Inquilab Logo

شعر فہمی کا یہ انداز.... لاحول ولاقوۃ

Updated: January 10, 2020, 9:00 AM IST | Shamim Tariq

اقبال اور فیض دونوں نے خوبصورت خیال کو خوبصورت پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے مگر اس خوبصورتی سے ذہن و روح کو غذا اور طبیعت کو انشراح فراہم کرنا شاید ان کا مقصد بھی نہیں تھا جو اس کے حقیقی مفہوم تک پہنچے ہیں اور کور ذوق ہونے کے سبب نہ ہی پہنچنا چاہتے تھے۔

فیض کی نظم اور مودی حکومت
فیض کی نظم اور مودی حکومت

اچھی خبر کہیں سے بھی آئے اچھی ہی ہوتی ہے۔ نوبھارت ٹائمز (ممبئی ۳؍ جنوری ۲۰۲۰ء) میں شائع ہوئی یہ خبر اچھی لگی کہ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے علامہ اقبالؔ کے ’’ ترانۂ ہندی ‘‘ کا یہ شعر پڑھا کہ ’’ کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری ۔ یہ خبر اس لئے بھی اچھی لگی کہ فیض احمد فیض کی نظم ’’ ہم دیکھیں گے ‘‘ کی جس طرح مٹی پلید کی گئی ہے اس سے دل دکھی تھا۔ مکمل خبر سامنے ہوتی تو معلوم ہوتا کہ بھاگوت جی نے کس سیاق و سباق میں ترانۂ ہندی کے ایک دو شعر دہرائے۔ خبر کے جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باور کرانا چاہتے تھے کہ ’’ یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا۔ ‘‘ اگر یہی جذبہ محرک تھا اس شعر کو پڑھنے کا تو نظم کی تخلیق کے اصل محرک کا بیان کیا جانا ضروری ہے۔ اس سے نظم کا حقیقی مفہوم واضح ہوجائے گا۔
 مشہور انقلابی اور ہندوستان کے ایک عظیم سپوت لالہ ہردیال ۱۹۰۴ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں طالب علم تھے اور علامہ اقبال استاذ۔ لالہ ہردیال ینگ مینس کرشچین اسوسی ایشن (وائے ایم سی اے) کے ممبر تھے۔ کسی بات پر ان کی اور اسوسی ایشن کے سیکریٹری میں ان بن ہوگئی لہٰذا لالہ جی نے ینگ مینس انڈین اسوسی ایشن (وائے ایم آئی اے) قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور اقبال سے درخواست کی کہ وہ اس کے افتتاحی جلسے کی صدارت کریں۔ اقبال نے یہ درخواست قبول کی اور افتتاحی جلسے میں شریک ہوکر صدارتی تقریر کرنے کے بجائے ترنم سے اپنی وہ نظم سنائی جس کو ہم ’’ ترانۂ ہندی ‘‘ کے عنوان سے جانتے ہیں۔ نظم مقبول ہوئی اور ایک صاحب نے اس کو نقل کرکے ایک رسالے میں شائع ہونے کیلئے بھیج دیا۔ نظم شائع ہوئی تو اس پر اعتراضات ہوئے کہ اس میں زبان و بیان کی کچھ غلطیاں راہ پاگئی تھیں۔ نقل کرنے میں بھی کچھ غلطیاں ہوئی تھیں۔  اعتراض کرنیوالوں میں حسرت موہانی بھی تھے۔ بہرحال یہ نظم اصلاح کے ساتھ کئی رسائل میں شائع ہوئی اور اقبال بھی اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہے۔ یہ نظم حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہے۔ مہاتما گاندھی کہتے تھے کہ اس نظم کو پڑھتا ہوں تو میرا دل بھر آتا ہے۔ بڑودہ جیل میں تو سیکڑوں بار میں نے اس نظم کو گایا ہوگا۔
 ہندوستان کے پہلے خلا باز راکیش شرما سے جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے پوچھا تھا کہ خلا سے ہندوستان کیسا لگ رہا ہے تو راکیش شرما نے کوئی اور جملہ کہنے یا مصرع پڑھنے کے بجائے عالم بیساختگی میں ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘ دہرایا تھا۔ ایسے کئی دوسرے واقعات بھی ذہن میں ہیں جن سے یہ ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ اس نظم کی عوام کے دلوں پر حکمرانی رہی ہے۔ لیکن بعد کے حالات میں جب نفرت کی سیاست نے دلوں پر تسلط قائم کیا تو اقبال اور ہندوستان کی محبت سے سرشار ان کی یہ تخلیق بھی تنگ نظری اور کج فہمی کی زد میں آگئی۔ یہ بھی کج فہمی ہوگی کہ اس کی غلط تفہیم کی جائے۔ اس میں اقبال نے کسی ملک یا مذہبی جماعت کیلئے بدخواہی کا اظہار نہیں کیا ہے نہ ہی کسی ملک یا قومی طاقت کے ختم ہونے کی خبر دی ہے۔ اگر یہ خبر دی گئی ہوتی تو یہ شعر غلط ہوتا کہ یونان، مصر، روم ملک کی حیثیت سے اب بھی باقی ہیں۔ شاعر کا مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ ذہانت، نیک نامی اور قومی وقار میں جو ممالک پہلے بہت نمایاں تھے وہ اب نمایاں نہیں رہ گئے ہیں مگر ہندوستان کی ذہنی اور تہذیبی طاقت جیسی ہمیشہ سے تھی ویسی ہی اب بھی ہے۔ یہ سچائی ہے اور اس سچائی کو بہرحال تسلیم کیا جانا چاہئے۔ ہمیں تو اپنے ملک کے عظیم ہونے اور عظیم تمدن کی حفاظت کرنے پر فخر ہے مگر اس بات کا افسوس بھی ہے کہ کچھ طاقتیں حب الوطنی اور ثقافی قوم پرستی کے نام پر ملک کی نیک نامی کو بٹہ لگانے اور قومی شیرازہ منتشر کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔
 فیض نے اپنی نظم میں ظلم اور جبر کے ختم ہونے اور اقتدار کی باگ ڈور عوام کے ہاتھ میں آنے کی خبر دی ہے۔ فیض کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے بعض لفظوں کو معنوی توسیع کے عمل سے گزار کر نئے معانی عطا کئے ہیں۔ اس میں ارضِ کعبہ سے سرزمین کعبہ مراد ہے نہ بت سے کسی کا مرکز عقیدت۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ زمین پر جو لوگ ظلم روا رکھے ہوئے ہیں یا ظالموں کی حمایت کررہے ہیں وہ کیفر کردار کو پہنچیں گے۔ ’’ جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی اور اہل حکم کے سر اوپر بجلی کڑ کڑ کڑکے گی ‘‘ سے عوامی غضب کی طرف اشارہ ہے۔ عوامی غضب کی تاب نہ لاکر راہ فرار اختیار کرنے یا مارے جانے والوں کی تاریخ کتابوں میں بھی محفوظ ہے اور ہمارے ذہنوں میں بھی۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں جس کیخلاف کسی ملک کے رہنے والے یا کسی عقیدے کے ماننے والے احتجاج کریں یا تحقیق کرنے کیلئے کمیٹی بٹھائیں۔ مگر اس کو کیا کیا جائے کہ شعروں کی غلط تفہیم اور ترجمانی ہی ہماری روایت کا حصہ بن گئی ہے۔ احباب میں لطیفہ مشہور ہے کہ ایک صاحب خاص عمر کو پہنچنے کے باوجود شادی کرنے سے کترا رہے تھے۔ دوستوں نے ان کو دلاسہ دیا کہ کوئی مالی پریشانی ہو تو دور کردی جائے، کوئی جسمانی عذر ہو تو حکیم حاذق کے پاس لے چلیں۔ یہ مشورہ سن کر وہ صاحب چیخ پڑے کہ حکیم حاذق کے پاس جائیں ہمارے دشمن، ’’ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ ‘‘  اپنے مصرع کی یہ تشریح یا یہ استعمال دیکھتے تو اقبال خود کشی کرلیتے مگر وہاٹس ایپ پر ان دنوں جس قسم کی شاعری مقبول ہے یا سیاسی جلسوں میں جس قسم کے اشعار پڑھے جارہے ہیں وہ بیشتر اسی قسم کے ہیں۔ عوامی مشاعروں کا حال بھی کچھ اچھا نہیں ہے۔ کچھ لوگ مذہبی معتقدات پر حملے کررہے ہیں کہ بڑے شاعر سمجھے جائیں، کچھ لوگ شعر نہ سمجھنے اور شعر فہمی کی صلاحیت سے محروم ہونے کے باوجود شعروں کے وہ مفہوم اخذ کررہے ہیں جو صرف ان کے ذہن میں ہیں۔ یہ دونوں ہی روش غلط ہے۔ ایک فرانسیسی نقاد نے بہت اہم بات کہی ہے کہ جب کوئی شاعر (یا متشاعر) خدا کو اپنی بری شاعری (یا تک بندی) کا موضوع بناتا ہے تو اس کو سن کر خود پسند ملحد بھی کانپ اٹھتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ شاعری کے فن، مزاج اور زبان سے واقفیت نہ ہونے کے باوجود یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اور پھر اپنی کم فہمی اور کج فہمی کا ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔ اچھی شاعری اس خیال کا خوبصورت اظہار ہے جو سوچا تو بارہا گیا مگر پہلے اظہار کا وہ قالب نہ اختیار کرسکا جو اب اسے نصیب ہوا ہے۔
 اقبال اور فیض دونوں نے خوبصورت خیال کو خوبصورت پیرایۂ اظہار عطا کیا ہے مگر اس خوبصورتی سے ذہن و روح کو غذا اور طبیعت کو انشراح فراہم کرنا شاید ان کا مقصد بھی نہیں تھا جو اس کے حقیقی مفہوم تک پہنچے ہیں اور کور ذوق ہونے کے سبب نہ ہی پہنچنا چاہتے تھے۔ اس لئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’ شعر فہمی کا یہ انداز، لاحول ولاقوۃ‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK