ہمیں اپنی ترجیحات کا جائزہ لینا ہوگا اور اس بات پرغور کرنا ہوگا کہ ہمیں اقتدار میں حصہ داری کس طرح کی چاہئے؟مسلم نمائندوں کی تعداد میں اضافے کی حمایت کی جانی چاہئے لیکن کیا صرف ان کی تعداد میں اضافہ ہی اس مسئلے کا حل ہے؟
EPAPER
Updated: November 02, 2025, 2:53 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
ہمیں اپنی ترجیحات کا جائزہ لینا ہوگا اور اس بات پرغور کرنا ہوگا کہ ہمیں اقتدار میں حصہ داری کس طرح کی چاہئے؟مسلم نمائندوں کی تعداد میں اضافے کی حمایت کی جانی چاہئے لیکن کیا صرف ان کی تعداد میں اضافہ ہی اس مسئلے کا حل ہے؟
بہار میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی مسلمانوں کی جانب سے کچھ خدشات ظاہر کئے جانے لگے ہیں۔ یہ سارے خدشات ’عظیم اتحاد‘ کی جانب سے ہیں جنہیں بہار میں مسلم ووٹوں کا سب سے بڑا دعویدار سمجھا جارہا ہے۔ کچھ اس طرح کی باتیں گردش کررہی ہیں کہ:
مسلمانوں کے ساتھ ایک بار پھر ناانصافی ہوگی۔
ان کی آبادی کے لحاظ سے انہیں ٹکٹ نہیں ملے گا۔
اگر ٹکٹ دیئے بھی گئے تو اُن جگہوں سے دیئے جائیں گے جہاں جیتنے کے امکانات زیادہ نہیں ہوں گے۔
جہاں جیتنے کے امکانات رہیں گے، اگر وہاں سے ٹکٹ دیئے گئے تو دوسری جماعتیں بھی مسلم امیدار میدان میں اتار کر اُن کی جیت کا راستہ مسدود کر دیں گی۔
مسلمانوں کو اقتدار میں مناسب حصہ داری اور نمائندگی نہیں ملے گی۔
اس طرح کےمزید کئی خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اسی درمیان امیدواروں کےناموں کااعلان ہوا اور ان خدشات کو تقویت ملنے لگی۔ عظیم اتحاد میں شامل سب سے بڑی پارٹی آر جے ڈی نے ۱۴۳؍ امیدواروں کے ناموں کااعلان کیا، جن میں سے صرف ۱۸؍مسلم امیدوار ہیں۔ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی ۱۷ء۷؍ فیصد ہے جبکہ آر جے ڈی نے صرف ۱۲ء۶؍ فیصد کی نمائندگی دی۔ عظیم اتحاد کی دوسری سب سے بڑی پارٹی کانگریس نے ۶۱؍ امیدواروں کی فہرست جاری کی جن میں ۱۶ء۷؍ فیصد یعنی ۱۰؍ مسلم امیدوار میدان میں اُتارے۔ یہ تعداد قدرے غنیمت ہے لیکن اس سچائی کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ کانگریس نے اپنے لئے وہی سیٹیں منتخب کی ہیں، جہاں مسلم آبادی زیادہ ہے اور مسلم ووٹروں کی بدولت ہی اس کا دعویٰ ہے کہ اس بار اس کی جیت کا اسٹرائک ریٹ زیادہ رہے گا۔
عظیم اتحاد میں شامل ایک اور پارٹی جس کا اِن دنوں زیادہ شہرہ ہے، وہ مکیش سہنی کی پارٹی ’وکاس شیل انسان پارٹی‘ ہے۔اس کے ۱۴؍ امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے ایک بھی مسلم نہیں ہے۔سی پی آئی (ایم ایل) کے حصے میں ۲۰؍سیٹیں آئی ہیں جن میں سے اس نے۲؍ سیٹوں پر مسلم امیدوار اُتارے ہیں جبکہ بائیں محاذ کی دیگر پارٹیاں سی پی آئی اور سی پی ایم مجموعی طور پر ۱۳؍ سیٹیوں سے الیکشن لڑرہی ہیں لیکن دونوں ہی پارٹیوں کو ایک بھی مسلم امیدوار نہیں ملا۔ حالانکہ بائیں محاذ کی پارٹیاں بھی مسلم ووٹوں کی بڑی دعویدار ہیں۔ مجموعی طور پر ریاست کی ۲۴۳؍ سیٹوں پر عظیم اتحاد کے ۲۵۱؍ امیدوار میدان میں ہیں جن میں سے ۳۰؍ مسلم ہیں۔ یہ تناسب ۱۱ء۹؍ فیصد ہی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس آر جے ڈی کی جانب سے ۳۷؍ فیصد یعنی ۵۳؍ ٹکٹ یادو برادری کو دیئے گئے ہیں جن کی ریاست میں مجموعی آبادی مسلمانوں سے کم یعنی صرف ۱۴ء۲؍ فیصد ہے۔
مسلمانوں کے خدشات کو مزید تقویت اُس وقت ملی جب عظیم اتحاد کی جانب سے مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ کے طور پرتیجسوی یادو اور حیرت انگیز طور پر نائب وزیراعلیٰ کیلئے مکیش سہنی کے نام کااعلان کیا گیا۔ وہ مکیش سہنی جن کے تعلق سے اس اعلان کے باوجود اعتماد نہیں کیاجاسکتا کہ انتخابات کے بعد وہ عظیم اتحاد کے ساتھ ہی رہیں گے۔وہ پہلے بھی بی جے پی کے ساتھ رہ چکے ہیں اورآئندہ بھی وہ ایسا کرسکتے ہیں۔اس کے برعکس کسی مسلم کو نائب وزیراعلیٰ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ آر جے ڈی نے بھی ایسا نہیں کیا اور کانگریس نے بھی نہیں۔اس کی وجہ سے اقتدار میں مسلمانوں کی حصے داری پر سوال اٹھنے لگے۔
یہ خدشات یا یہ کہیں کہ یہ الزامات یقیناً درست ہیں لیکن کیا زیادہ سے زیادہ تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ مل جانا اور کامیابی کے بعد زیادہ سے زیادہ مسلم ایم ایل ایز کا وزیر بن جانا ہی مسئلہ کا حل ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل ہمیں اپنے آپ سے کچھ سوال بھی کرنا ہوگا۔
حالیہ برسوں میں بہار میں کئی بڑے مسلم لیڈر ہوئے۔ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ان کی کارکردگی کیا رہی؟
مرحوم محمدتسلیم الدین بہار کے بڑے لیڈر رہے ہیں۔ ۱۹۶۹ء سے ۲۰۱۷ء تک اسمبلی اور لوک سبھا میں کئی بار نمائندگی کرنے کے ساتھ ہی وہ دیوے گوڑا کی حکومت میں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ رہ چکے ہیں۔ ان کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ ان کے دو بیٹے اِس مرتبہ انتخابی میدان میں ہیں۔ ان میں سے ایک، چار بار رکن اسمبلی منتخب ہونیوالے سرفراز عالم ہیں جوجن سوراج کے ٹکٹ پر الیکشن لڑرہے ہیں۔ انہوں نے آرجے ڈی سے ناطہ توڑکر پرشانت کشور کی پارٹی کا ہاتھ تھام لیا ہے جبکہ ان کے چھوٹے بھائی شاہنواز عالم جو موجودہ رکن اسمبلی ہیں، وہ آرجے ڈی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ شاہنواز نے ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر انتخاب جیتا تھا لیکن ۲۰۲۲ء میں انہوں نے اپنی پارٹی سے بغاوت کی اور آرجے ڈی میں شا مل ہوگئے تھے۔سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے محمد تسلیم الدین نے مسلمانوں کیلئے ایسا کیا کیا، جس کی وجہ سے انہیں یاد کیا جائے اور ان کی مسلم نمائندگی پر خوش ہوا جائے۔
محمد علی اشرف فاطمی کا شمار بھی بہار کے قد آور لیڈروں میں ہوتا ہے۔ ۴؍ مرتبہ لوک سبھا میں ’مسلمانوں ‘ کی نمائندگی کے ساتھ ہی ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل جیسے بڑے عہدے پر فائز رہے ہیں۔ جنتادل سے راشٹریہ جنتادل اور پھر جے ڈی یو میں بھی جاچکے ہیں۔۲۰۲۴ء میں ایک بار پھرآر جے ڈی میں واپس آئے، لوک سبھا کا الیکشن لڑا اور ہار گئے۔ اب ان کے بیٹے ڈاکٹر فراز عالم آر جے ڈی کے امیدوار کے طور پر اسمبلی کاالیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے تعلق سے بھی یہی سوال ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کیلئے کون سا ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس کی بنا پر اطمینان کاا ظہار کیا جائے۔
شکیل احمد بہار کانگریس کے سینئر لیڈر ہیں۔ وہ تین بار اسمبلی اور دو مرتبہ لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ منموہن سنگھ کے دور حکومت میں مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ رہ چکے ہیں۔کانگریس کے ترجمان اور پارٹی کے جنرل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔۲۰۱۹ء کے لوک سبھا الیکشن میں ٹکٹ نہیں ملا تو پارٹی سے علاحدگی بھی اختیار کرچکے ہیں ۔ ان کے تعلق سے بھی یہی سوال کیا جاسکتا ہے کہ عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں کی نمائندگی کس طرح کی؟
شکیل احمد خان بھی بہار کانگریس کے بڑے لیڈر ہیں اورموجودہ اسمبلی میں پارٹی کے لیڈر ہیں۔جے این یو سے تعلیم حاصل کرنے والے شکیل احمد خان زمانہ طالب علمی ہی سے فعال رہے ہیں اور ۱۹۹۲ء میں طلبہ یونین کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
ایسے اپنے تمام لیڈروں، صرف بہار کے نہیں بلکہ دیگر ریاستوں کے لیڈروں کی بھی کارکرگی کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۷ء کے درمیان اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کی حکومت تھی۔ اُس وقت اترپردیش اسمبلی میں ۷۱؍ مسلم نمائندے منتخب ہوئے تھے۔ اسی دوران ۲۰۱۳ء میں مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فساد برپا ہوا تھا۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ فساد کے دوران ہمارے مسلم نمائندوں نے کیا کیا تھا؟یہ تمام نمائندے اگر ایک میٹنگ بھی کرلیتے تو اکھلیش حکومت ہل جاتی اورکمیونٹی میں اپنے نمائندوں کے تئیں ایک اچھا پیغام جاتا لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
ایسے میں ہمیں اپنی ترجیحات کا جائزہ لینا ہوگا اور اس بات پرغور کرنا ہوگا کہ ہمیں اقتدار میں حصہ داری کس طرح کی چاہئے؟مسلم نمائندوں کی تعداد میں اضافہ اچھی بات ہے لیکن کیا صرف ان کی تعداد میں اضافہ ہی اس مسئلے کا حل ہے یا پھر مسلمانوں کے مسائل حل ہونے جیسے کچھ اقدامات کا مطالبہ کرنا ہوگا؟ اگر کسی ایسے مسلم نمائندے کے بجائے جو کامیاب ہونے کے بعد مسلمانوں کا نہیں صرف اپنی پارٹی کی نمائندگی کرتا ہو، اس پر کسی ایسے سیکولر امیدوار کو ترجیح نہیں دینی چاہئے جو مسلمانوں کی بات ان سے زیادہ کرتا ہو؟مکیش سہنی کو نائب وزیراعلیٰ کے امیدوار کے طور پر اعلان ہونے کے بعد مسلمانوں کی جانب سے جو بے چینی محسوس ہورہی ہے، اسے دیکھتے ہوئے ایک کہانی یاد آرہی ہے۔
ایک پُرخار راستے پر ۱۰؍ افراد پر مشتمل ایک قافلہ پیدل چل رہا تھا۔ منزل دو ر تھی، راستہ پُر خطر تھا اور سواری کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ وہ تھکا ماندہ کسی طرح آگے بڑھ رہا تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعد اسے ایک اور قافلہ دکھائی دیا جو ایک جگہ آرام کررہا تھا۔ اس میں ۹۔۸؍ افراد تھے۔ دونوں ملے تو کچھ بات چیت ہوئی، تبادلہ خیال ہوا۔ وہاں پہلے سے موجود قافلے میں سے ایک نے پوچھا کہ ایسا کب تک ہم چلتے رہیں گے؟ بعد والے قافلے میں شامل لوگوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اور پھر چارہ ہی کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میرے پاس ایک آئیڈیا ہے، اگر آپ لوگ ساتھ دیں تو کام بن سکتا ہے۔ بعد میں پہنچنے والے نے پوچھا کہ بتائیں، وہ کون سا منصوبہ ہے۔ اس نے کہا کہ وہاں آگے ایک بس کھڑی ہے۔ میں اُس بس کو چلا سکتا ہوں لیکن وہ دھکے سے اسٹارٹ ہوگی اور اسے دھکا دینے کیلئے کم از کم ۲۰؍افراد درکار ہوں گے۔ اگر آپ لوگ ساتھ دیں تو میں کچھ اور لوگوں کوآمادہ کرتا ہوں، پھر ہم سب آرام سے منزل تک پہنچ جائیں گے۔ ان لوگوں کے ہاں کہنے پر اس نے ایک ایسے قافلے سے بات کی جس میں صرف ۳؍ہی افراد تھے۔ انہیں اس کام پر آمادہ کرنے کیلئے اس نے یہ وعدہ بھی کرلیا کہ آپ کو ہم اگلی نشست پر جگہ دیں گے۔ بس یہی بات ۱۰؍ افراد والے قافلے کو کھٹک گئی اور طرح طرح کی آوازیں اُبھرنے لگیں کہ ہمیں اس بس پر نہیں بیٹھنا چاہئے، یہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہے۔
کیا بالکل یہی کیفیت بہار کی نہیں ہے۔ ہم اپنا موازنہ مکیش سہنی اور ان کی پارٹی سے کیوں کررہے ہیں ؟ ہم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ’وکاس شیل انسان پارٹی‘ سودے بازی کی پوزیشن میں ہے، لیکن ہم نہیں ہیں۔ اس کی بات عظیم اتحاد سے نہیں بنی تو وہ این ڈی اے میں بھی جاسکتی ہے لیکن کیا ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں ؟ ۱۹۹۰ء میں بہار اسمبلی انتخابات کے وقت کا ایک واقعہ ہمیں یاد آرہا ہے۔ اُن دنوں بہار میں فرقہ وارانہ فسادات روزانہ کا معمول تھے اور بھاگل پور کے فساد نے تو پورے ملک کو دہلا دیا تھا۔ ان دنوں کسی مسلم تنظیم سے میڈیا کے کسی نمائندے نے سوال کیا تھا کہ آپ لوگ جنتادل کی حمایت کی بات کررہے ہیں، کیا آپ نے ان سے کوئی وعدہ لیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف سکون چاہئے۔ فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ ختم ہوجائے توہم اپنی ترقی کاانتظام خود کرلیں گے۔ ریاست میں بننے والی نئی حکومت سے ہمارا مطالبہ صرف اتنا ہی ہے کہ ہمیں پریشان کرنے کا سلسلہ روک دیا جائے۔آج کی تاریخ میں بھی ہمیں نئی حکومت سے یہی مطالبہ کرنا چاہئے۔