Inquilab Logo

مکہ کی وادیوں میں اذانِ بلال ؓ گونجی اور یہ نغمہ سرمدی سن کرلوگ گھروں باہر نکل آئے

Updated: July 07, 2023, 11:25 AM IST | Maulana Nadeem ul-Wajidi | Mumbai

سیرتِ نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں فتح مکہ کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں ملاحظہ کیجئے کہ جب آپؐ نے حضرت بلال ؓ کو کعبے کی چھت پر اذان دینے کا حکم فرمایاتو اہل مکہ پر کیا اثر ہوا،ابومحذورہؓ کی اذان کے بارے میں بھی پڑھئے

The inner part of Masjid Haram where a part of Safa Hill can also be seen
مسجد حرام کا اندرونی حصہ جہاں صفا پہاڑی کا کچھ حصہ بھی دیکھا جاسکتا ہے

اذانِ بلالؓکی گونج
ظہر کا وقت ہوچلا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر جاکر اذان دیں۔ حضرت بلالؓ نے حکم کی تعمیل کی، جیسے ہی ان کی آواز مکّے کے پہاڑوں سے ٹکرا کر اس کی وادیوں میں گونجی بوڑھے، بچے، جوان، عورتیں اور مرد گھروں سے نکل آئے اور اذان کے کلمات غور سے سننے لگے۔ ان کے لئے یہ سرمدی نغمہ حیرت واستعجاب کا باعث تھا، یہ نغمہ ان کے کانوں میں رس گھول رہا تھا، اور ان کے قلوب پر اثر انداز ہورہا تھا ،کچھ غالی قسم کے قریش اب بھی بیزار دکھائی دے رہے تھے، صحن کعبہ میں عتاب بن اسید، خالد بن اُسید، حارث بن ہشام اور سفیان بن حرب گروپ بنائے بیٹھے تھے، ان لوگوں نے اذان کی آواز سنی، عتاب اور خالد نے کہا کہ اللہ نے ہمارے باپ کو یہ آواز سننے سے پہلے ہی اٹھا لیا، یہ اس کے لئے بڑی عزت کی بات ہوئی، حارث نے کہا: خدا کی قسم اگر مجھے یقین ہوتا کہ یہ دین حق ہے تو میں اس کی اتباع ضرور کرتا، سفیان نے کہا: میں کچھ نہیں بولوں گا، اگر میں نے کچھ کہا تو یہ کنکریاں محمد کو بتلادیں گی کہ ہم میں سے کس نے کیا کہا ہے۔
 ابھی یہ لوگ گفتگو کرہی رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے آئے، آپ نے فرمایا کہ تم لوگ ابھی جو باتیں کررہے تھے وہ میرے اللہ نے مجھے بتلا دی ہیں، عتاب اور خالد نے یہ کہا تھا، حارث یہ کہہ رہا تھا، سفیان کے الفاظ یہ تھے۔ آپؓ کی بات سن کر یہ لوگ حیرت زدہ رہ گئے، عتاب اور حارث تو اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے، انہوں نے کہا: بلاشبہ! آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ کو ہماری باتیں اللہ ہی نے بتلائی ہیں، ہم جو گفتگو کررہے تھے وہ ہم ہی لوگوں تک محدود تھی، اور ابھي ہم میں سے کوئی اٹھ کر بھی نہیں گیا تھا کہ آپ تشریف لے آئے۔ بلاشبہ اللہ ہی نے آپ کو ہماری بات چیت کی تفصیل سے واقف کیا ہے۔ (سیرت ابن ہشام: ۴/۳۲۰، تفسیر ابن کثیر: ۳/۱۳۲)
مکہ مکرمہ کے پہلے امیر
کہاں تو عتاب بن اسیدؓ کا یہ حال تھا کہ وہ کلماتِ اذان سن کر اپنی قسمت پر افسوس کررہے تھے اور کہاں یہ حال ہوا کہ دولت ایمانی سے سرفراز ہوتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے بن گئے، مکہ فتح کرنے کے بعد جب کچھ دن گزار کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے رخصت ہونے لگے تو اس وقت ایک ایسی قابل اعتماد ہستی کی ضرورت پیش آئی جو اس شہر کا نظم ونسق سنبھال سکے، آپؐ کی نگاہ انتخاب عتاب پر جاکر ٹھہری، اس وقت ان کی عمر اکیس سال تھی، آپؐ نے انہیں مکے کا امیر مقرر فرمادیا، اور تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا کہ میں نے تمہیں اہل مکہ کا امیر بنا دیا ہے، اس طرح آپ اس شہر معظم کے سب سے پہلے امیر بن گئے، کیوں کہ امامت کا فریضہ بھی امراء اسلام ہی انجام دیتے ہیں، اس لئے عتاب مسجد حرام کے سب سے پہلے امام بھی قرار پائے۔ ان کو قرآن پڑھانے اور فقہی مسائل سے واقف کرانے کے لئے حضرت معاذ بن جبلؓ کو مکے میں چھوڑا گیا، فتح مکہ سے ایک رات قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ قریش کے چار افراد ایسے ہیں جنہیں میں شرک سے دور سمجھتا ہوں، اور ان میں اسلام کی رغبت دیکھتا ہوں، ان میں سے ایک عتاب بن اسید ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے روزانہ کے دو درہم مقرر فرمادیئے۔ آپ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے  کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بھی ان کو اسی عہدے پر برقرار رکھا۔ جس دن حضرت ابوبکرؓ نے وفات پائی اسی دن چھبیس سال کی عمر میں وہ بھی اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ (طبقات بن سعد: ۲/۱۰۴، زرقانی علی المواہب: ۳/۴۸۵، اسد الغابہ: ۳/۵۷۵، تاریخ ابن عساکر: ۱۵/۱۰۶)
ابومحذورہؓ حرم کے پہلے مؤذن
جس وقت حضرت بلالؓ نے کعبے کی چھت پر چڑھ کر اذان دی تھی اس وقت  قریش کے چند کھلنڈرے لڑکوں نے اذان کی نقل اتارنے کی کوشش کی، ان میں ایک لڑکا ابومحذورہ بھی تھا، اس کی عمر سولہ برس تھی۔ بلند آواز کا مالک یہ نوعمر بلا کا خوش آواز بھی تھا، لڑکوں کی آوازیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنیں، لیکن جو آواز سب سے زیادہ صاف اور واضح تھی اور جس میں اذان بلالی کی کچھ جھلک تھی وہ ابومحذورہ کی تھی، حکم ہوا ان کو پیش کیا جائے۔ لوگ پکڑ کر لے آئے، ابومحذورہ خوف سے کانپ رہے تھے اور دل میں یہ پختہ یقین تھا کہ انہیں سزا دی جائے گی۔ آپؐ نے فرمایا وہ کون ہے جس کی آواز ہم نے سنی ہے، عرض کیا: یارسولؐ اللہ! وہ شخص میں ہوں، فرمایا: اذان دو، انہوں نے حکم کی تعمیل کی۔ آپؐ نے خوش ہوکر چند درہم عطا فرمائے، سر اور پیشانی پر دست مبارک پھیرا، پیٹ پر بھی ہاتھ پھیرا اور یہ دعا دی، بارک اللہ فیک و بارک اللہ علیک، اللہ تمہاری ذات کو بابرکت بنائے اور تم پر برکتیں نازل کرے۔
ابومحذورہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے مؤذن مقرر فرمادیجئے، آپؐ نے ان کی یہ درخواست منظور فرمالی، اس طرح ابومحذورہؓ حرمِ مکہ کے اوّلین مؤذن مقرر ہوئے، اور انسٹھ ہجری تک اس منصب پر فائز رہ کر وفات پا گئے، ان کی وفات کے بعد مؤذنی کا یہ سلسلہ ان کی اولاد میں بھی چلتا رہا۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب: ۴/۱۷۵۲،  الروض الانف:۷/۱۳۸) 
عام معافی کا اعلان
چند افراد کو چھوڑ کر تمام اہل مکہ کو معاف کردیا گیا، حالاں کہ ان تمام لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان کے بعد کہ وہ اللہ کے نبی اور اس کے رسول ہیں آپؐ کو طرح طرح کی اذیتیں دی تھیں، اذیتیں دینے کا یہ سلسلہ ایک دو برس نہیں بلکہ تیرہ برس تک مسلسل چلتا رہاتھا، ایک وقت وہ آیا کہ اہل مکہ کے مظالم سے تنگ آکر آپؐ اپنے مخلص اور وفا دار ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے، اس سے بڑھ کر تکلیف دہ بات کوئی دوسری نہیں ہوسکتی کہ آدمی کو اپنا وطن چھوڑ کر جانا پڑے، لیکن جب آپؐ فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ مکرمہ میں دس ہزار صحابہؓ کے ساتھ داخل ہوئے تو آپؐ کے دل میں انتقام کا کوئی جذبہ نہیں تھا، بدلہ لینے کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ لوگ صحن حرم میں منتظر کھڑے تھے کہ دیکھیں آپؐ ہمارے متعلق کیا فیصلہ کرتے ہیں، بیت اللہ کے اندر سے تشریف لاکر آپؐ نے حاضرین سے دریافت فرمایا: لوگو! تم مجھ سے کس طرح کے سلوک کی توقع کرتے ہو، لوگوں نے عرض کیا: ہم تو خیر کی امید رکھتے ہیں، کیوں کہ آپؐ بذات خود شریف انسان ہیں، اور شریف انسان کے بیٹے ہیں، یعنی خود بھی اعلیٰ ظرف ہیں، کریم النفس ہیں اور آپ جن کی اولاد ہیں وہ بھی ان صفات کے حامل انسان تھے۔ آپؐ نے ان کے اترے ہوئے چہرے دیکھے، اور بلا کسی توقف کے یہ اعلان فرما دیا، آج بدلے کا دن نہیں ہے، بدلہ اور انتقام تو دور کی بات ہے آج تو ملامت کا دن بھی نہیں ہے کہ جو تم ہمارے ساتھ کرچکے ہو ہم تمہیں اس پر سخت سست کہیں اور تمہیں تمہارے مظالم کی یاد دلاکر تمہیں شرمندہ کریں، اسلئے جاؤ آج تم آزاد ہو۔ 
اس معافی کا وسیع مفہوم تھا، اس کا مطلب یہ تھا کہ تمہاری جان بھی محفوظ ہے، تمہارا مال بھی محفوظ ہے، جو مکانات تمہارے پاس ہیں وہ تمہارے رہیں گے، جن زمینوں کے تم مالک بنے بیٹھے ہو حسب سابق وہ تمہاری ملکیت میں رہیں گی، حتی کہ ہمارے جانے کے بعد جن غیر منقولہ جائدادوں پر تم نے غاصبانہ قضبہ کررکھا ہے وہ بھی ہم تم سے نہیں لے رہے ہیں، تمہاری مرضی تم اسلام قبول کرو یا نہ کرو ہم تم پر کوئی جزیہ کوئی ٹیکس بھی نہیں لگا رہے ہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ شہر مکہ کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا وہ دوسرے شہروں سے مختلف تھا، حالاں کہ یہ بھی مفتوح ہوا اور وہ شہر بھی فتح کئے گئے، لیکن ان کے رہنے والوں سے کہا گیا کہ تم اسلام قبول کرو، ورنہ جزیہ ادا کرکے یہاں رہو، مکہ مکرمہ اپنے تقدس اور حرمت وتوقیر کی بنا پر جداگانہ نوعیت کے فیصلوں کا مستحق تھا اس لئے آپؐ نے عمومی معافی کا اعلان فرمایا اور کسی پر کسی بھی نوعیت کی کوئی پابندی عائد نہیں کی، آپؐ کی یہ خاص عطا تھی شہر مکہ کے لئے۔
چند لوگوں کو معاف نہیں کیا گیا
ایک طرف تو عفو ودرگزر کا اعلانِ عام، دوسری طرف مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ جو لوگ فطری طور پر شر پسند واقع ہوئے ہیں اور جن سے مستقبل میں کسی خیر اور بھلائی کی امید نہیں کی جاسکتی ان کو نظر انداز نہ کیا جائے، اس طرح کے لوگ مملکت کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، اس لئے آپ نے فیصلہ کیا کہ ایسے خبیث فطرت لوگوں کو قتل کردیا جائے، اگرچہ وہ حرم کے اندر ہی کیوں نہ موجود ہوں اور خانۂ کعبہ کے پردوں سے ہی کیوں نہ لپٹے ہوئے ہوں، ان کے لئے یہ سخت ترین سزا اس لئے تجویز کی گئی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں کبھی بھی مثبت سوچ  اورفکر کے حامل نہیں رہے، دین اسلام کیلئے ان کے جرائم بہت بڑے تھے اور اس سے مسلمانوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا، اگر ایسے لوگوں کو معاف کردیا جاتا ہے تو یہ مملکت اسلامیہ کی کمزوری پرمحمول کیا جائیگا، پھر یہ لوگ مستقبل میں بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں، کیوں کہ فتنہ وفساد، انکار حق اور سرکشی وبغاوت اور تمرد ان کی سرشت میں داخل ہے۔
ایسے لوگوں کی تعداد جن کو قتل کی سزا دی گئی کم وبیش بارہ تھی، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنی کتاب ’’فتح الباری‘‘ میں یہ نام درج کئے ہیں: (۱)عبد العُزّٰی بن خَطَلْ (۲) عبد اللہ بن سعد بن أبی سَرْح (۳) عِکْرمَہ بن ابی جہل (۴) اَلْحُوَیْرَثْ بن نُقَیْد (۵) مُقْیَسْ بن صَبَابَہ(۶) ہَبَّار بن الاسود (۷) سارۃ مولاۃ بنی عبد المطلب (۸) الحارث بن طَلَال الخزاعی (۹) کعب بن زُہیر (۱۰) وحشی بن حرب (۱۱) ھند بنت عتبۃ (فتح الباری: ۷/۹) بعض لوگوں نے کچھ اور نام بھی ذکر کئے ہیں، جیسے صفوان بن امیہ، اس کی بیوی اور بعض دوسری خواتین، ان میں سے بعض لوگ قتل کئے گئے، اور بعض لوگ تائب ہوکر مسلمان ہوگئے، صاحب ’’اصح السیر‘‘ اور مصنف ’’سیرۃ المصطفی‘‘ نے قدرے تفصیل کے ساتھ ان دونوں طرح کے لوگوں کا ذکر کیا ہے۔
کوہِ صفا پر بیعت
فتح مکہ کا دن بڑی مصروفیت اور ہماہمی کا رہا، جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مکہ میں داخل ہونے کے بعد آپؐ حضرت ام ہانیؓ کے گھر تشریف لے گئے، آپؐ نے غسل فرمایا: پھر ایک سلام سے چار رکعتیں نماز تشکر ادا کی، یہ چاشت کا وقت تھا، پھر آپؐ حرم میں تشریف لائے، آپؐ نے اونٹنی پر بیٹھ کر طواف کیا، اس کے بعد آپؐ نے بیت اللہ کا دروازہ کھلوایا، اندر تشریف لے جانے سے پہلے بیت اللہ کے درودیوار سے بت ہٹوائے، آب زم زم سے دیواریں اور فرش دھویا گیا، اس کے بعد آپؐ اندر تشریف لے گئے، نماز ادا کی، باہر تشریف لائے، خانہ کعبہ کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر  آپؐ نے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس وقت صحن حرم لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، آپؐ نے باستثنائے چند تمام مشرکین مکہ کو معاف کردیا، ان مصروفیات میں ظہر کا وقت ہوگیا ۔ حضرت بلال حبشیؓ نے خانۂ کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر ظہر کی اذان دی، آپؐ نے نماز پڑھائی، نماز کے بعد چند روساء مکہ سے صحن حرم میں کچھ گفتگو بھی فرمائی، پھر آپؐ  کوہ صفا پر تشریف لے گئے، وہاں خانۂ کعبہ کی طرف اپنا چہرۂ مبارک کرکے کھڑے ہوئے اور دیر تک دعا میں مشغول رہے۔
 دعا کے بعد آپؐ کوہِ صفا پر ہی بیٹھ گئے، جہاں مرد وزن کی بیعت کا سلسلہ شروع ہوا۔
(جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK