• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بِہار: کیا بَہار آنے کو ہے؟ 

Updated: October 04, 2023, 1:11 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

بہار میں ہونے والے آبادی کے سروے کی رپورٹ کا اِجراء ایسی خبر نہیں ہے جس کی اہمیت اور معنویت بہار تک محدود ہو۔ اس کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہونگے اور دیگر ریاستوں میں بھی اس نوع کے سروے کا مطالبہ بڑھے گا۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

بہار میں ہونے والے آبادی کے سروے کی رپورٹ کا اِجراء ایسی خبر نہیں ہے جس کی اہمیت اور معنویت بہار تک محدود ہو۔ اس کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہونگے اور دیگر ریاستوں میں بھی اس نوع کے سروے کا مطالبہ بڑھے گا۔ تلنگانہ اور کرناٹک ایسا سروے کروا چکے ہیں ۔ اب ان ریاستوں کو بہار کی تقلید میں رپورٹ جاری کرنی ہی ہوگی۔ مہاراشٹر، اُدیشہ اور جھارکھنڈ میں ہرچند کہ الگ الگ پارٹیوں کی حکومت ہے مگر، اطلاعات شاہد ہیں کہ، وہاں بھی ایسے سروے کا مطالبہ اسمبلی میں منظور کیا جاچکا ہے۔ بی جے پی اس کو بسروچشم قبول نہیں کریگی مگر اس کی مخالفت بھی نہیں کرسکتی اسی لئے وزیر اعظم نے اس پر الگ ڈھنگ سے سوال اُٹھایا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر حصہ داری دینے کا مطلب ’’اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنا اور اُنہیں اُن کے حقوق سے محروم‘‘ کردینا ہوگا۔ یہ ، اس سروے کو دیکھنے کا نیا زاویہ ہے جس کا اظہار گزشتہ روز وزیر اعظم نے ایک رَیلی کے دوران کیا۔ یہ نیا زاویہ کیوں وضع کیا گیا ہے یہ سمجھنا مشکل ہے۔ حصہ داری کا ایک مطلب اقتدار میں حصہ داری ہے اور بی جے پی نہ تو مسلم اُمیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہے نہ ہی اُنہیں وزیر بناتی ہے۔ کوئی مسلمان بی جے پی کا رُکن پارلیمان ہے نہ ہی رُکن اسمبلی۔ اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات اس لئے کہی گئی ہے کہ زیر بحث سروے کی وجہ سے حکمراں جماعت شدید دباؤ میں آگئی ہے؟ 
 ہمارے خیال میں جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جائینگے ویسے ویسے بی جے پی سیاسی بیانیہ کو تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریگی جبکہ اپوزیشن پارٹیوں کی کوشش ہوگی کہ ’’جس کی جتنی بھاگیداری، اُس کی اُتنی حصہ داری‘‘ کے فارمولہ پر سختی سے جمی رہیں ۔ کس کی کوشش کتنی کامیاب ہوگی یہ کہنا مشکل ہے مگر ایک تبدیلی کافی دنوں سے محسوس کی جارہی ہے جو اَب زیادہ واضح ہے۔ کل تک سیاسی بیانیہ بی جے پی طے کرتی تھی، اپوزیشن کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنی پڑتی تھی، اب اپوزیشن پارٹیاں سیاسی بیانیہ طے کررہی ہیں اور حکمراں جماعت دفاعی رُخ اختیار کررہی ہے۔ 
 بہار میں ہونے والے سروے سے بہار کی سیاست تو متاثر ہوگی ہی، اس کا اثر قومی سیاست پر بھی پڑے گا۔ بہار میں آر جے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس اور بائیں محاذ کی پارٹیوں (مہا گٹھ بندھن) کا پلڑا بھاری ہوگا اور ماضی جیسی وہ حیران کن صورتِ حال عنقا ہوجائیگی جس میں بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے نے ریاست کی چالیس میں سے اُنتالیس سیٹوں پر قبضہ کرلیا تھا۔ 
 سروے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اب الیکشن کے ٹکٹوں کی تقسیم میں اعلیٰ ذاتوں کا دبدبہ ختم ہوجائیگا۔ آبادی کے تناسب سے ٹکٹ ملنے کی وجہ سے اعلیٰ ذاتوں کو اُتنے ٹکٹ نہیں ملیں گے جتنے پہلے ملتے تھے۔بہار میں ’’مسلم+یادو‘‘ (۳۲؍ فیصد) اور معاشی طور پر پسماندہ (ای بی سی ۳۶؍ فیصد) کو اپنے حق کیلئے زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑیگی۔ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں (جیتن رام مانجھی کی ہندوستانی عوام مورچہ اور مکیش ساہنی کی وکاس شیل انسان پارٹی) مخمصے میں ہیں ۔ وہ جن طبقات کی نمائندگی کرتی ہیں اُن کی آبادی بہت کم ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ بڑی سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالنے کی اُن کی روش برقرار رہے گی یا ختم ہوگی۔ سروے کی وجہ سے ریزرویشن کا مجموعی فیصد ۵۰؍ سے زیادہ کرنے کا مطالبہ بھی اب یقینی طور پر زور پکڑے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK