رسول پاک ؐ کی حیات مبارکہ کا اہم ترین نکتہ تھا کردار سازی۔ معاشرہ کی تعمیر و تشکیل، فرد کی اصلاح و تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لئے آپؐ نے معاشرے کی اصلاح کا کام افراد کی بہتر تربیت کے ذریعے انجام دیا۔
معلم اعظمؐ کے در پر حاضری کو خوش نصیبی سمجھیں اور یہاں سے اخلاقیات کے وہ موتی حاصل کریں جن کی تکمیل کے لئے آپؐ مبعوث کئے گئے۔ تصویر:آئی این این
رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا بنیادی مقصد انسانوں کی ہدایت و رہنمائی تھا۔ چونکہ آپؐ کی رسالت اور آپؐ کا پیام قیامت تک کے لوگوں کے لئے ہے اس لئے آپؐ نے تعلیم و تربیت کے لئے ایسا طریق کار اختیار فرمایا جو تعمیر شخصیت اور کردار سازی کے لئے ہر دور میں ضروری ہے۔
معاشرے کی تعمیر و تشکیل، فرد کی اصلاح و تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی لئے آپؐ نے معاشرے کی اصلاح کا کام افراد کی بہتر تربیت کے ذریعے انجام دیا۔ آپؐ کے نظم تربیت اور کردار سازی کے اسلوب کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپؐ کی تین حیثیتوں : معلم، داعی اور مربی، کو ملحوظ رکھا جائے۔ آپؐ کو ان تینوں حیثیتوں میں کمال حاصل تھا۔
معلم اعظم ﷺ کے منہج تربیت کا غور سے مطالعہ کریں تو تین عناصر بہت نمایاں نظر آتے ہیں، ایمان باللہ، اخلاق حسنہ اور عمل صالح کی تلقین۔ ان میں سرفہرست ذہنی اور فکری اصلاح کا عنصر ہے۔ آپؐ نے فکر اور قلب و دماغ کی اصلاح کا کام عقیدے کی تعلیم و تربیت سے فرمایا ۔ اس لئے کہ افکار و تصورات، انسانی رویوں اور اخلاقی اقدار کا دارومدار عقائد کی صحیح تعلیم و تربیت پر موقوف ہے۔
ایمان باللہ: نبی کریم ؐ نے اپنی دعوت، تعلیم اور تربیت تینوں کا آغاز توحید کی تعلیم سے فرمایا : ’’اے لوگو! کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور خدا نہیں ہے، اسی میں تمہاری کامیابی ہے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل، ج۵)
مکتب رسالتؐ کا پہلا درس، پہلی دعوت اور تربیت کا پہلا قدم توحید کا سبق تھا جسے آپؐ نے لوگوں کے دل و دماغ میں راسخ فرمایا۔ انسانی فکر کو شرک، بت پرستی اور توہم پرستی سے آزاد کراکے صرف ذات ِ وحدہٗ لاشریک سے وابستہ کیا۔ عبد و معبود کے درمیان ایک لازوال رشتہ قائم فرمایا کہ بندہ اپنے خالق حقیقی کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائے، نہ ذات میں نہ ان صفات میں جو اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں اور نہ ہی اس ذات کے لئے مخصوص حقوق میں۔ ان تینوں میں سے کسی ایک میں بھی شرک، ظلم عظیم ہے : ’’یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ (لقمان:۱۳) قرآن کریم نے شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے : ’’بیشک اللہ اِس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم تر جس کے لئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔‘‘ (النساء:۴۸)
توحید ، رسالت اور آخرت، یہ وہ تین بنیادی عقائد ہیں جنہیں تسلیم کرلینے سے انسان کی زندگی کا نقشہ بدل جاتا ہے۔ اپنی ذات اور کائنات کے بارے میں اس کا نقطہ ٔ نگاہ یکسر تبدیل ہوجاتا ہے۔ انہیں عقائد کی تعلیم سے عبدیت کا شعور اجاگر ہوتا ہے۔ منصب خلافت و امامت کا آغاز بھی ایمان کے انہی تقاضوں کو پورا کرنے پر ہوتا ہے۔
قرآن حکیم میں زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق کثرت سے احکام و اصول بیان ہوئے ہیں۔ بیان احکام کے اسلوب پر غور کریں تو صاف پتا چلتا ہے کہ جملہ احکام پر عمل کی اصل قوت کا سرچشمہ ایمان ہے۔ اسی لئے قرآن کریم جب عبادات و معاملات سے متعلق احکام کو بیان کرتا ہےتو بار بار عقیدہ اور ایمان کا ذکر ضرور کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ البقرہ میں تحویل قبلہ کے حکم کے ساتھ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ علیم بذات الصدور ہے ۔ وہ سینوں میں چھپے ہوئے رازوں کو بھی جانتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کی صفت قدرت کا اظہار، کہ اسے ہر چیز پر ہر وقت قدرت حاصل ہے۔ (البقرہ:۱۴۸) جہاد کا ذکر آیا تو غزوۂ بدرپر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اہل ایمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسا کرنا چاہئے۔ (آل عمران: ۱۲۲) سورہ النساء میں معاشرتی زندگی کے متعلق احکام کا بیان ہے۔ ایک جگہ خواتین، ازواج، یتیموں اور وصیت وغیرہ کے احکام بیان کرکے عقیدے کی یاددہانی کرائی گئی ہے کہ : ’’اوراللہ ہی کا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، اور اللہ کا کارساز ہونا کافی ہے، اے لوگو! اگر وہ چاہے تو تمہیں نابود کر دے اور (تمہاری جگہ) دوسروں کو لے آئے، اور اللہ اس پر بڑی قدرت والا ہے، جو کوئی دنیا کا انعام چاہتا ہے تو اللہ کے پاس دنیا و آخرت (دونوں) کاانعام ہے، اور اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘ (النساء:۱۳۲؍ تا۱۳۴) قرآن کریم کا ہر جگہ یہی انداز ہے کہ احکام کے بیان کے ساتھ عقیدے کا حوالہ ضرور دیا گیا ہے۔ گویا احکام پر عمل درآمد کے لئے عقیدہ بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔
عقائد پر ایمان کا حقیقی مرکز قلب ہے۔ اسی لئے قلب کے تزکیے اور تربیت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ امام بخاریؒ روایت کرتے ہیں کہ ’’انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ تندرست اور صحیح ہے تو سارا جسم تندرست رہتا ہے ، اور جب وہ بگڑ جائے تو جسم کا سارا نظام بگڑ جاتا ہے۔ غور سے سن لو کہ گوشت کا وہ ٹکڑا قلب ہے۔‘‘ (بخاری، الجامع الصحیح) قلب کی اس مرکزی حیثیت ہی کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے تربیت و اصلاح کی طرف خاص توجہ فرمائی ۔ اسی لئے قرآن حکیم نےتزکیہ ٔ نفس کو منصب نبوت کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ قرار دیا ہے۔
لفظ ’’تزکیہ‘‘ میں دو مفہوم پائے جاتے ہیں۔ ایک ، پاک و صاف کرنا اور دوسرے، نشوونما دینا۔ تزکیہ قلب کے پہلے مرحلے میں قلب و دماغ کو ہر قسم کے بُرے عناصر سے پاک و صاف کرنا ضروری ہے۔ مثلاً غلط تصورات، توہم پرستی ، حسد، کینہ، بغض، تکبر، شر و فتنہ اور کفر کی تمام آلودگیوں سے پاک و صاف کرنا وغیرہ۔ قرآن حکیم میں اس کیلئے ’’تطہیر‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے، مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا : ’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں۔‘‘ (التوبہ: ۱۰۳)
دوسرے مرحلے میں ایمان و یقین، عزم و استقامت ، اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور اخلاص و محبت پیدا کرنا ہے۔ انہی اوصاف سے قلب کی نشوونما شروع ہوتی ہے۔ ان اوصاف کی تکمیل کے ساتھ مرد مومن تیسرے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے جو ’’مقام احسان‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ وہ بلند تر مقام ہے جہاں سے عبدیت و انسانیت میں درجہ کمال کا آغاز ہوتا ہے۔
تزکیہ نفس سے قلب انسانی میں طاقتور ضمیر اور معاصی و منکرات کے خلاف بھرپور قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے۔ اسی سے نیتوں کی اصلاح ہوتی ہے اور قلب مومن نور الٰہی سے منور ہوجاتا ہے۔
معصیت اور انکار کے ارتکاب سے قلب پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے ’’مومن جب کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے سبب اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے ۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے اور اس گناہ سے باز آجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتا ہے تو قلب سے وہ داغ مٹ جاتا ہے اور دل صاف شفاف ہوجاتا ہے ۔ لیکن اگر گناہوں میں اضافہ ہوتا رہے تو نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ گناہوں کی سیاہی سارے قلب پر پھیل جاتی ہے۔‘‘ اسی کو قرآن کریم ’’زین‘‘ کہتا ہے ۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے : ’’ ہرگز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اَعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے ۔‘‘ (سورہ المطففین:۱۴)
مذکورہ حدیث مبارکہ اور آیت میں جرائم کی تاثیر بتائی گئی ہے کہ اگر انسان مسلسل برائی کا ارتکاب کرتا رہے تو اس کی بدبختی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جرم و معصیت کا احساس کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوجاتا ہے، دل مسخ ہوجاتا ہے اور زنگ آلود ہوکر اس درجے کو پہنچ جاتا ہے جہاں سے واپسی مشکل بلکہ بعض اوقات ناممکن ہوجاتی ہے۔ اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح تعبیر کیا ہے: ’’ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ہے۔‘‘(سورہ البقرہ:۷)
رسولؐ اللہ کا اسلوب تربیت ایسا تھا کہ عقیدہ و ایمان کی تعلیم کے ذریعے قلوب سے سیاہ داغ اور زنگ کے آثار کھرچ کھرچ کر صاف کردیئے جائیں اور ایمان کی حرارت پیدا کرکے قلوب کو ایسی زندگی عطا کی جائے جو انسان کو مسلسل ملکیت اور روحانیت کی طرف گامزن رکھے۔ عقیدہ سے پیدا ہونے والی یہی قوت انسان کو عمل صالح پر آمادہ کرتی ہے۔ اس کے اندر نفس امارہ مرجھا کر نفس لوامہ کی صورت میں نئی زندگی پاتا ہے اور پھر ایمان و عمل صالح کے ذریعے نفس مطمئنہ کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب قلب انسانی کی چشمہ ٔ ایمان سے آبیاری ہوتی ہے تو قلبی ایمان سراسر عمل کے قالب میں ڈھل جاتا ہے ۔ اس طرح ایمان اور عمل میں مکمل طور پر ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے۔
اخلاق حسنہ: کردار سازی میں دوسرا بنیادی عنصر فضائل اخلاق ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق اخلاق حسنہ ایمان ہی کا حصہ ہیں جنہیں ایمان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ آپؐ سے بہت سی ایسی روایات موجود ہیں جو حسن خلق کو ایمان کا جز قرار دیتی ہیں۔ ایمان کے لازمی اثرات انسان کی ظاہری زندگی پر بھی ہوتے ہیں اور باطنی زندگی پر بھی۔ باطنی زندگی پر ایمان کے اثرات تزکیۂ قلب کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور ظاہری زندگی پر مکارم اخلاق کی صورت میں۔ آپؐ کے فرائض میں تربیت اخلاق بھی ایک فریضہ تھا۔ آپؐ کا ارشاد ہے ’’میں تو بھیجا ہی اسلئے گیا ہوں تاکہ مکارم اخلاق کی تکمیل کردوں۔‘‘ ایمان و اخلاق کا باہمی تعلق ان احادیث سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے: ’’جس شخص میں امانتداری نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں ، اور جو عہد کی پاسداری نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔‘‘ (مسند امام احمد بن حنبل) اسی طرح فرمایا ’’وہ شخص تو مومن نہیں جو خود تو شکم سیر ہوکر کھائے اور اس کا قریبی بھوکا رہے۔‘‘ (مشکوٰۃ)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے تین بار ارشاد فرمایا: ’’ا للہ کی قسم! وہ مومن نہیں ہو سکتا‘‘،صحابہؓ نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! وہ کون ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جس کی برائیوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ رہے۔‘‘ (بخاری)
اس قسم کی بہت سی احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ایمان اور اخلاق حسنہ لازم و ملزوم ہیں۔ (باقی آئندہ ہفتے)