دنیا کا سب سے خوبصورت اور جذبات سے پُر لفظ ’ماں‘ ہے۔ مئی کے دوسرے اتوار کو ماں کی محبت کے نام کیا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد اپنی والدہ کی اہمیت کا احساس کرنا، ان کی خدمت کرنا اور انہیں خوشی دینا ہے۔ عالمی یوم ِ مادر کے پیشِ نظر خصوصی فیچر میں ماں کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیں: (ترتیب و پیشکش: صائمہ شیخ)
شبنم اپنے بیٹے نوید کے ساتھ۔ تصویر: آئی این این۔
میرا بچّہ بہت ’خاص‘ ہے، اس لئے اُس کی ماں بھی خاص ہے

شبنم اپنے بیٹے نوید کے ساتھ
میرا سولہ سال کا بیٹا محمد نوید معذور ہے۔ وہ صحتمند پیدا ہوا تھا مگر پیدائش کے ایک مہینے کے بعد اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ ٹیسٹ ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کے سَر میں ٹی بی کی گانٹھ ہے۔ ایک سال تک علاج چلا اور وہ ٹھیک بھی ہوگیا مگر اس کے بعد اسے مرگی آنے لگی۔ ۵؍ مہینے تک علاج جاری رہا۔ اس کے بعد اس کے سَر میں پانی بھر گیا تھا جس کی وجہ سے اس کا سَر بڑا ہوگیا تھا۔ اس کے بعد اس کے ایک تین آپریشن ہوئے۔ اب سَر نارمل حالت میں ہے لیکن وہ مکمل طور پر معذور ہے۔ فیزیوتھیراپیسٹ کی مدد سے اتنی آسانی پیدا ہوئی ہے کہ جب مَیں اس سے کہتی ہوں، ’’آؤ میرے پاس۔‘‘ تو وہ کوشش کرتا ہے اور مجھے پکڑتا ہے۔ مَیں نے اپنے بچے کیلئے کئی تکلیفیں اٹھائی ہیں اور کیوں نا اٹھاؤں وہ بچہ ہے میرا۔ اولاد کیلئے ماں ہر تکلیف اٹھا سکتی ہے۔ نوید کی ہر ضرورت پوری کرنی پڑتی ہے جیسے نہلانا دھلانا، کھلانا پلانا وغیرہ۔ ٹریننگ کی مدد سے یہ کامیابی ملی ہے کہ اب میرا بچہ کھانے پینے کی چیز کی سمجھ رکھتا ہے۔ وہ ناک سے محسوس کرتا ہے کہ یہ کھانے کی چیز ہے اور اپنے سے کھاتا بھی ہے مگر عام بچوں کی طرح نہیں۔ نوید میرا پہلا بیٹا ہے اس کے علاوہ مجھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ وہ دونوں صحتمند ہیں۔ ویسے ماں کیلئے سبھی بچے برابر ہوتے ہیں۔ البتہ نوید کو زیادہ توجہ دینا پڑتی ہے۔ اسی کے ساتھ مَیں اکھل بھارتیہ دیویانگ سینا یونین کے ساتھ جڑی ہوئی ہوں۔ اس تنظیم سے وابستہ ہونے کا میرا مقصد یہ ہے کہ مَیں معذور افراد کی مدد کرنا چاہتی ہوں اور ان کی حق تلفی کے خلاف آواز اٹھاتی ہوں۔
شبنم شہاب الدین رین (محمد نوید کی والدہ)
ماں کے رخصت ہونے کے بعد اُن کی باتیں ذہن میں گردش کرتی ہیں

شاہد سرگم کی اپنی والدہ (ساجدہ) اور والد کے ساتھ عمرہ پر جانے کے وقت کی تصویر
میری والدہ ساجدہ ایک گھریلو دیندار خاتون تھی۔ قرض لینا اور جھوٹ بولنا سخت ناپسند تھا۔ وہ ہمیشہ بولتی تھی دو روٹی کم کھا لینا مگر قرض مت لینا جو مرتے دم تک یاد رہے گی۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے والدہ کو محنت کرتے دیکھا ہے۔ وہ چرخہ بننتی تھی جس میں ہفتہ بھر چرخہ بننے پر ۶۰؍ روپیہ ہفتہ بھر میں ملتا تھا۔ ایک بار میں نے خرچ کیلئے پیسے مانگے تو نہیں دئیے۔ میں ناراض ہو کر گھر سے چلا گیا۔ رات ہونے پر چپکے سے گھر آیا تو میرے کپڑے کے پاس ۵۰؍ روپیہ رکھا ہوا تھا یعنی انہوں نے ہفتہ بھر کی کمائی مجھ کو دیدی تھی۔ آج جب وہ ۸؍ سال بیماری سے لڑتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوچکی ہے تو سب باتیں جیسے ذہن میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ ماں ایک ایسی عظیم ہستی ہے جس کی محبت قربانی اور شفقت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جن لوگوں کی ماں آج حیات ہے ان سے میری مودبانہ گزارش ہے ان کیساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ ان کی نصیحت کو سنیں۔ ان سے اپنی ہر تکلیف و پریشانی کا ذکر کریں اور تھوڑا انتظار کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ایک دو روز میں وہ تکالیف و پریشانی ختم ہوچکی ہوگی کیونکہ ماں سب سننے کے بعد خاموشی سے دعا دینا شروع کردیتی ہے اور اولاد کے حق میں ماں باپ کے دعاؤں کیلئے اٹھے ہوئے ہاتھ خداوند کریم کے دربار سے کبھی خالی نہیں لوٹا کرتے۔ ماں باپ کو پیسوں یا دوسری چیزوں سے زیادہ اولاد کے وقت، محبت اور خدمت کی ضرورت ہوتی ہے اور ماں جو مشقت اپنی اولاد کیلئے اٹھاتی ہے اگر اولاد ساری زندگی بھی خدمت میں گزار دے تو بھی ماں کا حق ادا نہ ہو۔
شاہد اختر (سرگم)
میری امی تین دن تک بھوکی تھی لیکن پڑوسی تک کو خبر نہیں ہونے دی

مبین شیخ اور اُن کی والدہ فاطمہ
میری پیدائش کے کچھ وقت کے بعد میرے ابّو کا انتقال ہوگیا تھا۔ مجھے میری والدہ نے ماں اور باپ، دونوں کا پیار دیا لیکن پانچ مہینے قبل مَیں اُن کے سائے سے بھی محروم ہوگیا۔ میری ماں نے تنہا ہم پانچ بھائیوں کی پرورش کی۔ انہوں نے سخت محنت کرکے ہمیں پالا۔ وہ ایک دیندار خاتون تھی۔ پانچوں وقت کی نماز پڑھتی تھیں اور کلام پاک کی تلاوت پابندی سے کرتی تھیں۔ وہ کبھی کسی بھی چیز کیلئے شکایت نہیں کرتی تھیں۔ وہ بڑی خوددار تھیں۔ جب غریبی میں فاقہ کی نوبت آئی تھی تب بھی انہوں نے کبھی کسی سے کچھ مانگ کر نہیں کھایا۔ ماں نے بتایا تھا کہ ایک بار تین دن تک کچھ کھانے کو نہیں تھا لیکن پڑوس تک اس کی خبر نہیں ہونے دی تھی۔ ان کی یہ باتیں سن کر دل رو دیتا تھا۔ جب مَیں کمانے لگا تب مَیں نے ٹھان لیا تھا کہ اپنی پوری کمائی امی کو دوں گا اور اُن کے انتقال تک مَیں اِس بات پر قائم رہا۔ میں لڑکپن میں تھوڑا ضدی تھا اور امی کو بہت ستاتا تھا۔ کبھی کبھی کھانا پینا بھی چھوڑ دیتا تھا۔ اس وقت امی کو بہت تکلیف پہنچتی تھی اب افسوس ہوتا ہے۔ اس وقت نادانی میں امی کا بڑا دل دکھایا۔ لیکن اُن کی سب سے چھوٹی اولاد ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ پیار بھی مجھے ہی ملا۔ وہ مجھے بڑا چاہتی تھی۔ اب زندگی بھر اس کا خلا رہے گا۔ اللہ اُن کی مغفرت فرمائے (آمین)۔
مبین ابراہیم شیخ
بچپن اور نوعمری میں سخت لہجہ اختیار کرنے پر ماں سے معافی کی طلب گار ہوں

فاطمہ الزماں، انہوں نے اپنی والدہ فرحانہ کا فوٹو دینے سے گریز کیا
مَیں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے بیرون ملک منتقل ہوئی۔ پردیس میں ان چیزوں کی قدر شروع کر دی جو والدہ کرتی تھیں۔ مجھے احساس ہوا کہ زندگی میں اپنے ہی کام کرنا کتنا مشکل ہے۔ ماں نے ہم ۴؍ بچوں کا ہر اعتبار سے خیال رکھا۔ وہ اب بھی ہر فیصلے میں ہمارے ساتھ ہوتی ہیں۔ جب بھی میں فطرت کا حسن دیکھتی ہوں تو مجھے ان کی یاد آتی ہے۔ میں ہر لمحہ ان کے بارے میں سوچتی ہوں۔ ان کی دعاؤں کے بغیر مَیں یہاں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ بلاشبہ، بچپن اور نوعمری میں مَیں نے کئی بار ماں سے سخت لہجے میں بات کی۔ کاش میں وہ وقت بدل سکتی۔ مگر افسوس، یہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن ان سے معافی تو مانگ سکتی ہوں۔ والدین کے ساتھ اولاد کا اختلاف معمول کی بات ہے لیکن اہم ہے کہ ہم ان اوقات میں ان سے نرمی سے بات کریں اور اپنی بات سمجھانے کی کوشش کریں۔ انہوں نے درجنوں نصیحتیں کی ہیں جنہیں میں ہمیشہ یاد رکھتی ہوں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں اپنی ماں کی ہر خواہش پوری کرنی چاہتی ہوں۔
فاطمہ الزماں