اسلام نے دنیا کو ایسا قانون دیا جس کی بنیاد انسانی وحدت ، مساوات اور ہر طبقہ کے ساتھ انصاف پر ہے اور جو کسی طبقہ کو حقیر بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
عدل و انصاف اہل ایمان کے ساتھ مخصوص نہیں، شریعت نے تمام بنی نوع انسان کے ساتھ عدل کی تعلیم دی ہے۔ تصویر:آئی این این
اسلام کے معنی سر تسلیم خم کر دینے اور مکمل طور پر اپنے آپ کو حوالے کر دینے کے ہیں۔ پس جو شخص اسلام قبول کرتا ہے، وہ پوری طرح اپنے آپ کو خالقِ کائنات کے حوالے کر دیتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘( سورہ البقرہ: ۲۰۸)۔ اس ارشادِ ربانی میں اشارہ ہے کہ شریعت ِ اسلامی محض چند عبادتی رسم و رواج اور خدا کی بندگی کے طریقہ کا نام نہیں ، بلکہ ایک مکمل نظام حیات، جامع فلسفہ ٔ زندگی اور کامل طریقہ ٔ روز و شب ہے؛ جو انسانیت کے لئے بھیجا گیا ہے، اور سراپا رحمت اور خیر وفلاح سے عبارت ہے۔
اسلام کی نگاہ میں قانون بنانے اور حلال و حرام کو متعین کرنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے: ’’خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔‘‘ (سورہ الانعام:۵۴) کیوں کہ پوری انسانیت کیلئے وہی ذات نظام حیات کو طے کر سکتی ہے، جو ایک طرف پوری کائنات کے بارے میں باخبر ہو اور پوری انسانیت کے جذبات و احساسات اور اس کی خواہشات و ضروریات، نیز اس کے نفع و نقصان اور اشیاء کے نتائج و اثرات سے پوری طرح واقف ہو؛ کیوں کہ اگر وہ ان حقیقتوں کا علم نہیں رکھتا ہو، تو عین ممکن ہے کہ اس کے دیئے ہوئے بعض احکام نفع کے بجائے نقصان اور خیر و فلاح کے بجائے ناکامی و خسران کا باعث بن جائیں۔ دوسری طرف وہ تمام انسانی طبقات کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کر سکتا ہو، کالے گورے، امیر و غریب، مرد و عورت، رنگ و نسل اور زبان و وطن کی بنیاد پر ان کے درمیان کوئی تفریق روانہ رکھتا ہو اور ایسی ذات خدائے واحد ہی کی ہو سکتی ہے؛ کیوں کہ وہ علیم و خبیر بھی ہے اور عادل و منصف بھی۔
انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ کائنات کی تمام اشیاء کے فائدہ و نقصان اور پوری انسانیت کے جذبات واحساسات سے واقف ہے؛ بلکہ وہ تو اپنے آپ سے بھی پوری آگہی کا مدعی نہیں ہو سکتا ، اور ہر انسان چوں کہ کسی خاص رنگ ونسل، کنبہ و خاندان اور زبان و علاقہ کی وابستگی کے ساتھ ہی پیدا ہوتا ہے اور یہ وابستگی اس میں فطری طور پر ترجیح و طرفداری کا ذہن پیدا کرتی ہے؛ اس لئے کسی انسان یا انسانی گروہ کے بارے میں یہ بات نہیں سوچی جاسکتی کہ وہ تمام انسانوں کے ساتھ مساوی طریقہ پر عدل و انصاف کا برتاؤ کرے گا ۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو زبان و وطن اور نسل و رنگ کی بنیاد پر جو جغرافیائی تقسیم پائی جاتی ہے، وہ نہیں ہوتی؛ اس لئے خدا کا بھیجا ہوا قانون انسانی قانون کے مقابلہ یقیناً بر تر وفائق اور مبنی بر انصاف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جس دن سے کائنات کی اس بستی کو انسانوں سے بسایا ہے ، اسی دن سے انسان کو زندگی بسر کرنے کے طریقہ کی بھی تعلیم دی ہے، البتہ انسانی تمدن کے ارتقاء کے باعث وقتاً فوقتاً نئے احکام دیئے گئے۔ قانون کی گرفت کو کمزور کرنے کے لئے انسان نے آسمانی ہدایات میں اپنی طرف سے آمیزشیں کی۔ ان تحریفات اور آمیزشوں سے پاک کرنے کی غرض سے رب کائنات کی طرف سے انسانیت کے لئے نئے بے آمیز ہدایت نامے آئے، اس سلسلہ کی آخری کتاب قرآن مجید کی صورت میں پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺپر نازل ہوئی۔ یہ کوئی نیا قانون اور مکمل طور پر نئی شریعت نہیں ہے، بلکہ اسی قانون کا تسلسل ہے جو مختلف ادوار میں پیغمبروں کے واسطہ سے انسانیت تک پہنچتا رہا ہے۔
شریعت اسلامی کا سب سے امتیازی پہلو اس کا عدل اور پوری انسانیت کے ساتھ مساویانہ سلوک ہے، دین کی بنیاد ہی دراصل عدل پر ہے: ’’بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔‘‘ (النحل:۹۰) اسی لئے اسلام کی نگاہ میں رنگ و نسل، جنس اور قبیلہ و خاندان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘ (سورہ الحجرات:۱۳)
رسول اللہ ﷺ نے اس کو مزید واضح فرمایا اور ارشاد ہوا کہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ (مسنداحمد) اسلام کے تمام قوانین کی اساس اسی اصول پر ہے۔ بر خلاف انسانی قوانین کے، انسانوں نے جو بھی قوانین وضع کئے ہیں، وہ ایک گروہ کی برتری اور دوسرے طبقہ کی تذلیل وحق تلفی پر مبنی رہا ہے۔ مغربی ممالک میں نصف صدی پہلے تک نسلی تفریق موجود تھی۔ امریکہ جو دنیا کی واحد سپر طاقت ہے، وہاں کی بعض ریاستوں میں آج بھی نسلی امتیاز پر مبنی قوانین موجود ہیں ۔ اسلام نے دنیا کو ایک ایسے قانون سے روشناس کیا جس کی بنیاد انسانی وحدت، مساوات اور ہر طبقہ کے ساتھ انصاف پر ہے اور جو کسی طبقہ کو حقیر اور اچھوت بنانے کی اجازت نہیں دیتا !
شریعت کا ایک اہم اور امتیازی وصف اس کا توازن و اعتدال ہے، مثلاً مرد و عورت انسانی سماج کے دو لازمی جزو ہیں۔ دنیا میں کچھ ایسے قوانین وضع کئے گئے جن میں عورت کی حیثیت جانور اور بے جان املاک کی سی قرار دے دی گئی، نہ وہ کسی جائیداد کی مالک ہو سکتی تھی، نہ اس میں تصرف کر سکتی تھی، نہ اس کو اپنے مال پر اختیار حاصل تھا نہ اپنی جان پر۔ اس کے مقابل دوسری طرف کچھ لوگوں نے عورتوں کو تمام ذمہ داریوں میں مردوں کے مساوی قرار دے دیا، عورتوں کی جسمانی کمزوری، ان کے ساتھ پیش آنے والے قدرتی حالات و عوارض اور طبیعت و مزاج اور قوت فیصلہ پر ان کے اثرات کو نظر انداز کر دیا۔
اسلام نے مردوں اور عورتوں سے متعلق نہایت متوازن قانون دیا ہے، انسانی حقوق میں مردوں اور عورتوں کو مساوی درجہ دیا گیا : ’’اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔‘‘ (سورہ البقرہ: ۲۲۸) لیکن سماجی زندگی میں دونوں کے قویٰ اور صلاحیت کے لحاظ سے فرق کیا گیا ہے اور بال بچوں کی تربیت کی ذمہ داری عورتوں پر اور کسب معاش کی ذمہ داری مردوں پر رکھی گئی ہے۔ سماجی زندگی کا یہ نہایت ہی زریں اصول ہے، جس میں خاندانی نظام کی بقاء، اخلاقی اقدار کی حفاظت اور عورت کو نا قابل برداشت مصائب سے بچانا ہے۔
دولتمندوں اور غریبوں، آجروں اور مزدوروں، عوام اور حکومت کے تعلقات اور مجرموں اور جرم سے متاثر مظلوموں کے درمیان انصاف وغیرہ احکام کو اگر حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو قانونِ شریعت میں جو اعتدال نظر آئے گا، گزشتہ اور موجودہ ادوار میں انسانوں کے بنائے ہوئے کسی قانون میں اس کی مثال نہیں ملے گی۔