رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں تشدد کے خلاف کوئی جامع قانون نہیں ہے اور موجودہ میکانزم زیادہ تر غیر مؤثر ہیں۔ ہندوستان میں تشدد کی روک تھام کیلئے سیاسی عزم کو ناکافی قرار دیا گیا ہے۔
EPAPER
Updated: June 28, 2025, 10:10 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi
رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں تشدد کے خلاف کوئی جامع قانون نہیں ہے اور موجودہ میکانزم زیادہ تر غیر مؤثر ہیں۔ ہندوستان میں تشدد کی روک تھام کیلئے سیاسی عزم کو ناکافی قرار دیا گیا ہے۔
تشدد مخالف تنظیموں کے عالمی اتحاد کی ایک حالیہ رپورٹ نے ہندوستان کو گلوبل ٹارچر انڈیکس میں "سنگین خطرہ" والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ ورلڈ آرگنائزیشن اگینسٹ ٹارچر کی جانب سے جاری کردہ اس اشاریہ میں ہندوستان میں پولیس کی نظامی بربریت، جبری اعترافات، دورانِ حراست اموات اور پسماندہ طبقات کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس اشاریہ میں سات اہم ستونوں پر ممالک کا جائزہ لیا جاتا ہے، جن میں سیاسی عزم، پولیس کا رویہ، متاثرین کے حقوق اور شہری آزادی شامل ہیں۔ ہندوستان "زیادہ خطرہ" والے زمرے میں کئی ایشیائی، افریقی، اور لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ شامل ہے، جبکہ یورپ اور شمالی امریکہ مضبوط قانونی تحفظات کی وجہ سے "کم خطرہ" والے علاقے میں درجہ بند کئے گئے ہیں۔
رپورٹ میں ہندوستان میں این آئی اے اور سی بی آئی جیسی تحقیقاتی ایجنسیوں کے ذریعہ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) جیسے قوانین کے غلط استعمال کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، غیر سرکاری حراستی مقامات کا استعمال، جیلوں میں شدید بھیڑ اور قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) کے مؤثر طریقے سے کام کرنے میں ناکامی کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ ۲۰۲۴ء میں این ایچ آر سی نے ۲۷۳۹ حراستی اموات ریکارڈ کی جبکہ ۲۰۲۳ء میں یہ تعداد تقریباً ۲۴۰۰ تھی۔ ۲۰۱۸ء سے اب تک انسانی حقوق کے ۶۱ محافظوں کو یو اے پی اے کے تحت جیل بھیجا گیا جن میں پروفیسر جی این سائی بابا (جن کی حراست میں موت ہو گئی) اور صحافی صدیق کپن شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ایم پی ہائی کورٹ نے مسلمانوں کے خلاف گمراہ کن خبروں کے تدارک کی درخواست خارج کی
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں تشدد کے خلاف کوئی جامع قانون نہیں ہے اور موجودہ میکانزم بیشتر مواقع پر غیر مؤثر ثابت ہوا ہے اور اکثر انتقامی کارروائیوں کا باعث بنتا ہے۔ ہندوستان میں تشدد کی روک تھام کے سیاسی عزم کو بھی ناکافی قرار دیا گیا ہے۔ ۲۰۲۳ء میں فوجداری قانونی نظام کی اصلاحات نے زیر حراست افراد کے تحفظ یا جبری اعترافات کو روکنے میں کوئی خاص مدد نہیں کی۔
سپریم کورٹ نے ۲۰۲۰ء میں پولیس اسٹیشنوں میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کا حکم دیا تھا لیکن ۲۷۰۰ سے زائد اسٹیشنوں میں اب بھی کیمرے نہیں ہیں۔ تشدد اور ماورائے عدالت قتل اکثر گرفتاریوں، منتقلیوں یا حراست کے دوران ہوتے ہیں جو دلتوں، آدی واسیوں، مسلمانوں، تیسری صنف کے افراد، مزدوروں اور بے گھر افراد کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتے ہیں۔ امتیازی پولیسنگ اور مار پیٹ جیسے غیر قانونی طریقے عام ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: مسلم پرسنل لاء بورڈ کا جسٹس شیکھر یادوکیخلاف کارروائی کا مطالبہ
غیر سرکاری حراستی مراکز، جیسے ترک شدہ عمارتوں، دفاتر، ہوٹل کے کمروں کو جبر کیلئے وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ تشدد میں ملوث پولیس افسران کو شاذ و نادر ہی جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے، کچھ کو "انکاؤنٹر اسپیشلسٹ" کے طور پر ترقی دی جاتی ہے۔ زمین اور ماحولیاتی حقوق کے کارکنوں کی احتیاطی حراست اور غیر قانونی گرفتاریاں شہری آزادیوں کے سکڑتے دائرے کو ظاہر کرتی ہیں۔
رپورٹ میں یو اے پی اے کو من مانی گرفتاریوں اور کارکنوں کو دہشت گرد قرار دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، مغربی بنگال کے سرحدی علاقوں میں ریاستی تشدد اور بارڈر سیکوریٹی فورس کو حاصلِ استثنیٰ کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ ہندوستان نے ابھی تک اقوام متحدہ کے تشدد مخالف کنونشن اور اس کے اختیاری پروٹوکول کی توثیق نہیں کی ہے جس سے بین الاقوامی نگرانی کمزور ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کرناٹک: اسکول میں دلت خاتون کے ہیڈ باورچی بننے پر تمام طلبہ دوسرے اسکول منتقل
اشاریہ میں نے پانچ اصلاحات کی سفارش کی گئی ہے: اقوام متحدہ کے اہم معاہدوں کی توثیق کرنا؛ مینڈیز اصولوں کو نافذ کرنا؛ انسداد دہشت گردی قوانین کے غلط استعمال کو روکنا؛ حراستی اموات کی آزادانہ عدالتی تحقیقات کو یقینی بنانا اور انسانی حقوق کے تحفظ ایکٹ میں ترمیم کرنا تاکہ این ایچ آر سی کی آزادی اور اختیارات کو بڑھایا جا سکے۔