نتیش کمار خواتین ریزرویشن کی سیاست کو فروغ دینے میں قومی سطح پر نہ صرف اولیت کے حقدار رہے ہیں بلکہ عملی نفاذ میں بھی ایماندارانہ کوشش کرتے رہے ہیں۔ خواتین بل کے پاس ہونے پر انہوں نےکہا کہ اب اس کے نفاذ میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔
EPAPER
Updated: September 28, 2023, 9:58 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai
نتیش کمار خواتین ریزرویشن کی سیاست کو فروغ دینے میں قومی سطح پر نہ صرف اولیت کے حقدار رہے ہیں بلکہ عملی نفاذ میں بھی ایماندارانہ کوشش کرتے رہے ہیں۔ خواتین بل کے پاس ہونے پر انہوں نےکہا کہ اب اس کے نفاذ میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔
ہندوستان کی سیاست میں خواتین کی حصہ داری کو یقینی بنانے کیلئے ایک زمانے سے ریزرویشن کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے اور مختلف سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشور میں بھی اس مطالبے کو جگہ دیتی رہی ہیں مگر اس پر اب تک عمل نہیں کیا جا سکا ہے۔ اب جب کہ موجودہ مودی حکومت نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں سے اس بل کو اکثریت ووٹوں کے ساتھ پاس کرالیا ہے تو یہ یقین بندھ گیا ہے کہ صدر جمہوریہ کی مہر ثبت ہوتے ہی یہ بل قانونی صورت اختیار کرلے گا۔ لیکن اس بل کے پاس ہونے اور قانونی حیثیت حاصل کرنے کے باوجود اس پر فوراً عمل نہیں ہونے جا رہا ہے کیوں کہ اس بل میں ہی یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ ملک میں مردم شماری اور پارلیمانی حلقے کی نئی حد بندی کے بعد ہی اس ریزرویشن کو نافذ کیا جائے گا۔ غرض کہ ۲۰۲۹ءکے پارلیمانی انتخاب میں ممکن ہے کہ اس ریزرویشن پر عمل کیا جا سکے گا۔ مگر حکمراں جماعت اس بل کے تعلق سے ملک میں کچھ اس طرح کا ماحول بنا رہی ہے کہ جیسے آئندہ پارلیمانی انتخاب میں ہی خواتین کو ان کے دیرینہ خواب پورے ہو رہے ہیں۔ شاید اس لئے حزب اختلاف کی پارٹیوں نے حکمراں جماعت کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بل دو دہائیوں سے ہماری قومی سیاست کا موضوع رہا ہے۔ آنجہانی راجیو گاندھی نے جب پنچایتی راج بل کو پاس کیا تھا اس وقت بھی خواتین کیلئے ریزرویشن کی آواز بلند ہوئی تھی اور اسے پارلیمنٹ میں لایا بھی گیا تھا پھر نرسمہا رائو اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت میں بھی اس بل کو پیش کیا تھا ساتھ ہی ساتھ اٹل بہاری واجپئی جی نے بھی اس بل کو پاس کرانے کی وکالت کی تھی مگر سیاست کی شطرنجی چال کی وجہ سے یہ اب تک التوا میں تھا۔ اب جب کہ موجودہ حکومت نے اپنی اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بل کو پاس کرا لیا ہے تو ظاہر ہے کہ ایک تاریخی بل کا سہرا اس کے سر بندھنا لازمی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس بل کے نفاذ کیلئے ایک طویل انتظار کرنا ہوگا۔کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسے فوراً نافذ کیا جائے یعنی وہ چاہتے ہیں کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب میں خواتین کو ۳۳؍ فیصد ریزرویشن حاصل ہو۔ لیکن دیگر اپوزیشن پارٹیاں اب بھی اوبی سی طبقے کی خواتین کیلئے اس ریزرویشن کے اندر ریزرویشن کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔ دراصل اس ریزرویشن سے پسماندہ ،انتہائی پسماندہ اور اقلیت طبقے کی خواتین کو اتنا فائدہ نہیں مل سکے گا جتنا کہ اعلیٰ طبقے کی خواتین کو ملنے کا امکان ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ پسماندہ طبقے اور اقلیت طبقے کی خواتین سیاسی میدان میں اتنی فعال نہیں ہیں جتنی کہ اعلیٰ طبقے کی خواتین سرگرم ہیں ۔ اس لئے جب کبھی اس بل پر بحث ہوتی تھی تو اپوزیشن کایہ مطالبہ رہا کہ اس میں پسماندہ طبقے کی خواتین کی حصے داری طے کی جائے لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ ایس سی، ایس ٹی کی خواتین کیلئے ایس سی ، ایس ٹی طبقے کیلئےمخصوص سیٹوں میں اس طبقے کی خواتین کیلئے ۳۳؍فیصد سیٹیں مخصوص کی گئی ہیں ۔ واضح ہو کہ پارلیمنٹ کی ۵۴۳؍سیٹوں میں ایس سی اور ایس ٹی کیلئے ۱۳۱؍سیٹیں مخصوص ہیں۔ اب اس طبقے کی خواتین کو ۴۳؍ سیٹیں ریزرویشن کے مطابق حاصل ہو سکیں گی جب کہ پسماندہ اور اقلیت طبقے کی خواتین کو یہ سہولت میسر نہیں ہو پائے گی البتہ انہیں ۳۳؍فیصد ریزرویشن کے مطابق ۱۸۱؍سیٹیں جو خواتین کے حصے میں آئیں گی ان پر وہ انتخاب لڑ سکتی ہیں۔ دراصل ریزرویشن دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس شعبے میں خواتین کی حصہ داری کم ہے اس میں انہیں حقوق مل سکیں اور وہ سماج میں سیاسی طورپر بھی با اختیار ہو سکیں ۔لیکن پسماندہ طبقے اور اقلیت طبقے کی خواتین جو حقیقتاً زندگی کے بیشتر شعبے میں پسماندگی کی شکار ہیں انہیں اگر اس سیاسی ریزرویشن میں خاطر خواہ حصے داری نہیں مل سکے گی تو شاید اس ریزرویشن کا جو مقصد ہے وہ مکمل نہیں ہو سکے گا اس لئے بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے جب ریاست میں خواتین کو با اختیار بنانے کا فیصلہ کیا تو سب سے پہلے انہوں نے ۲۰۰۶ء میں پنچایتی انتخاب میں ۵۰؍فیصد خواتین کیلئے ریزرویشن پالیسی بنائی اور اس کو نافذ بھی کیا۔ پھر ۲۰۰۷ء میں میونسپل ؍بلدیاتی انتخاب میں بھی ۵۰؍فیصد سیٹیں عورتوں کیلئے مخصوص کی گئیں۔ انہوں نے ۲۰۰۶ء میں ہی پرائمری اسکولوں کی اسامیوں میں خواتین کیلئے ۵۰؍فیصد سیٹیں مخصوص کیں ۔ سب سے بڑا انقلاب تو ۲۰۰۶ء میں جیویکا کے آغاز سے ہوا کہ جس میں ایک کروڑ تیس لاکھ سے زائد خواتین روزگار سے جوڑی گئیں ۔نتیش کمار نے ۲۰۱۳ء میں ایک اور انقلابی فیصلہ کیا کہ بہار پولیس کی بحالیوں میں ۳۵؍فیصد سیٹیں خواتین کیلئے ریزرو کی گئیں جس کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں خواتین پولیس کی سب سے زیادہ تعداد بہار میں ہے۔ ۲۰۱۶ء سے ریاست کی تمام سرکاری نوکریوں میں خواتین کیلئے ۳۵؍فیصد سیٹیں ریزو کی گئی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ میڈیکل و انجینئرنگ کالجوں میں داخلے کیلئے بھی ۳۳؍فیصد سیٹیں خواتین کیلئے ریزرو کی گئی ہیں۔ غرض کہ نتیش کمار خواتین ریزرویشن کی سیاست کو فروغ دینے میں قومی سطح پر نہ صرف اولیت کے حقدار رہے ہیں بلکہ عملی نفاذ میں بھی ایماندارانہ کوشش کرتے رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ میں خواتین بل کے پاس ہونے پر انہوں نے اپنا موقف ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اب اس کے نفاذ میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے اور کانگریس کے راہل گاندھی بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اس کا فوری نفاذ ہو۔ اگر واقعی اپوزیشن اس خواتین ریزرویشن بل کے نفاذ کے تئیں سنجیدہ ہے تو ان کے ہاتھوں میں ایک سنہری موقع ہے کہ آئندہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخاب میں اور پارلیمانی انتخاب میں وہ خواتین کیلئے ۳۳؍فیصد سیٹیں مخصوص کریں اور اس میں اوبی سی کے ساتھ ساتھ اقلیت طبقے کی خواتین کی بھی حصہ داری کو یقینی بنائیں کیوں کہ حکومت نے جو بل پاس کیا ہے اس کے نفاذ کی راہیں ابھی بہت دشوار کن ہیں ۔ اگرواقعی اپوزیشن، حکمراں جماعت کے اس بل کو مبینہ طور پر سیاسی پروپیگنڈہ سمجھتی ہے تو وہ پہل کر کے اس سیاست کی شطرنجی چال کو مات دے سکتی ہے اور ایسا اپوزیشن کیلئے بہت مشکل نہیں ہے۔ حال ہی میں اپوزیشن پارٹیوں نے کئی تاریخی سیاسی فیصلے کئے ہیں اور اس وقت ’’انڈیا‘‘ اتحاد میں شامل تمام پارٹیاں ملک میں ایک نئی سیاسی فضا قائم کرنے کی جد وجہد کر رہی ہیں ایسے وقت میں خواتین کی حصے داری کو یقینی بنا کر ملک کی سیاست کو نئی سمت ورفتار دینے میں بھی کامیاب ہو سکتی ہیں اور یہ عمل ان کے مفاد میں ہی ہوگا۔