• Fri, 21 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

موت آئے تو اِس بشارت کیساتھ بارگاہِ الٰہی میں حاضری ہو!

Updated: November 21, 2025, 3:45 PM IST | Shamsul Haq Nadvi | Mumbai

کون سی بشارت؟ جو سورۂ الفجر کی ایک آیت میں وارد ہوئی ہے، تفصیل سے پڑھئے زیر نظر مضمون میں۔

Picture: INN
تصویر:آئی این این
کسی کہنے والے نے کتنی دل لگتی بات کہی ہے کہ انسان کے دل کی دھڑکن ہرآن اس کوآگاہ کررہی ہے کہ زندگی منٹ اور سیکنڈکی ہے۔ صادق المصدو ق حبیب خدا رحمت عالم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے اس حقیقت کواس طرح بیان فرمایاکہ : نمازمیں ایک طرف کا سلام پھیر و تو دوسری طرف کایقین نہ رکھو۔
اس کی مثالیں بھی برابرسامنے آتی رہتی ہیں۔ ایک شخص کے یہاں عقیقہ ہے، عزیزوں کی دعوت کررکھی ہے لیکن اس کے گھر پہنچتے ہیں تواس کاجنازہ رکھا ہوتا ہے۔ دوسرے کے یہاں شادی ہے، وہ اسی انتظام میں لگاہوا ہے، اگلے دن مہمان آنے ہیں، شادی کاکچھ سامان لے کر آرہاتھاکہ راستہ ہی میں حالت بگڑی اورچندمنٹوں میں روح پرواز کرگئی، شادی میں شرکت کرنے والے غمی میں شریک ہورہے ہیں۔ ایک عالم دین جمعہ کاخطبہ دے رہے ہیں، پہلا خطبہ دے کر بیٹھے کہ اس کے بعد دوسرا خطبہ دیں  گے مگر حالت بگڑی اور روح پرواز کرگئی۔ اسی طرح ایک حافظ صاحب تراویح پڑھارہے ہیں، سجدہ میں گئے اور پھر سر نہ اُٹھا سکے۔ ہمارے مشاہد ہ کی سیکڑوں مثالوں میں سے یہ چند مثالیں ہیں۔ قارئین کے سامنے بھی اس طرح کے بہت سے واقعات گزرچکے ہوں گے، جو آگاہ کرتے ہیں کہ زندگی کے جو لمحات بھی حاصل ہیں ان سے فائدہ اٹھالو!
وعظ و تقریر میں عام مسلمانوں کی اصلاح و تربیت اور ان میں فکر آخرت پیدا کرنے کیلئے اچانک پیش آنے والے یہ اور ایسے  واقعات کوبیان کرنا اور ان کو جھنجوڑنا یقیناً مفید ہے؛ لیکن خود علماء ومصلحین کو اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زبان وقلم کو استعمال کرنے اوراپنے فریضہ کو ادا کرنے کے لئے کس فکر و احتیاط کی ضرورت ہے، اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ مگریہ کتنی افسوسناک بات ہے کہ اس میں شرمناک حد تک کوتاہی سے کام لیاجاتاہے۔ اکثر ایسا ہوتاہے کہ لوگوں میں اپنی حیثیت کوبڑھانے کیلئے سب کچھ کہا اور لکھاجاسکتا ہے مگر اس کا خیال نہیں کہ عالم الغیب والسرائرکے سامنے پیشی کے وقت کیاحال ہوگا، وہاں وہ تاویلات نہیں کام دیں گی جن کے ذریعہ لوگوں کو دھوکے میں رکھا گیا ہے۔
ایسے ہی بعض وقت ضداورغصہ میں آدمی ساری حدوں کو پار کر جاتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک صحابی ؓ نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیا کہ: ’’ اللہ کے رسولؐ! ہم کوبہت مختصر و جامع نصیحت فرمادیجئے۔ آپؐ نے فرمایا: غصہ نہ کیاکرو۔‘‘غصہ ایسی خطرناک بات ہے کہ اس سے دماغی توازن بگڑ جاتا ہے، جب دماغی توازن صحیح نہ ہوتوآدمی کچھ بھی کرسکتا ہے ،ماں باپ پرہاتھ اٹھتا ہے یا مثال کے طور پر اپنے عزیزوں نیز بزرگوں کی شان میں گستاخانہ باتیں کرنے لگتا ہے، اس لئے قرآن کریم نے غصہ برداشت کرلینے والوں کی تعریف اس طرح کی ہے: ’’اور جو غصہ کو روکتے ہیں اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں۔‘‘ (آل عمران:۱۳۴)
غصہ کااثر اورضد کاہوش وحواش پراتناغلبہ ہوجاتا ہے کہ سوچنے اورعقل سے کام لینے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے، کسی کاسمجھانابھی اس کو پسند نہیں آتا بلکہ سمجھانے والے ہی سے لڑجاتا ہے۔ ایسے لوگوں کا مزاج یہ بن جاتا ہے کہ اہل اللہ اور اکابر تک کی شان میں طعن و تشنیع کرنے لگتے ہیں حالانکہ یہ اتنی خطرناک بات ہے کہ اللہ تعالیٰ حدیث قدسی میں فرماتا ہے:’’ جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرتاہے، میں اس سے اعلان جنگ کردیتاہوں۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الرقاق)  اللہ تعالیٰ کوئی فوج نہیں اتارتا بلکہ ایسے شخص پرایسی بے توفیقی مسلط ہوجاتی ہے کہ بے قیاس وگمان غلط راستہ پر چل پڑتا ہے اور چلتا ہی جاتا ہے۔ تاریخ میں اس کے بڑے افسوسناک و عبرتناک واقعات ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے اہل اللہ اور خاصانِ خداکی شان میں بے ادبی اور گستاخی سے بچائے۔ یہاں مَیں صرف ایک مثال  بیان کرتا ہوں: حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندویؒ فرماتے ہیں کہ: ایک طالب علم نے مولانا سیدسلیمان ندویؒ کی شان میں گستاخی کی، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پاگل ہوگیا ایسا کہ اس کے باپ سید صاحب کے پاس اُسے اس حال میں لائے کہ ہاتھ بندھے ہوئے تھے، سید صاحب نماز کیلئے مسجد میں داخل ہو رہے تھے، مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے عرض کیا کہ آپ کی شان میں گستاخی کی وجہ سے اس کایہ حال ہوا، آپ معاف فرما دیجئے، جب سید صاحب نماز پڑھ کے نکلے تو فرمایا: مولوی ابوالحسن! ہم نے آپ کا کہا کردیا  (یعنی اس کے لیے دعاکردی) دیکھتے ہی دیکھتے  اس کے جنون کی حالت ختم ہوگئی اور وہ اچھا ہوگیا۔
 بات شروع ہوئی دل کی دھڑکن کی آگاہی سے؛ لیکن غفلت کامارا انسان کس دھوکے میں پڑا رہتاہے کہ حاضرکے سامنے غائب کاخیال نہیں رہتا اور شیطان اس کے گلے میں ایک نہ دکھائی دینے والا پھندا لگاکرکن کن فتنوں میں ڈالے رکھتا ہے۔
دل کی دھڑکن کے ذکرکایہ مطلب بھی نہیں کہ آدمی بس موت کے مراقبہ میں گم رہے۔ ایسا کرنا  اسلامی تعلیمات کے سراسرخلاف ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے زندگی گزارنے کے جواحکامات، اخلاقیات سے لے کرمعاملات، باہمی تعلقات، لین دین، کاروبار، حلال طریقہ پرروزی حاصل کرنے، باہمی میل جول اور اہل قرابت کے حقوق کی ادائیگی کے جو طریقے  بتائے ہیں، اور  وقت کی نبض شناسی اور اس کے مسائل سے نمٹنے کے لئے جو ایمانی فراست سے نوازا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے، ان کو انجام دیں اور جن غلط کاموں اور فحش باتوں سے روکا گیاہے، ان کے قریب نہ جائیں تاکہ جب ملک الموت آئیں تو ہم  ’’اے اطمینان پا جانے والے نفس، تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آ کہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی‘‘ (الفجر: ۲۷۔۲۸)کی بشارت کے ساتھ بارگاہ ِخداوندوی میں حاضر ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK