Inquilab Logo

بلقیس بانو کیس سپریم کورٹ کیلئے کڑی آزمائش

Updated: September 15, 2022, 2:06 PM IST | Khalid Sheikh | Mumbai

؍۱۰؍ستمبر کو عدالت نے گجرات حکومت کو نوٹس جاری کرکے وہ تمام دستاویزات منگوائے ہیں جن کی بنیاد پر مجرمین کو رہائی ملی۔ ہماری دانست میں یہ کیس صحیح معنوں میں عدالت کیلئے کڑی آزمائش ثابت ہوگا ۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

؍۱۵؍ اگست کو جب پورا ملک آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا تھا، گجرات حکومت کی طرف سے بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی سزا معافی (ریمیشن) اور وقت سے پہلے رہائی سے بلقیس اور اس کے خاندان والوں پر غم و اندوہ اور خوف و دہشت کا جو پہاڑ ٹوٹا اسے محسوس کرپانا بھی ممکن نہیں ہے۔ ا س سلسلے کی بعض باتیں ہماری فہم سے بالاتر ہیں۔ مثلاً  سپریم کورٹ کی دونفری بنچ نے ریمیشن کی درخواست کو ممبئی کی عدالت کو، جس نے مجرمین کو سزا سنائی تھی، سونپنے کے بجائے گجرات حکومت کے سپرد یہ کہہ کر کیا تھا کہ سانحہ  وہاں  پیش آیا تھا۔ ایسا کیوں ہوا؟ دوسری بات:  ریمیشن کی درخواست کو ۱۹۹۲ء کی پالیسی کے تحت فیصل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی جسے ۲۰۱۳ء میں منسوخ کیا جاچکا تھا اور ۲۰۱۴ء کی نئی پالیسی کے مطابق گینگ ریپ اور قتل جیسے سنگین جرائم میں ’’سزا معافی‘‘ کی سہولت ختم کردی گئی تھی۔ اس لئے ہم یہ سمجھ نہیں پائے کہ ریمیشن کی درخواست  قبول ہی کیوں کی گئی اور ریاستی حکومت کی رائے پر اکتفا کیو ںنہیں کیا گیا۔ تیسری چیز جو ہم سمجھ نہیں پائے وہ ریاستی حکومت کے فیصلے پر خاموشی تھی جس سے لوگوں میں تاثر گیا کہ رہائی کا فیصلہ مرکز، ریاستی حکومت اور عدالت کا مشترکہ ہے۔ ۶؍ستمبر کو مجرمین کے وکیل نے ایک ڈجیٹل نیوز پلیٹ فارم پر اپنے بیان سے اس تاثر کو مزید تقویت پہنچائی۔ پتہ چلا کہ رہائی کا فیصلہ  ریاستی حکومت اور مرکز کا مشترکہ تھا۔ ریاستی حکومت نے مجرمین کی رہائی کا پلان بنایا ، مرکز کی منظوری حاصل کی  جس کے بعد رہائی کا عمل شروع ہوا۔ وکیل نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ چونکہ معاملہ عدالت میں ہے  جس نے دونوں حکومتوں کو نوٹس بھیج  کر جواب مانگا ہے اس لئے حلف نامہ داخل کرنے کے بعد سارا معاملہ صاف ہوجائے گا کیونکہ سب کچھ قوانین و ضوابط کے دائرے میں ہوا ہے۔ اگر ان باتوں کو سچ مان لیا جائے تو جو باتیں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں، وہ شک و شبہ کے دائرے میں آتی ہیں۔
 سپریم کورٹ کی خاموشی اور طول پکڑتی اگر چند انصاف پسند خواتین نے پٹیشن کے ذریعے بلقیس کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور ملزمین کی رہائی کو چیلنج نہ کیا ہوتا۔ سابق چیف جسٹس رامنا نے ریٹائرمنٹ سے دو دن پہلے ۲۵؍اگست کو دونوں حکومتوں کو نوٹس بھیج کر جواب طلب کیا جس پر لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا اور امید ظاہر کی کہ مجرمین جلد ہی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ ہم مطمئن نہیں تھے ۔ ہم نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ جس دو نفری بینچ نے ریمیشن کیس گجرات حکومت کے حوالے کیا ، اگر وہی بینچ سماعت کرے گی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ پچھلی بینچ کے ممبر جسٹس اجے رستوگی اور وکرم ناتھ تھے۔ نئی بینچ میں  وکرم ناتھ کی جگہ جسٹس بی وی ناگرتھنا نے لی ہے۔
 ہمارے خدشات کی دو اور وجہیں ہیں۔۲۵؍ اگست کو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس رستوگی نے ریمیشن کے تعلق سے جس طرح کے ریمارکس پاس کئے وہ سب کے سامنے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ محض اس بنیاد پر کہ بلقیس سانحہ دل دہلانے والا تھا، ریمیشن کی درخواست کو رد یا غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ آئے دن عدالتیں عمر قید کی سزا بھگتنے والے مجرموں کی سزا معاف کرتی ہیں، اس لئے بلقیس کیس کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بزرگ خاتون ذکیہ جعفری کیس میں بھی اس رویے کی جھلک ملتی ہے جس سے سپریم کورٹ کا وقار و اعتبار مجروح ہوا۔ گلبرگ سوسائٹی میں تیس خاندان آباد تھے۔ ۲۸؍ فروری ۲۰۰۳ء کے قتل عام میں ۵۹؍ افراد لقمۂ اجل بنے تھے۔ ان میں ذکیہ کے شوہر اور سابق ایم پی احسان جعفری  اور آس پاس کی  جھگی جھوپڑی میں رہنے والے دہشت زدہ اور غریب لوگ بھی تھے جنہوں نے جعفری صاحب کے رتبے اور سوسائٹی میں پولیس دستے کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے جان بچانے کے لئے وہاں پناہ لی تھی۔ پولیس کی موجودگی کے باوجود شرپسندوں نے سوسائٹی کا محاصرہ کررکھا تھا۔ جعفری صاحب نے پانچ گھنٹے سے زیادہ وقت  پولیس کمشنر، وزیر اعلیٰ کے دفتر، گجرات  اور دہلی کے  سیاسی لیڈروں اور اپنے دوستوں سے  رابطہ قائم کرنے میں لگایا لیکن کہیں سے کوئی مدد نہیں ملی۔ جب قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہوا تب مبینہ طور پر پولیس دستہ غائب ہوچکا تھا۔ خود جعفری صاحب کی موت جس  وحشیانہ انداز میں ہوئی اسے سن اور پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔  حالات معمول پر آنے کے بعد ذکیہ اور ان کے اہل خانہ نے انصاف کے حصول میں عدالتوں کے چکر لگانا شروع کئے لیکن ہر جگہ مایوسی ہاتھ آئی۔ اس کی دو وجہیں تھیں، اس وقت کی ریاستی حکومت کا رویہ اور سپریم کورٹ کی ایماء پر قائم کی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ جس میں کئی معاملات میں ریاستی حکومت کی کوتاہیوں اور چشم پوشی کی نشاندہی کے باوجود ناکافی ثبوت کے بہانے ملزمین کو کلین چٹ دی گئی۔ مایوس ہوکر جب ذکیہ نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو یہاں بھی انہیں راحت نہیں ملی۔ جلتی پر تیل کا کام فیصلے کے اس جملے نے کیا کہ فسادات منصوبہ بند نہیں، بے ساختہ   تھے ۔ اس سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا عدالت یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ فسادات میں اُس وقت کی ریاستی حکومت اور اس کے اہلکاروں کے کالے کرتوت  کے جو حقائق سامنے  آئے، جھوٹ کا پلندہ تھے؟ قومی اور بین الاقوامی سطح پر  ریاست گجرات کے انتظامیہ کی مذمت غلط تھی؟ سچ یہ ہے کہ عدالتوں نے ذکیہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے پیش کئے گئے ثبوت و شواہد سے اعراض کیا اور صرف تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پر تکیہ کیا۔
 ان معروضات کی روشنی میں ہم نہیں سمجھتے کہ بلقیس کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ازالہ ہوگا کیونکہ مودی دَور میں عدلیہ پر بھی کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ اگر بلقیس کو انصاف ملتا ہے تو ہم اسے قومی اور بین الاقوامی دباؤ کا نتیجہ سمجھیں گے ۔ بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں چبھتا ہوا سوال کیا ہے کہ کیا ہندوستان میں ریپ کے مجرموں کی آؤبھگت معمول بنتی جارہی ہے؟مطلب یہ ہے کہ جو فیصلہ آئے گا اس  پر دنیا کی بھی نظریں ہوں گی۔ ۱۰؍ستمبر کو عدالت نے گجرات حکومت کو نوٹس جاری کرکے وہ تمام دستاویزات منگوائے ہیں جن کی بنیاد پر مجرمین کو رہائی ملی۔ ہماری دانست میں یہ کیس صحیح معنوں میں عدالت کیلئے کڑی آزمائش ثابت ہوگا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت اس سے کس طرح عہدہ برآ ہوتی ہے کیونکہ موجودہ دور میں ہمارے ملک میں کیا کچھ ہورہا ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ گیان واپی مسجد، شاہی عیدگاہ،  حجاب تنازع اور ایسے ہی کئی دیگر معاملات  زیرسماعت ہیں اور عدالت نے سی اے اے اور تحفظ عبادت گاہ قانون کو سماعت کیلئے منظور کیا ہے جبکہ تعدد ازواج  اور حلالہ پر حکومت سمیت متعلقہ اداروں سے جواب مانگا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK