Inquilab Logo

بھیونڈی عمارت سانحہ

Updated: September 24, 2020, 10:50 AM IST | Editorial

مشہور صنعتی شہر بھیونڈی کی جیلانی بلڈنگ کا سانحہ اتنا دردناک ہے کہ تین دن گزر جانے کے باوجود ذہن و دل کی جو کیفیت ہے وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ ۳۹؍ افراد فوت ہوگئے جبکہ کم و بیش ۲۵؍ کوملبے سے بحفاظت باہر نکالا گیا ہے۔

Bhiwandi Building Collapsed - PIC : PTI
بھیونڈی بلڈںگ حادثہ ۔ تصویر : پی ٹی آئی

مشہور صنعتی شہر بھیونڈی کی جیلانی بلڈنگ کا سانحہ  اتنا دردناک ہے کہ تین دن گزر جانے کے باوجود ذہن و دل کی جو کیفیت ہے وہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ ۳۹؍ افراد فوت ہوگئے جبکہ کم و بیش ۲۵؍ کوملبے سے بحفاظت باہر نکالا گیا ہے۔ جو لوگ عمارت کے منہدم ہونے کے ساتھ ہی داعیٔ اجل کو لبیک کہہ چکے تھے اُن کے متعلقین سے تعزیت اور مرحومین کیلئے دُعائے مغفرت و ایصال ثواب کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا البتہ جن لوگوں کو ملبے سے بحفاظت نکالا گیا، اُنہیں بارگاہِ رب العالمین میں سجدہ ریز ہونا چاہئے اور شکر بجا لانا چاہئے۔ 
 اس کے علاوہ ایک اور شکر لازم ہے جس کے مستحق، انتھک راحتی کام انجام دینے والے محلے کے جوانوں سے لے کر سرکاری کارکنان تک یقیناً بہت سے لوگ ہونگے۔ ان میں کسی نے بڑا خطرہ مول لے کر کسی کو بچایا ہوگا اور کسی نے بھوک پیاس کے احساس سے بالاتر ہوکر محض انسانی خدمت کے نقطۂ نظر سے اپنا فرض نبھایا ہوگا۔ ان خدمتگاروں کو، خواہ وہ رضاکار ہوں یا سرکاری کارکنان، اس لئے فراموش نہیں کیا جانا چاہئے کہ اکثر یہی لوگ فراموش کردیئے جاتے ہیں کیونکہ حادثہ کے چند ہی روز بعد ہر خاص و عام روزمرہ کے اُمور میں گم ہوجاتا ہے۔ ہمیں خوشی ہوگی اگر بھیونڈی کی سماجی و فلاحی تنظیمیں ان افراد کا اعزاز کریں اور دُنیا کو بتائیں کہ اہل بھیونڈی اپنے محسنوں کو یاد رکھتے ہیں۔ 
 یہ بات کہ منہدم ہونے والی عمارت میں رہائش پزیر بیشتر لوگ غریب مزدور تھے، غربت اور مجبوری کا ایک اور چہرا عیاں کرتی ہے (ایک وہ چہرا تھا جو لاک ڈاؤن کے دوران دیکھنے کو ملا جب لاکھوں مزدور وطن واپسی کیلئے بے چین ہوکر سڑکوں پر آگئے تھے)۔ بتایا گیا ہے کہ جیلانی بلڈنگ میں رہائش پزیر غریب مزدور عمارت کو لاحق خطرہ کے باوجود کسی اور جگہ منتقل نہیں ہونا چاہتے تھے کیونکہ اس عمارت میں فلیٹس کا کرایہ کافی کم تھا۔ اس مجبوری کو انسانی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ شہری انتظامیہ اور ریاستی حکومت عمارت کے باقیماندہ مکینوں کی بازآبادکاری کا معقول انتظام کرے۔ اس سلسلے میں اگر یہ جواز دیا گیا تو وہ درست نہ ہوگا کہ عمارت کے مکینوں نے کارپوریشن کی جانب سے نوٹس ملنے کے باوجود عمارت خالی نہیں کی تھی۔ اگر عمارت خالی نہ کرنا ان کا قصور تھا تو عمارت خالی نہ کروانا شہری انتظامیہ کا قصور ہے کہ اس نے پانی اور بجلی روکنے کے وہ انتباہی اقدامات نہیں کئے جو ایسے معاملات میں عموماً کئے جاتے ہیں۔ 
 جیلانی بلڈنگ سانحہ میں اُن لوگوں کیلئے ایک پیغام ہے جن کی عمارتوں کو کارپوریشن کا نوٹس مل چکا ہے یا نوٹس نہیں ملا ہے مگر جن کی خستہ حالی اپنے آپ میں نوٹس کا درجہ رکھتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مکین، عمارت کو لاحق خطرہ کے مکمل احساس کے باوجود محفوظ جگہ پر منتقل ہونا پسند نہیں کرتے۔ ممبئی میں جہاں ۲۰۱۳ء سے اب تک کےحادثات میںکم وبیش تین سو افراد فوت ہوچکے ہیں، میونسپل کارپوریشن نے مانسون سے پہلے ۴۴۳؍ عمارتوں کو ، خالی کرنے کا نوٹس بھیجا تھا جن میں سے ۷۳؍ عمارتوں کے مکینوں نے بلڈنگ خالی کردی مگر ۱۴۴؍ عمارتوں کے مکینوں نے تحریری جواب دیا کہ وہ، عمارت میں اپنا قیام اپنی ذمہ داری پر جاری رکھنا چاہیں گے۔ (بحوالہ ’’نیوز کلک‘‘ ۱۸؍ جولائی ۲۰ء)۔ 
 بھیونڈی میں جیلانی بلڈنگ سانحہ سے پہلے بھی کئی حادثات رونما ہوچکے ہیں جن کے پیش نظر بلدیہ پر لازم ہے کہ تمام مخدوش عمارتوں کا سروے کروائے اور جنہیں مرمت کی ضرورت ہے اُنہیں مرمت کیلئے وسائل فراہم کرے اور جنہیں خالی کروانا ازحد ضروری ہو اُن کے مکینوں کو اعتماد میں لے کر اُنہیں متبادل رہائش فراہم کی جائے۔ کلسٹرڈیولپمنٹ بھی اس کا حل ہے جس کیلئے حکومت کی نگاہِ التفات کا انتظار کئے بغیر شہر کے با اثر سیاسی و سماجی افراد کو سرگرم ہونا چاہئے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK