Inquilab Logo

بلقیس بانو کیس: عدالتی فیصلہ تاریکی میں روشنی کی دلیل

Updated: January 22, 2024, 1:51 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

بلقیس بانو کی کہانی کو دہرانا اور یاد رکھنا ضروری ہے۔ ہم سبھی ہندوستانی شہریوں کو بلقیس بانو کیس سے کچھ سبق سیکھنے ہوںگے۔ عدالتوں سے اُمید باقی رکھنی ہوگی۔

Supreme Court . Photo: INN
سپریم کورٹ ۔ تصویر: آئی این این

’’مجھے بلا خوف جینے کا میرا حق واپس دو۔‘‘ یہ بلقیس بانو کے الفاظ ہیں  اور اس سے بہتر انداز میں  مظلوموں  کا دکھ درد بیان نہیں  کیا جاسکتا۔ مظلوم اور ستم رسیدہ لیکن بہادر بلقیس بانو نے اس سادہ جملہ کے ذریعہ ہندوستان کے لاکھوں  غریب، مظلوم اور امتیازات کا شکار شہریوں  کی داستان کو بیان کیا ہے۔
 بلقیس بانو کی کہانی کو دہرانا اور یاد رکھنا ضروری ہے۔ ۲۰۰۲ء  میں  ٹرین آتشزنی واقعہ کے بعد گجرات میں  تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ اس وقت ۲۱؍ سالہ بلقیس بانو حاملہ تھی۔ فسادات کے دوران بلوائیوں  نے اس پر حملہ کیا، اس کی ۳؍ سالہ لڑکی سمیت خاندان کے ۷؍  افراد کو قتل کردیا اور اس کی اجتماعی عصمت دری کی۔ خوش قسمتی سے وہ بچ نکلنے میں  کامیاب ہوئی اور آج ہمیں  اپنی کہانی سنانے کیلئے زندہ ہے۔ بلقیس پر حملہ کرنے والوں  پر ممبئی کی خصوصی عدالت میں  مقدمہ چلایا گیا۔ کورٹ نے ۲۱؍ جنوری ۲۰۰۸ء  کے فیصلہ میں  ۱۱؍ افراد کو مجرم ٹھہراتے ہوئے انہیں  عمر قید کی سزا سنائی۔ ۱۵؍ اگست ۲۰۲۲ءکو وزیراعظم نے اپنی یوم آزادی کی تقریر میں  عوام سے ناری شکتی (خواتین کی طاقت) پر فخر کرنے کی اپیل کی۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اسی دن گجرات حکومت نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بلقیس بانو کیس کے تمام ۱۱؍ مجرموں  کی سزا معاف کردی اور انہیں  قبل از وقت رہا کردیا۔ مجرمین اپنے کئے پر نادم نہیں  تھے اور نہ وہ رات کے اندھیرے میں  باہر آئے۔ جیل سے باہر آنے پر ان کا استقبال کیا گیا۔ انہیں  پھولوں  کے ہار پہنائے گئے اور مٹھائی کھلائی گئی۔ کچھ نوجوانوں  نے ان کے پیر چھوئے۔ کسی نے کہا کہ وہ اچھے اخلاق والے برہمن ہیں ۔ ۸؍ جنوری ۲۰۲۴ء کو سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کے مجرمین کو معافی دینے کے فیصلہ کو مسترد کردیا اور تمام ۱۱؍ مجرمین کو بقیہ سزا کاٹنے کے لئے جیل لوٹنے کا حکم دیا۔
 یہ ایک مختصر تمہید تھی۔ مَیں  اس مضمون میں  مجرمین یا ان کو بلاجواز معافی پر نہیں  بلکہ قانون کی حکمرانی اور قانون و انسانی حقوق کے باہمی تعلق پر اٹھنے والے سوالات کا احاطہ کرنا چاہتا ہوں ۔ اس سے قبل مَیں  عدالت کے فیصلہ سے چند اہم نکات یہاں  رقم کروں  گا جن کا ذکر یہاں  ضروری ہے۔ (۱)  سماج میں  خواتین، چاہے ان کا تعلق اونچے یا نچلے طبقات سے ہو، کی عزت کرنا ضروری ہے۔ (۲)  تحقیقاتی ایجنسی نے ملزمین کا سراغ نہ لگا پانے کا جواز دیتے ہوئے مقدمہ بند کرنا چاہا جس کیلئے جوڈیشیل مجسٹریٹ نے ہامی بھردی۔ (۳) سپریم کورٹ نے کیس کو دوبارہ کھولنے کی ہدایت دی اور تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کی۔ خصوصی عدالت نے گیارہ ملزمان کو مجرم قرار دیا۔ (۴)  مورخہ ۴؍ جولائی ۲۰۱۷ءکو بامبے ہائی کورٹ نے گیارہ افراد کی سزا کو برقرار رکھا۔ (۵)  جواب دہندہ نمبر ۳؍ نے قبل از وقت رہائی کی اپنی درخواست پر غور نہ کئے جانے کے فیصلے کو چیلنج کیا۔ گجرات ہائی کورٹ نے ۱۷؍  جولائی ۲۰۱۹ء کو درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ مہاراشٹر کی عدلیہ سے رجوع کرے۔ (۶)  ۱۳؍ مئی ۲۰۲۲ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے میں  کسی چیلنج کی غیر موجودگی میں ، گجرات ہائی کورٹ نے ۱۷؍ جولائی ۲۰۱۹ء  کے حکمنامے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ریاست گجرات کو رادھے شیام شاہ کی درخواست پر ۹؍ جولائی ۱۹۹۱ء کی پالیسی کی رو سے غور کرنے کی ہدایت کی گئی۔ (۷) مورخہ ۲۶؍ مئی ۲۰۲۲ء کو گجرات کی جیل مشاورتی کمیٹی کی میٹنگ میں  تمام ممبران نے معافی دینے کی سفارش کی۔ گودھرا کے سیشن جج نے ۱۹۹۲ء کی پالیسی کی رو سے اس سفارش کو قبول کرلیا۔ مورخہ ۱۱؍ جولائی ۲۰۲۲ء کو وزارت داخلہ نے مجرمین کی رہائی کو منظوری دے  دی۔
 ۸؍ جنوری ۲۰۲۴ء کے فیصلے میں ، سپریم کورٹ نے پایا کہ معافی سے متعلق پوری کارروائی، جو سپریم کورٹ کے ۱۳؍ مئی ۲۰۲۲ء  کے فیصلے سے شروع ہوئی تھی، غیر قانونی ہے۔ عدالت کی طرف سے دی گئی وجوہات تشویشناک تھیں : (۱)  مورخہ ۱۷؍ جولائی ۲۰۱۹ء کے  گجرات ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کسی نے چیلنج نہیں  کیا اس لئے سپریم کورٹ نے ۱۳؍ مئی ۲۰۲۲ء  کے فیصلہ کے ذریعہ ازخود اسے رد کردیا۔ (۲)  مورخہ  ۱۳؍ مئی ۲۰۲۲ء  کے فیصلہ میں  حقائق کو چھپایا گیا تھا اس لئے وہ غیر قانونی ہے۔(۳)  مزید برآں ، اس فیصلے میں  سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے فیصلوں  کو نظر انداز کیا گیا۔ (۴)  صرف ایک قیدی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، اس کے باوجود معافی کے لئے تمام ۱۱؍ مجرموں  کے ناموں  پر غور کیا گیا۔ (۵) یہ معاملہ صرف مہاراشٹر ہائی کورٹ کے دائرۂ اختیار میں  تھا، گجرات حکومت کے نہیں ۔ (۶)  مورخہ ۹؍ جولائی ۱۹۹۲ء کی پالیسی کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں  گجرات حکومت نے ایک نئی پالیسی وضع کی۔ (۷)  گجرات حکومت، مجرمین کے ساتھ مل گئی تھی۔ رادھے شیام شاہ کی درخواست کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ تھا۔
 یہ سب عدالت کے مشاہدات ہیں ۔ اب آئیے اس مضمون کے مطمح نظر کی طرف۔ ہم سبھی ہندوستانی شہریوں  کو بلقیس بانو کیس سے کچھ اسباق سیکھنے ہوں  گے۔ شہریوں  کے وقار، آزادی، رازداری اور انسانی حقوق، سرعام پامال ہوجائیں  تو نڈر پولیس افسران اور دلیر جج مجرموں  کو سزا دلانے کیلئے کوشاں  رہتے ہیں ۔ حکومتیں  مجرمین کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے ان کی مدد کر سکتی ہیں  اور انہیں  غیر مستحقہ  آزادی (وہ آزادی جس کے وہ مستحق نہیں ) حاصل کرنے کی ترغیب دے سکتی ہیں ۔ مدعی عدالتوں  کے ساتھ دھوکہ کرسکتے ہیں ۔ جج سے بھی غلطی سرزد ہوسکتی ہے لیکن عوامی ردعمل ججوں  کو اپنا سہو درست کرنے پر اکساتا ہے۔ اسی لئے بحیثیت ہندوستانی شہری، ہمیں  عدالتوں  میں  انصاف کی فراہمی کے متعلق پُرامید رہنا ہوگا اور یقین رکھنا ہوگا کہ قانون کی حکمرانی ہر چیز پر غالب ہے۔
 سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ کے بعد بلقیس بانو کے الفاظ ’’اب میں  دوبارہ سانس لے پارہی ہوں ‘‘ عدل و انصاف کے گلیاروں  میں  ہمیشہ گونجتے رہیں  گے۔ یہ الفاظ ہمیں  پیغام دیتے ہیں  کہ ہمارے اطراف پھیلی مایوسی اور تاریکی کے درمیان،کہیں  امید اور روشنی اب بھی زندہ ہے۔ہمیں  اس اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں  چھوڑنا چاہئے۔ بعض اوقات حالات کچھ اس قسم کے بن جاتے ہیں  کہ مایوسی ہونے لگتی ہے مگر ہمیں  یاد رکھنا چاہئے کہ زندگی مایوسی کا نام نہیں ۔ زندگی اُمید کا نام ہے اور اُمید ہی سے دُنیا قائم ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK