Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا یہ سوچا سمجھا معاملہ ہے؟

Updated: July 01, 2025, 1:45 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

وقفے وقفے سے کوئی شوشہ چھوڑنا اور اس کے ذریعہ بلاوجہ کی بحث و تمحیص کو راہ دینا یا کوئی تنازع پیدا کرنا ایسا رجحان ہے کہ اسے کوئی اور نام تو دیا جاسکتا ہے، وطن دوستی نہیں کہا جاسکتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 وقفے وقفے سے کوئی شوشہ چھوڑنا اور اس کے ذریعہ بلاوجہ کی بحث و تمحیص کو راہ دینا یا کوئی تنازع پیدا کرنا ایسا رجحان ہے کہ اسے کوئی اور نام تو دیا جاسکتا ہے، وطن دوستی نہیں   کہا جاسکتا۔ اس میں   شک نہیں  کہ صحتمند جمہوریت صحتمند بحث و مباحثہ کا تقاضا کرتی ہے اور صحتمند بحث کیلئے ضروری ہے کہ ایسے عنوان پر گفتگو ہو جو ملک اور عوام کے فائدہ پر منتج ہو، اگر اس سے وقت اور توانائی کا ضیاع ہوتا ہے تو یہ وطن دوستی یا جمہوریت دوستی نہیں   ہے۔ آر ایس ایس لیڈر دتاتیہ ہوسبولے نے چند روز پہلے نئے سرے سے یہ پرانی بحث چھیڑ دی کہ دستورِ ہند کی تمہید میں   سوشلسٹ اور سیکولر  جیسے الفاظ پر نظر ثانی کی جانی چاہئے۔ ابھی یہ بیان آیا ہی تھا کہ نائب صدر ِ جمہوریہ (شری جگدیپ دھنکر)، جن کی بنیادی ذمہ داری آئین کی حفاظت ہے، نے دستور کی تمہید میں   شامل کئے گئے ان الفاظ کو ناسور قرار دے دیا۔
 ہوسبولے کسی آئینی منصب پر نہیں   ہیں   اس لئے ہم اُن کی بات نہیں   کرتے مگر جگدیپ دھنکر کی بات ضرور کرینگے۔ اُنہوں   نے اپنے جلیل القدر عہدہ کا حلف لیا تھا تب آئین سے وفاداری کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ آرٹیکل ۶۹؍ کی رو سے جب نائب صدر جمہوریہ کو عہدہ کا حلف دلایا جاتا ہے تب اُس کے ابتدائی الفاظ میں   وفاداری (ٹرو فیتھ اینڈ الیجئنس ٹو دی کانسٹی ٹیوشن آف انڈیا) کا لفظ لازماً آتا ہے۔ تو کیا معزز نائب صدر جگدیپ دھنکر نے اُس پورے آئین کو قبول نہیں   کیا تھا جس میں   سوشلسٹ اور سیکولر درج ہے اور جسے انہوں   نے ناسور قرار دیا ہے؟ یہ نہایت افسوسناک طرز عمل ہے۔ ہم آئین ہی کے ذریعہ جمہوری ملک بنے ہیں   اور آئینی عہدہ قبول کرنے والا کوئی بھی شخص آئین سے یعنی مذکورہ دو الفاظ کے ساتھ پورے آئین سے وفاداری کا حلف لیتا ہے اس کے باوجود بعض لوگ اُسی آئین کے کسی حصے یا الفاظ کے تئیں   ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگتے ہیں  ۔
 یہ تب ہورہا ہے جب ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ آئین کی ۴۲؍ ویں   ترمیم کو من و عن تسلیم کرچکی ہے جس کے ذریعہ مذکورہ دو الفاظ آئین کی تمہید میں   شامل کئے گئے تھے۔ ترمیم کسی فرد واحد کے اشارہ پر نہیں   ہوتی خواہ وہ وزیر اعظم ہی کیوں   نہ ہو۔ اس کیلئے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہوتی ہے جو بحث و مباحثہ کے بعد سامنے آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ترمیم کو بھی پارلیمنٹ کی منظوری حاصل ہے۔ یہ ایک بات ہے۔ دوسری بات سپریم کورٹ کا متذکرہ بالا فیصلہ ہے جس میں   کہا گیا تھا کہ سوشلسٹ اور سیکولر ، یہ الفاظ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا لازمی حصہ ہیں   ۔ سماعت کے دوران یہ دلیل دی گئی تھی کہ یہ دو الفاظ ۱۹۴۹ء میں   نہیں   تھے جب آئین منظور کیا گیا تھا بلکہ انہیں   ۱۹۷۶؍ میں   شامل کیا گیا ۔ کورٹ نے اس دلیل کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ آئین ایک زندہ دستاویز ہے جو وقت کے ساتھ تدریجاً بڑھتی اور ترقی کرتی ہے یا Evovleہوتی ہے۔ عدالت کے اتنے واضح نقطۂ نظر کے باوجود جو لوگ وقتاً فوقتاً یہ معاملہ اُٹھاتے رہتے ہیں   وہ کیا چاہتے ہیں   یہ بتانا ضروری نہیں   کہ یہ کسی سے مخفی نہیں   ہے۔ سابق صدر جمہوریہ کے آر نارائنن کا سوال یاد کرنا چاہئے جن کا کہنا تھا کہ آئین نے ہمیں   ناکام کیا یا ہم نے آئین کو ناکام کیا؟ دھنکر صاحب سے پہلے وزیر اعظم معاشی مشاورتی کونسل کے چیئرمین مشیر وویک ڈیبرائے نے آئین پر سوال اُٹھایا تھا اور چند روز پہلے وزیر اعلیٰ آسام ہیمنت بسوا شرما نے یہی کیا ہے۔ کیا یہ سوچا سمجھا نہیں   معلوم ہوتا؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK