Inquilab Logo Happiest Places to Work

نیتن یاہو کی شامت ِاعمال

Updated: July 18, 2025, 1:24 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اقتدار پر قابض رہنے کا جنون دو اسباب کی بناء پر ہوتا ہے۔ یا تو اقتدار میں غیر معمولی کشش دکھائی دیتی رہے یا پھر اقتدار سے ہٹنے کے بعد کے خطرات سے ہیبت طاری ہوتی ہو۔ نیتن یاہو موخر الذکر کا شکار ہیں ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 اقتدار پر قابض رہنے کا جنون دو اسباب کی بناء پر ہوتا ہے۔ یا تو اقتدار میں  غیر معمولی کشش دکھائی دیتی رہے یا پھر اقتدار سے ہٹنے کے بعد کے خطرات سے ہیبت طاری ہوتی ہو۔ نیتن یاہو موخر الذکر کا شکار ہیں ۔ جس دن وہ حکومت میں  نہیں  رہ جائینگے، اُن کے خلاف کرپشن کی فائل کھل جائیگی۔ یہ فائل بند ہی رہے اس کیلئے وہ آئندہ دنوں  اور مہینوں  میں  کیا کرینگے یہ کہنا مشکل ہے البتہ فی الحال اُن کی حتی الامکان کوشش ہے کہ اقتدار میں  جمے رہیں  مگر اب اُن کا تخت ڈانواڈول ہے۔ 
 اسرائیل میں  پارلیمانی انتخابات اکتوبر ۲۶ء میں  ہونے ہیں  یعنی اس میں  کم و بیش سوا سال کا وقت ہے۔ غزہ کے خلاف جنگ پونے دو سال تک جاری رہ سکتی ہے تو کیا سوا سال تک نیتن یاہو کی حکومت نہیں  جاری رہ سکتی؟ یقیناً رہ سکتی ہے مگر اُن کی پالیسیوں  کی وجہ سے چھوٹی سیاسی پارٹیاں  بدظن ہوکر علاحدہ ہونے لگی ہیں ۔ متنازع پالیسیوں  میں  سے ایک وہ ہے جس کا تعلق فوج میں  لازمی خدمات دینے کا وہ طریقہ ہے جو اسرائیل میں  رائج ہے۔ یہ سب کیلئے لازمی ہے مگر کچھ لوگوں  کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے بالخصوص وہ نوجوان جو مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ نیتن یاہو ایک ایسی پالیسی چاہتے ہیں  جس سے استثنیٰ یعنی فوج میں  لازمی خدمت سے چھو‘ٹ متاثر ہوگی۔ قدامت پرست جماعتیں  اس کی مخالف ہیں  اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے ہفتے ’’یونائیٹیڈ توراۃ جوڈائزم‘‘ نامی پارٹی نے حکومت سے علاحدگی اختیار کی اور اب ’’شاس‘‘ نامی ایک ایسی پارٹی نے یاہو کو خیرباد کہہ دیا کہ جس کے جانے سے خطرات میں  گھری ہوئی نیتن یاہو کی حکومت اقلیت میں  آگئی ہے۔ پارلیمنٹ کے ۱۲۰؍ اراکین میں  سے اب اُن کی حکومت کے حامی صرف پچاس رہ گئے ہیں ۔ اسے اسرائیلی وزیر اعظم کی شامت ِ اعمال نہیں  تو اور کیاکہا جاسکتا ہے۔ ۱۲۰؍ رُکنی پارلیمنٹ میں  حکمراں  اتحاد کو ۶۱؍ اراکین کی حمایت درکار ہوتی ہے مگر نیتن یاہو کے حامی صرف ۵۰؍ ہیں ۔ اس کے باوجود حکومت ٹکی رہے گی کیونکہ جن پارٹیوں  نے سپورٹ واپس لیا اُنہوں  نے یقین دلایا ہے کہ فی الحال اُن کا مقصد حکومت گرانا نہیں  ہے۔ وہ بعض معاملات میں  حکومت کی حمایت کرینگے اور اس کے حق میں  ووٹ دینگے۔ علاحدہ ہونے سے اُنہیں  یہ آزادی مل گئی ہے کہ اگرغیر متفق ہیں  تو حکومت سے کھل کر اختلاف کریں ۔
 سوال یہ ہے کہ کیا اس سے غزہ اور اہل غزہ کو کوئی راحت مل سکتی ہے؟ افسوس کہ اس کا امکان کم ہے کیونکہ نیتن یاہو کی سیاسی طاقت کم ہونے کی وجہ سے اُنہیں   بائیں  بازو کی پارٹیوں  کا دباؤ قبول کرنا ہوگا جو غزہ کے خلاف جنگ کو روکنے کے خلاف ہیں ۔ مگر نیتن یاہو پر امریکہ کا کافی دباؤ ہے۔ ٹرمپ بار بار کہہ رہے ہیں  کہ جنگ روکی جائے۔ اُنہیں  نوبیل انعام کی فکر ستا رہی ہے۔ اِن حالات میں  یاہو درمیانی راستہ نکال کر ۶۰؍ روزہ جنگ بندی پر آمادہ ہوسکتے ہیں  تاکہ اس دوران علاحدہ ہونے والی پارٹیوں  کے ساتھ سمجھوتہ کی راہ ہموار کریں ۔ ایک امکان وسط مدتی انتخابات کا بھی ہے مگر یاہو اتنا بڑا جوکھم نہیں  اُٹھانا چاہیں  گے۔ 
 حکومت بچانے کیلئے نیتن یاہو دھیان بھٹکانے کی کوشش میں  بھی لگے ہوئے ہیں ۔ اس کا ثبوت ایران پر حملہ تھا۔ اس کا ثبوت جنوبی شام پر اس کا حالیہ حملہ بھی ہے جس میں  شامی وزارت دفاع اور داخلہ کے پندرہ افسران فوت ہوئے۔ دھیان بھٹکانا عارضی حکمت عملی ہوتی ہے جو نیتن یاہو کو مستقل راحت نہیں  دے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK