شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) ادھار خرید و فروخت کے درست ہونے کے لئے شرعاً ضروری ہے کہ سامان کی قیمت بھی متعین ہو اور قیمت کی ادائیگی کا وقت بھی (۲)ادھار خرید و فروخت (۳) نماز اور امامت کا ایک مسئلہ (۴) رضاعی بیٹے کے ساتھ عمرہ (۵) بینک کے سود سے بچنے کی راہ
سامان خریدنے میں ہول سیل والوں سے ہماری یہ ترتیب رہتی ہے کہ ہم لوگوں سے مال لے لیتے ہیں اور طے یہ ہوتا ہے کہ جب یہ فروخت ہو جائے گا تو اس کا پیمنٹ کردیں گے ،سامان کی قیمت اگر چہ پہلے سے ہی طے ہوتی ہے،یعنی وہ یہ کہہ دیتا ہےکہ یہ ۵۰؍ ہزار کا مال ہے، جب بک جائے تو پیسے دے دینا، پھر ہم اُس میں منافع رکھ کر آگے فروخت کردیتے ہیں،اوراَصل رقم اُس کو دیتے ہیں ، کیا اس طرح خریدو فروخت کرنا جائز ہے؟
سعد حسن ،ممبئی
الجواب ھوالموفق :ادھار خرید و فروخت کے درست ہونے کے لئے شرعاً ضروری ہے کہ سامان کی قیمت بھی متعین ہو اور قیمت کی ادائیگی کا وقت بھی متعین ہو۔ اگر قیمت متعین نہ ہو یا قیمت کی ادائیگی کا وقت متعین نہ ہو، تو ایسی بیع درست نہیں ہے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ہول سیل والوں سے جو اس شرط پر مال خریدا جاتا ہے کہ جب مال فروخت ہو جائے گا اس وقت پیسے دیں گے، تو اصولاً یہ بیع قیمت کی ادائیگی کا وقت متعین نہ ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہونی چاہئے اور اگر مال ادھار کہہ کر نہیں خریدا جاتا اور قیمت متعین ہوتی ہے اور قیمت بعد میں ادا کرنا ہے، تو جائز ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ قیمت طے کر کے نقد میں خریدے اور خریداری سے فارغ ہونے کے بعد کہہ دے کہ بعد میں ادا کردینگے تو جائز ہے اور اگر ادھار خرید رہا ہے، تو ادائیگی کی مدت مقرر کرنا ضروری ہے۔ واللہ اعلم
ادھار خرید و فروخت
ادھار پر کوئی چیز خریدنا کیسا ہے؟ مثال کے طور پر ایک سامان کی قیمت پچاس روپے ہے، مگر خریدنے اور بیچنے والا چھ ماہ کی مدت کے لئے اس کی قیمت سو روپے طے کر لیتے ہیں ۔اس صورت میں کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟
سعد حسن ،ممبئی
الجواب ھوالموفق :شرعی نقطہ نظر سے ادھار پر کسی بھی چیز کا خرید و فروخت کرنا جب کہ ادھار میں نقد کی بہ نسبت زیادہ رقم لی جاتی ہو تو چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ پہلا یہ کہ جس چیز کا معاملہ کیا جارہا ہے اس کی قیمت متعین ہو ؛ دوسرا یہ کہ مدت متعین ہو ؛اور تیسرا یہ کہ مقررہ وقت سے تاخیر کی صورت میں جرمانہ وغیرہ کے نام سے مقررہ رقم سے زائد کسی قسم کی اضافی رقم وصول نہ کی جائے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سامان کی ادھار خرید وفروخت ہونے کی صورت میں نقد کی بہ نسبت زیادہ رقم لینا جب کہ مذکورہ بالا شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ والله اعلم
نماز اور امامت کا ایک مسئلہ
اگر امام کو سورۂ فاتحہ میں حدث لاحق ہو اور وہ اپنے نائب کو آگے کردے تو نائب آگے ہونے کے بعد کہاں سےپڑھےگا اور اگر حدث سورہ وغیرہ میں لاحق ہو تو نائب کہاں سے پڑھے گا؟ اسی طرح اگر رکوع سجدے اور التحیات میں حدث لاحق ہو تو نائب کہاں سےپڑھے گا؟عبد اللہ، ممبئی
الجواب ھو الموفق : صورت مسئولہ میں اگر امام کو سورۂ فاتحہ یا اس کے بعد سورت کے دوران حدث (وضو ٹوٹنا یا فطری ضرورت ) لاحق ہو، اسی طرح رکوع سجدہ یا قیام میں حدث لاحق ہو اور امام کسی کو اپنا نائب بنائے تو نائب چاروں صورتوں ( فاتحہ ، سورہ، رکوع ، سجدہ) میں اسی مقام سے نیابت کریگا، جہاں امام نے اسے نائب بنایا تھا، البتہ امام سورۂ فاتحہ کے بعد جو آیات پڑھ رہا ہو وہ نائب کو اگر یاد نہ ہوں تو کسی اور مقام سے بھی پڑھ سکتا ہے۔ واللہ اعلم
رضاعی بیٹے کے ساتھ عمرہ
ایک بڑی عمر کی صاحب ِنصاب عورت ہیں، وہ عمرہ کرنا چاہتی ہیں مگر محرم کا مسئلہ ہے۔ ان کے متعلقین میں ایک صاحب ہیں جن کے تعلق سے یہ کہا جاتا ہے کہ بچپن میں انہوں نے مذکورہ بالا عورت کا دودھ پیا ہے۔ کیا اس لحاظ سے وہ شخص ان کا محرم بن سکتا ہے اور عمرہ کے لئے ساتھ جا سکتا ہے؟
حامد علی، پونہ
الجواب ھوالموفق: شریعت کا اصول ہے ’’رضاعت سے وہی رشتے حرام ہوتے ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔‘‘ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”رضاعت سے وہ (رشتے) حرام ہو جاتے ہیں جو ولادت سے حرام ہوتے ہیں۔“ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ قاعدے کے مد نظر مذکورہ عورت کا اپنے رضاعی بیٹے (یعنی جس نے دوسال یا زیادہ سے زیادہ ڈھائی سال کی عمر میں اس عورت کا دودھ پیا ہو) کے ساتھ عمرے پر جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، جاسکتی ہے ۔ واللہ اعلم
بینک کے سود سے بچنے کی راہ
میں ایک میڈیسن کمپنی میں ملازمت کرتاہوں، میری تنخواہ (سیلری) ہر مہینے میرے بینک اکاؤنٹ میں آتی ہے، میں چاہتا ہوں کہ بینک انٹریسٹ سے محفوظ رہوں، کیا ایسی کوئی صورت ہے ؟اگر ہے تو ضرور بتائیں۔
محمد شاہد،لکھنؤ
الجواب ہوالموفق : بینک میں تنخواہ آتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں (کہ اس سے مفر نہیں ہے) البتہ جو سود وہاں سےملتاہے آپ اسے استعمال نہ کریں۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو اصل تنخواہ سے زائدرقم وہاں سے ملے اسے بغیرثواب کی نیت کے غرباء ومساکین کو دے دیاکریں ۔واللہ اعلم