اسلام ہرقتل ناحق کوانسانیت کے خلاف جرم قرار دیتا ہے، قرآن کریم میں کسی بے قصور کی جان لینے کا مطلب تمام انسانوں کا قتل کرنا بتایا گیا ہے، چہ جائے کہ بھرے بازار میں بے خبر لوگوں کی جانیں لی جائیں۔ یہ جرم چاہے جو بھی کرے اور اس کے پیچھے جس کا بھی دماغ ہو، وہ اسلام کا دشمن ہے، انسانیت کا مجرم ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم، نفرت و تشدد کے خلاف آواز بلند کریں اور اسلام کے اصل پیغام ِ `رحمت و محبت کو عام کریں۔ تصویر:آئی این این
دہلی ایک بار پھردہل گئی۔ وہی خوف و دہشت کی لہرجس کے لئے ۹۰ء اور ۲۰۰۰ء کی دہائیاں یاد کی جاتی ہیں، ایک بار پھر اس شہر کی رگوں میں دوڑ گئی جو ہندوستان کا دل ہے۔ دہلی کے اعصاب پرپھر اسی بے چینی و بے یقینی کا سایہ ہے جو یاد ماضی بن چکا تھا، جس کی تباہیاں یہ شہر بھلانے کی کوششیں کررہا تھا۔ یہ سوچ کر ہرکسی کا دل و دماغ بے قابو ہے کہ ۱۰؍ نومبرکو جو دھماکہ لال قلعہ کے میٹرو اسٹیشن پر ہوا، اگر ان تمام مقامات پر ہوگیا ہوتا جو نشانے پرتھے تو کیا ہوتا۔ تفتیشی ایجنسیوں اور میڈیا کا یہ بتانا انتہائی خوفناک اور سنسنی خیز ہے کہ ایک پرانی کار کے جس دھماکے نے قومی راجدھانی کے ایک ہائی الرٹ ایریا میں درجن بھر سے زائد لوگوں کی جان لے لی اور اس سے کئی گنا زائد لوگوں کو زخمی کردیا، اس کے ماسٹر مائند چار شہروں کے متعدد مقامات پر اتنی ہی طاقت کی ایسی ہی ہلاکت خیز کارروائیاں انجام دینے کا منصوبہ رکھتے تھے اور اس کے لئے دھماکہ خیزمواد سے بھری ۳۲؍ گاڑیاں استعمال کی جانی تھیں لیکن اس سے بھی زیادہ تشویشناک یہ بات ہے کہ اس دھماکے میں اپنی کار کے ساتھ مارا جانے والا نوجوان ایک ڈاکٹر تھا اور اسی کے ساتھ کئی ڈاکٹروں، دھماکہ خیز مواد بنانے کے ماہرین، سائنسداں، پروفیشنلز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے مل کر یہ منصوبہ بنایا تھا۔ ان رپورٹوں اور دعوؤں پر مختلف نہج سے باتیں ہوسکتی ہیں، اس پر بھی گفتگو ہوسکتی ہے کہ اس لعنت کے پیچھے اصل کھیل کیا ہے لیکن یہ ہرگز کسی بحث کا موضوع نہیں ہوسکتا کہ دہشت گردی جسد انسانیت کا ناسور ہے، یہ ایک ایسی لعنت ہے جو پہلے انسانیت کی روح کو قتل کرتی ہے، پھر انسانوں کی جان لیتی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ ناسور آخر کب تک رستا رہے گا اور کیا اس کا کوئی علاج بھی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ اس لعنت کو اسلام سے جوڑ کر اسلام کو بدنام کرنے کی سازشیں کیوں کی جاتی ہیں اور کیا اسلام میں اس کی کہیں کوئی ذراسی بھی گنجائش ہے؟
اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ انسانی معاشرہ میں تشدد کے رجحانات کو مفادات کے تصادم نے جنم دیا۔ ہردور میں انفرادی یا گروہی لڑائی جھگڑے اور خون خرابے کو انسانی طبیعت کی یہی خاصیت جنم دیتی ہے۔ وسائل اور دولت و اقتدار پر قبضے کی خواہش انسان کو طاقت کے استعمال اور تشدد پر آمادہ کرتی ہے لیکن اس میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مذاہب اور مذہبی جذبات کو بھی اس کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اب رہا اسلام کا تعلق تو اس سلسلے میں قرآن کریم کہتا ہے کہ’’(ابتداء میں) سب لوگ ایک ہی دین پر جمع تھے، (پھر جب ان میں اختلافات رونما ہو گئے) تو اﷲ نے بشارت دینے والے اور ڈر سنانے والے پیغمبروں کو بھیجا، اور ان کے ساتھ حق پر مبنی کتاب اتاری تاکہ وہ لوگوں میں ان امور کا فیصلہ کر دے جن میں وہ اختلاف کرنے لگے تھے ۔‘‘ (البقرہ: ۲۱۳) اس آیت میں یہ بھی کہاگیا کہ اختلاف وہی لوگ کرتے ہیں جن کو اللہ نے کتابیں دیں لیکن ایسا وہ اپنے بغض و حسد کی وجہ سے کرتے ہیں، کتاب پر ایمان کے باعث نہیں کرتے۔ یہ انسانی تاریخ کی ایک انتہائی عبرتناک ٹریجڈی ہے کہ خدا نے نبیوں، رسولوں اور کتب سماوی کو جھگڑے نبٹانے کے لئے بھیجا لیکن لوگوں نے طاقت و دولت کے حصول کے لئے اسی کو اپنا ہتھیار اور ایک دوسرے کو مغلوب کرنے کی بنیاد بنالیا۔ اسلام کہتا ہے کہ سارے انسان ایک امت ہیں، ایک ماں باپ کی اولاد اور ایک خاندان کے افراد ہیں بلکہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور اس کی مخلوق میں خداکا سب سے پیارا وہ ہے جو ان میں اس کے کنبے کو سب سےزیادہ فائدہ پہنچانے والا ہے۔ سرکار دو عالم، رسول خدا ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’انسانوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچاتا ہے۔‘‘ ذرا تصور کیجئے کہ جو لوگ انسانی معاشرہ کے سب سے نفع بخش افراد مانے جاتے ہیں، جن کو جان بچانے اور مسیحائی کرنے کے لئے جانا جاتا ہے، جنہوں نے اسی کے لئے اپنی زندگی کے بیش قیمت ماہ و سال اور قیمتی وسائل لگائے ہیں، اگر وہی بےگناہوں کی جانیں لینے لگیں اور ان کو ہی خوف و دہشت کی علامت بنادیا جائے تو انسانیت کی روح کیسی تڑپ رہی ہوگی؟
اسلام تو میدان جنگ میں بھی کسی قسم کے ظلم وتعدی کی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ ظلم کا بدلہ تو لیا جاسکتا ہے لیکن اگر مظلوم حدیں تجاوز کرگیا تو وہ بھی ظالم کی صف میں آجائے گا۔ ارشادِ ربانی ہے:’’اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی خدا کی راہ میں ان سے لڑو مگر زیادتی نہ کرنا کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ (سورہ البقرہ:۱۹۰)
اسلام ہرقتل ناحق کوانسانیت کے خلاف جرم قرار دیتا ہے، قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا ۔‘‘ ( سورہ المائدہ:۳۲) چہ جائے کہ بھرے بازار میں بے خبر لوگوں کی جانیں لی جائیں، بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کو بموں سے اڑایا جائے۔ یہ جرم چاہے جو بھی کرے اور اس کے پیچھے جس کا بھی دماغ ہو، وہ اسلام کا دشمن ہے، انسانیت کا مجرم ہے۔ وہ ہرگز کسی کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا۔ وہ شریعت اسلامیہ کی نظر میں خود اپنا خیر خواہ بھی نہیں ہے۔ ایسے شخص کی جگہ جہنم کی سب سے گہری کھائی ہے۔
خداوندکریم کسی سے بھی لڑنے جھگڑنے کو روا نہیں رکھتا، صرف حملے اور ظلم کے خلاف دفاعی لڑائی کی اجازت دیتا ہے اور کسی عام آدمی کو تو ہرگز اس کا حق نہیں دیتا کہ کسی قوم یا جماعت کے خلاف جنگ چھیڑے، یہ حق صرف ریاست کو حاصل ہے۔ اسلام ایک خطے یا سرزمین پر رہنے والے مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اہل ایمان کو حسنِ سلوک کی ہدایت دیتا ہے، اللہ نے فرمایا: ’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ ( سورہ الممتحنہ:۸)
رسول خداﷺ نے اپنی حیات ِ مبارکہ میں ہمیشہ ظلم کے جواب میں صبر اور نفرت کے مقابلے میں محبت اختیار کی۔ فتح مکہ کے موقع پر جب آپ ﷺ اپنے دشمنوں پر غالب آئے، تو انتقام لینے کے بجائے فرمایا:’’جاؤ، تم سب آزاد ہو۔‘‘اسلام نے جنگ میں بھی یہ اصول دیاکہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیا جائے، عبادت گاہوں اور گھروں کو نقصان نہ پہنچایا جائے، فصلوں اور درختوں کو تباہ نہ کیا جائے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم، چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم، سب مل کر سینہ سپر ہوں اور نفرت و تشدد کے خلاف آواز بلند کریں۔ اسلام کے اصل پیغام ِرحمت و محبت کو عام کریں۔ اس سوچ کو مضبوط کریں کہ اسلام ہمیں انتقام نہیں، عدل اور عفو کی تعلیم دیتا ہے۔
آخری بات ۔ہم مظلوم ہیں تو ہوں لیکن ظالم ہرگز نہ ہوں ۔ اسی میں انسانیت کی نجات ہے۔ یہ بارہویں صدی عیسوی کا بغداد تھا۔ مرکزی اقتدار کمزور اور خلافت عباسیہ زوال پزیر تھی۔ صلیبی جنگوں اور صلیبیوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے مشرق وسطیٰ کی عام زندگی لہولہان تھی۔ خود مسلمانوں کے بعض گروہ اور فرقے بھی اسی راہ پر چل پڑے تھے۔ شیخ المشائخ محبوب سبحانی سیدنا محی الدین عبدالقادر جیلانیؒ نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی: ’’قیامت کے دن پکارنے والا پکارےگا: کہاں ہیں ظالم، کہاں ہیں مظلوم اور کہاں ہیں وہ جو اُن کو دیکھ رہے تھے اور وہ قلم دوات جن سے ان پر ظلم لکھا گیا، سب کو جمع کرو اور ان سب کو آگ کے تابوت میں ڈال ڈو۔ اے بیٹے! اس بھیڑ سے بھاگو، کوشش کرو کہ نہ تو مظلوم بنو نہ ظالموں میں رہو اور اگر قدرت رکھتے ہو تو مظلوم بنو ظالم نہ بنو، مقہور بنو قاہر نہ بنو، حق کی نصرت ظلم کا سامنا کرنے والے کے لئے ہے، خصوصاً جب خلق میں اس کا کوئی مددگار نہ ہو۔‘‘
یہ وہ سبق ہے جو قیامت تک کے لئے ہمیں گرہ سے باندھ لینا چاہئے۔