوار سب سے زیادہ دھوم دھام سے مناتے ہیں اور پانچ دنوں تک صوبے میں بنائے گئے ہزاروں پوجا پنڈالوں کے درشن کیلئے انسانوں کا سیلاب امڈ پڑتا ہے، اس دوران کبھی بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوتا ہے۔ درگا پوجا کے دوران مجال ہے کہ کبھی کوئی فساد ہوا ہو۔ دراصل ہر چیز کا انحصار نیت پر ہے۔اگر نیت تہوار کی خوشیاں منانے کی ہو تو خوشیاں منائی جاتی ہیں اور اگر نیت دوسروں کی خوشیاں اور امن و سکون غارت کرنے کی ہو توپھر تلوار اور پستول لہرائے جاتے ہیں۔
 بنگال کو تہواروں کی دھرتی کہا جاتا ہے جہاں ’’ بارو ماشے تیرو پوربو‘‘ والی کہاوت مشہور ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہاں بارہ مہینوں میں تیرہ تہوار منائے جاتے ہیں۔ رام نومی کبھی بھی بنگال کا قابل ذکر تہوار نہیں رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں نے بھگوان رام کے یوم پیدائش کے مقدس تہوار کو سیاسی مقصد کی حصول آوری کا ذریعہ بنالیاہے۔ دراصل سارا کھیل سیاست کا ہے۔ 
 ۲۰۱۶ء کے صوبائی اسمبلی الیکشن میں پوری طاقت جھونک دینے کے باوجود جب بی جے پی صرف تین سیٹیں حاصل کرسکی تو اس نے ہندوقوم پرستی کا کارڈ زور شور سے کھیلنے کا پلان بنالیااور اسی سال سے کلکتہ،ہاؤڑہ، ہوگلی اور دیگر حصوں میں رام نومی کے بڑے بڑے جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان جلوسوں کو نکالنے کی ذمہ داری مثلاً وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور سنگھ پریوار کی مختلف شاخوں نے اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ دیکھتے دیکھتے جلوسوں میں لگائے جانے والے مذہبی نعرے جنگی نعروں میں تبدیل ہوگئے اور زعفرانی جھنڈے لہرانے والے ہاتھوں میں تلواریں بھی آگئیں۔ اس سال تو جلوس میں ایک نوجوان دلیری سے پستول لہراتا ہوا بھی نظر آیا جسے بعد میں پولیس نے بہار سے گرفتار کیا۔
 ممتا بنرجی حکومت اور ترنمول کانگریس قیادت نے حالیہ تشدد کی پوری ذمہ داری بی جے پی پر ڈال دی ہے۔وزیر اعلیٰ کا الزام ہے کہ بی جے پی کے کرائے کے غنڈے انتظامیہ کی اجازت کے بغیر رام نومی کے جلوسوں کو مسلم محلوں میں لے جاکراشتعال انگیزی کرتے اور دنگے بھڑکاتے رہے۔دوپہر کو نکلنے والی ریلی کو جان بوجھ کر اشتعال انگیزی کے مقصد سے شام کو نماز کے وقت نکالا گیا۔ ممتا نے سوال کیا ہے کہ ایک مذہبی جلوس میں اسلحوں اور بلڈوزورں کی کیا ضرورت تھی۔ممتا کا یہ دعویٰ بے حد سنگین ہے کہ رام نومی کے فساد سے ایک ماہ قبل ہی اس کی پلاننگ بی جے پی کے دفتر میں تیار کی گئی تھی۔ بی جے پی حسب معمول ممتا بنرجی پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگا رہی ہے اور یہ دعویٰ کررہی ہے کہ بنگال میں ہندو محفوظ نہیں ہیں۔
  قصہ مختصر یہ کہ مذہبی تقریب میں ہوئے تشدد پر سیاسی رسہ کشی شباب پر ہے اور بھلا کیوں نہ ہو؟ چند ماہ میں صوبے میں پنچایت الیکشن ہونے والے ہیں اور پھر اگلے لوک سبھا الیکشن کے قبل اپنے اپنے ووٹ بینک کو محفوظ رکھنے کا چیلنج بھی سامنے ہے۔ ۲۰۲۱ء  میں بی جے پی کو بنگال میں اقتدار کے حصول کا اس قدر اعتماد تھا کہ امیت شاہ نے ۲۰۰؍ سیٹیں جیتنے کی پیشن گوئی کردی تھی۔ ممتا کو سنگھاسن سے اتارنے کا امیت شاہ کاسپنا بھلے ہی پورا نہ ہوا ہو لیکن ایک ہی جست میں بی جے پی نے ۷۷؍ سیٹیں جیت کر اپوزیشن پارٹی کا مقام ضرور حاصل کرلیا۔بی جے پی کے ووٹوں کا تناسب ۱۰؍ فیصدسے بڑھ کر۳۸؍فیصد ہوگیا۔ ترنمول تیسری بار اقتدار میں واپس تو آگئی لیکن نندی گرام میں سوبھیندو ادھیکاری کے ہاتھوں وزیر اعلیٰ کی شکست ان کے ناقابل تسخیر امیج کے لئے بلاشبہ ایک بہت بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ علاوہ ازیں پچھلے ایک سال میں ٹیچروں کی تقرری کے مہا گھوٹالے میں ترنمول کانگریس کے بڑے لیڈروں کی گرفتاریوں سے ممتا بنرجی کاصاف ستھراامیج بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پچھلے پانچ سال میں نہ صرف بی جے پی بلکہ آر ایس ایس بھی صوبے میں بے حد مضبوط ہوئی ہے۔ 
 رام نومی کے فساد سے سبق حاصل کرکے ممتا نے ہنومان جینتی کے قبل ایک جانب پولیس کو مزید مستعد رہنے کی ہدایت دی اور دوسری جانب براہ راست صوبے کے ہندوؤں سے یہ اپیل بھی کرڈالی کہ وہ مسلم بھائی بہنوں کی حفاظت کریں۔ممتا نے یاد دلایا کہ اقلیتوں کو بھی تحفظ اور انصاف ملنا چاہئے۔ ان کی اس جذباتی اپیل میں نہرو اور امبیڈکر جیسے عظیم لیڈروں کے سیکولر نظریے کی بازگشت سنائی دی۔ تقسیم ہند کا زخم ابھی تازہ تھا اور جنونی تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکارہی تھیں۔ اس وقت نہرو اور امبیڈکر نے عام ہندوستانیوں کو یہ سمجھایا کہ جن مسلمانوں نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے ان کی حفاظت کی ذمہ داری ہندوؤں کی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اب نہ وہ وقت رہا اور نہ ہی ویسے لوگ رہے۔ممتا بنرجی کا سیکولر لیڈر ہونا ہی ان کے لئے وبال جان بن گیا ہے کیونکہ بی جے پی نے منظم طریقے سے سیکولرزم کو ایک گالی اور طعنہ بنادیا ہے۔ پہلے کسی لیڈر کے لئے سیکولر کا لقب ایک تمغہ سمجھا جاتا تھا۔ اب وہ اس کے گلے کا طوق بن گیا ہے۔ممتا کو مسلم دوست قرار دے کر بی جے پی اکثریت کی نظروں میں معتوب کررہی ہے تاکہ اگلے انتخابات میں بنگال کا قلع فتح کرسکے۔
  دیدی نے صوبے کے ہندوؤں سے مسلمانوں کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھانے کی جو اپیل کی ہے اس کی تعریف کی جاسکتی ہے تاہم ان کے اس اپیل میں مجھے ان کی کمزوری اور لاچاری کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مسلمانوں سے بھی انہوں نے یہ اپیل کہ وہ اللہ سے دعا کریں کہ شر پسندوں کا خاتمہ کردے۔ ان کے اس کے غیر ضروری بیان کی بھی ہندوتواوادی طاقتوں کی جانب سے تنقید ہورہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی بھی شہری کی حفاظت حکومت اورپولیس کی ذمہ داری ہے۔ رام نومی کے موقع پر شر پسند ہنگامہ آرائی کریں گے یہ بات وزیر اعلیٰ سمیت حکومت کے ہر عہدے دار کو پتہ تھی۔ممتا کا الزام ہے کہ دوسرے صوبوں سے دنگائیوں کو بنگال میں لایا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ انٹلی جنس اس خطرناک دراندازی سے لاعلم کیوں رہی؟ہاؤڑہ اور ہوگلی میں پولیس بے بسی سے شرپسندوں کا تانڈو کیوں دیکھتی رہی؟ سخت کارروائی کرکے آگ زنی اور تخریب کاری کو روکا کیوں نہیں گیا؟ ایسے متعدد سوالات ہیں جن کے جواب وزیر اعلیٰ جتنی جلدی ڈھونڈ لیں اتنا ہی اچھا ہے۔

bengal Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK