Inquilab Logo

یاہو‘ کی حکومت اور صیہونیت

Updated: February 07, 2023, 2:09 PM IST | Mumbai

یہ کہنا کہ اہل فلسطین کیلئے حالات زیادہ خراب ہوگئے ہیں ا

photo;INN
تصویر :آئی این این

یہ کہنا کہ اہل فلسطین کیلئے حالات زیادہ خراب ہوگئے ہیں اس لئے بے معنی ہے کہ حالات کل بھی اِتنے ہی خراب تھے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کل قیام ِ امن کی جو موہوم سی اُمید باقی تھی، اب اُس پر بھی بے شمار اندیشے منڈلانے لگے ہیں۔ یہ اندیشے تب ہی لاحق ہوگئے تھے جب اسرائیل میں پرانے وزیر اعظم نیتن یاہو کی نئی حکومت وجود میں آئی۔ اس حکومت کی خاص بات یہ ہے کہ شدت پسندی کے نئے تماشے اس کا ایجنڈا ہیں تاکہ اُن شیطانی عزائم کو پورا کرسکے جو اہل فلسطین پر برسوں کے ظلم و جبر کے باوجود پورے نہیں کئے جاسکے ۔
  نیتن یاہو نے جس سیاستداں کو اپنی کابینہ میں قومی سلامتی کے وزیر کا عہدہ دیا، اُس کا طریقہ کسی کی نہ سننا اور اپنی کئے جانا ہے۔ کھلم کھلا صہیونیت کی وکالت کرنے والی عوتسما یہودیت پارٹی کے اس سیاستداں کا نام ایتمار بن غفیر ہے۔ یہ وہی غفیر ہے جس نے جنوری کے اوائل میں مسجد اقصیٰ کے احاطہ میں داخل ہوکر اپنے عزائم کے اعلان کی کوشش کی تھی۔ الجزیرۃ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اسے ایسی حرکت سے باز رکھنے کیلئے کئی اسرائیلی سیاستدانوں نے بھی شدید ردعمل کے خلاف متنبہ کیا تھا مگر اس نے ایک نہ سنی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اسے یہ علم نہ ہوگا کہ ۲۰۰۱ء میں ایریل شیرون نے بھی یہی حرکت کی تھی جس کے نتیجے میں انتفاضہ ٔ دوم شروع ہوا تھا؟ مگر اس کی نہ تو وہ حرکت سمجھ سے بالاتر ہے نہ ہی حالیہ تشدد کے واقعات کو کسی تشریح کی ضرورت ہے۔ جب نیتن یاہو نے غفیر کو حکومت میں شامل کیا تب امریکہ اور یورپی برادری وغیرہ نے آواز نہیں اُٹھائی۔ اُن کی خاموشی نیتن یاہو کے اقدام کی سراسر تائید تھی۔ خاموشی اختیار کرتے وقت مغربی دُنیا نے ایتمار بن غفیر کے ماضی سے چشم پوشی کی اور اس حقیقت کو یادداشت سے نکال کر بالائے طاق رکھ دیا کہ غفیر ماضی میں جس تحریک سے وابستہ تھا وہ متعصب قوم پرست تحریک تھی اور جس کی وجہ سے امریکہ نے اسے دہشت گرد تنظیموں میں شامل کررکھا تھا۔ 
 ایک رپورٹ کے مطابق بن غفیر جس تحریک سے وابستہ رہا اس کے ایک لیڈر نے ۱۹۹۴ء میں مغربی کمنارہ کی ایک مسجد میں ۲۹؍ فلسطینیوں کو شہید کیا تھا۔ ایسا شخص اگر کابینہ کے ایک اہم بلکہ کلیدی وزارت پر مامور کیا گیا تو اس سے حکومت ِ اسرائیل کے عزائم کی مزید وضاحت ہی ہوئی، اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ رواں سال کی ابتداء فلسطینیوں پر نئے مظالم اور زیادہ تشدد کے واقعات کے ساتھ ہوئی جبکہ اس سے قبل کا سال (۲۰۲۲ء) ۲۰۰۵ء کے بعد کا سب سے زیادہ ہلاکت خیز سال تھا جس میں مشہور صحافی شیرین ابو عاقلہ سمیت مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم کے کم و بیش ڈیڑھ سو فلسطینیوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا گیا تھا۔ ابھی رواں سال کے بمشکل ۳۶۔۳۷؍ دن گزرے ہیں مگر اتنی کم مدت میں خونخوار اسرائیلی حکام مذکورہ علاقوں کے ۴۱؍ اہل فلسطین کو ڈھیر کرچکے ہیں۔
 اِن حالات پر امریکہ کو تشویش ہے۔ اقوام متحدہ اور اُن دیگر ملکوں کو بھی تشویش ہے جنہوں نے اسرائیل کی جارحیت کی مذمت تو کی مگر حکومتِ اسرائیل کو متنبہ نہیں کیا ۔ مذمت کرنے کے بعد متنبہ کرنا دوسرا قدم ہوتا ہے جس کے بعد تیسرا قدم امداد کو روکنا اور چوتھا قدم معاشی پابندیاں لگانا ہوسکتا ہے مگر مغربی دُنیا پچھلے ۷۵؍ سال سے، پہلے اور دوسرے اقدام ہی پر اکتفا کرتی آرہی ہے۔ تیسرے اور چوتھے اقدام سے اس کا واسطہ نہیں ہے۔ یہ دوغلے پن کی بہترین مثال ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ اس دوغلے پن سے کب تک انصاف کا گلا گھونٹا جائیگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK