Inquilab Logo Happiest Places to Work

آپؐ کی حیاتِ مبارکہ وہ کتاب ہے جس کا مطالعہ ہر ایک کیلئے باعث ِہدایت وروشنی ہے

Updated: May 10, 2025, 3:38 PM IST | Dr. Tabish Mehdi | Mumbai

رسول رحمت ﷺکی دعوت و اصلاح کی اولین خصوصیت یہ ہے کہ جو تعلیم آپ نے انسانوں تک پہنچائی، اس پر سب سے پہلے آپ نے خود لبیک کہا، اُسے اپنی زندگی میں شامل کیا اور اس کے ایک ایک جزو پر عمل کرکے دکھایا۔

Prophet Muhammad Pbuh saw and treated the entire life of a human being and every aspect of it as a unity and entity. Photo: INN
آپ ﷺنے انسان کی پوری زندگی اور اس کے ہرشعبے کو ایک وحدت اور اکائی کے طورپر دیکھا اور برتا ہے۔ تصویر: آئی این این

یہ بات ایک ناقابلِ تردیدحقیقت بن چکی ہے کہ اس وقت پوری انسانی تاریخ میں صرف رسولِ کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی زندگی کے حالات کامل صحت کے ساتھ موجود ہیں۔ آپ ﷺکی تایخ پیدئیش، جائے پیدائش، زمانۂ بعثت، ہجرت، غزوات اور وفات سمیت آپؐ سے متعلق ایک ایک بات اور ایک ایک عمل کو تاریخ و سیرت کی کتابوں میں محفوظ کیاگیا ہے۔ آپ ﷺپر نازل ہونے والی اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مجید حرف بہ حرف کسی بھی تبدیلی یا ترمیم کے بغیر لاتعداد سینوں میں بھی محفوظ ہے اور تحریری شکل میں بھی۔ آپؐ کی سیرتِ پاک تمام دنیا کے لئے قابلِ تقلید ورہ ہنمائی ہے۔ آپ ﷺکی حیاتِ مبارکہ ایک کھلی کتاب ہے۔ اس کامطالعہ کسی بھی فرق و امتیاز اور بھید بھاؤ کے بغیر ہر ایک کے لئے باعث ِ ہدایت و روشنی ہے۔ آپ ﷺکی سیرت کی یہ خصوصیت بالکل منفرد ہے کہ آپؐ نے جو بھی تعلیمات انسانوں کے سامنے پیش فرمائی ہیں، پہلے ان پر خود عمل فرمایاہے۔ بلکہ آپؐ کی تعلیمات کی تکمیل ہی اسی وقت ہوتی ہے، جب ان کا ثبوت آپؐ کی زندگی سے ملتاہے۔ اسی کو ہم شریعت کی اصطلاح میں سنت کہتے ہیں۔ چوں کہ سنت کو اسلامی شریعت میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے، اس لئے آپؐ کے ہرعمل اور ہرقول کو کامل تحقیق کے بعد احادیث کی کتابوں میں محفوظ کردیاگیاہے۔ تاکہ دنیا کے تمام انسان انھیں اپنے لئے شمع ہدایت و رہ نمائی بناسکیں۔ 
اس وقت ہمارے درمیان سب سے بڑا فتنہ من و توکا فرق ہے، قبائل اور برادریوں کابھید بھاؤ ہے۔ یہ ایک ایسا فتنہ ہے، جس سے ہمارا دنیوی اور دینی دونوں ارتقا متاثر ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اِن تمام چیزوں سے بلند ہوکر ہماری تخلیق فرمائی ہے۔ اس کے ہاں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس نے فرمایا:
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔ ‘‘ (الحجرات:۱۳)
قرآن مجید کی اس آیت سے صاف اور واضح طورپر یہی مفہوم سامنے آتاہے کہ جس نے دنیا میں اللہ سے ڈرکر زندگی گزاری، لین دین، معاملات، لباس، دین، سیاست، معیشت، معاشرت، انفرادیت اور اجتماعیت غرض کہ ہر پہلو سے اللہ کے خوف اور تقوے کو اپنا شعار بنایا، وہی سب سے زیادہ عظمت و فضیلت والا ہے۔ یہ آیت نازل فرماکر اللہ تعالیٰ نے ان ساری مصنوعی عظمتوں اور بلندیوں کی رسی کاٹ دی، جنھیں آج کے انسان نے سینے سے لگارکھاہے۔ اس نے تو بس تقوے اور پرہیزگاری کو شرف و بزرگی کامعیار بنایاہے۔ 
’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو پوری انسانیت کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ ‘‘ (سبا: ۲۸﴾)
قرآن مجید کی یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺرسولِ کائنات تھے، آپؐ صرف اہلِ عرب کے لئے دنیا میں نہیں مبعوث کئے گئے تھے اور نہ کسی ایک قوم یا خطے کے لئے آپؐ کو ہادی یا قائد بناکر بھیجاگیاتھا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کے انسانوں کے لئے بشیر و نذیر یا ہادی ورہبر بناکر مبعوث فرمایاتھا۔ پوری انسانیت کو سیدھار ستا دکھانا، انہیں ان کے خالق ومالک کی رضا و خوش نودی کی راہ پر چلانا اور گمراہی و بے راہ روی کی صورت میں اس کے عذاب سے ڈرانا اور اس کی وعیدیں سنانا آپؐ کے فرض منصبی میں شامل تھا۔ 
ایسی صورت میں ہم پر لازم ہے کہ ہم رسولِ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺکو اسی حیثیت سے دنیا کے انسانوں کے سامنے پیش کریں، جس حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی کتاب میں پیش فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں۔ ‘‘(الاحزاب:۴۰﴾)
قرآن مجید کی یہ آیت حضرت محمدمصطفیٰﷺ کو ہمارے سامنے ایک ایسے مصلح اور رسول کے طورپر پیش کرتی ہے، جس کی اصلاح و رہ نمائی کادائرہ تمام انسان ہیں۔ یہ دائرہ کار سال دو سال یا صدی دو صدی کے لئے نہیں قیامت تک کے لئے ہے۔ کسی بھی عہد یا کسی بھی خطّے اورعلاقے کا کوئی فرد اس دائرے سے خود کو باہر یا مستثنیٰ نہیں کرسکتا۔ 
رسولِ رحمت ﷺنے انسان کو اس کی زندگی کے ہرشعبے میں ہدایت ورہنمائی عطا فرمائی ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی شعبہ آپ ﷺکی عطا کردہ ہدایت و رہ نمائی سے محروم نہیں رہا۔ آپ ﷺنے انسان کی پوری زندگی اور اس کے ہرشعبے کو ایک وحدت اور اکائی کے طورپر دیکھا اور برتا ہے۔ اِسی اعتبار سے کسی فرق و امتیاز کے بغیر اس کو اپنی ہدایت و رہ نمائی کے نور سے روشن اور منور کیا ہے۔ 
رسول کریم ﷺنے اپنے تمام ماننے والوں کو اس بات پر خصوصیت کے ساتھ متوجہ کیاہے، بلکہ اسے ان کی عملی زندگی میں فرض کی حیثیت سے داخل کیا ہے کہ وہ تمام ابنائے آدم کو اچھائیوں کی طرف بلائیں اور برائیوں سے نفرت دلائیں اور روکیں۔ یہی وہ فرض ہے جسے ہم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے عنوان سے جانتے ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کایہ فریضہ ہم پر، آپ پر اور تمام مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے۔ یہ ایسا فریضہ ہے کہ اس سے روگردانی کرکے ہم مسلمان نہیں رہ سکتے۔ یہ فریضہ تمام امت محمدیہ ﷺکی زندگی کا مشن بن جانا چاہئے۔ جب تک اِس روئے زمین پر کوئی برائی موجود ہو، اپنے اِس مشن میں ہمیں مشغول و منہمک رہناہے۔ اِس فریضے کی ادائیگی میں کسی بھی قسم کی سستی یا کاہلی ہمارے لئے سخت خطرناک اور مہلک ہے۔ اس کی ادائی میں کسی بھی رشتے داری، قرابت یا میل محبت کا خیال نہیں روا رکھاجائے گا۔ 
انسان بنیادی طورپر ضرورت مند اور محتاج ہے۔ وہ زندگی کے کسی موڑ پر بھی اپنی اِس کمزوری سے آزاد نہیں ہے۔ خصوصاً دو ضرورتیں ایسی ہیں، جو اس کی زندگی کے لئے ناگزیر ہیں، ان سے بہ ہرحال اُسے سابقہ پیش آنا ہے۔ کسی بھی لمحہ ان سے وہ صرفِ نظر نہیں کرسکتا۔ ان میں پہلا درجہ وسائل و ذرائع کو حاصل ہے۔ وسائل و وذرائع کو انسانی زندگی میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ وسائل و ذرائع سے ہی انسان اپنی مادّی ضرورتیں پوری کرتاہے۔ یا یوں کہئے کہ وسائل و ذرائع سے انسان اپنے جسم اور روح کے رشتے کو باقی رکھ سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں دوسرا درجہ اُن ہدایات اور رہنمائیوں کو حاصل ہے، جن کی روشنی میں انسان اپنی اخلاقی، اجتماعی اور تمدنی زندگی کی تشکیل صحت مند اور مستحکم بنیادوں پر کرسکتا ہے۔ 
چوں کہ اللہ تعالیٰ ربّ کائنات ہے۔ سب کی حاجتیں اور ضرورتیں پوری کرنا اس کی ذمّے داری ہے اور وہ پوری کرتاہے، اِس لئے وہ انسان کی یہ دونوں ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ انسان کی اول الذکر ضرورت کی تکمیل کے لئے اس نے زمین و آسمان میں معیشت کے وسائل کا ایک ایسا خزانہ ودیعت فرمایا ہے، جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ انسان اِسی خزانے سے اپنی ضرورت وحاجت پوری کرتا ہے۔ پوری کائنات اسی سے اپنی ضرورت و حاجت کے مطابق فائدہ اٹھاتی ہے اور ہر چھوٹا بڑا انسان اسی سے فیض یاب ہورہاہے۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ آخرالذکر ضرورت کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی ہدایات و قوانین دے کر انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا، جنہوں نے انسانوں کو زندگی کی حقیقت اور اس کی قدر وقیمت سے روشناس کرایا، انہیں زندگی کی معنویت سمجھائی اور بتایاکہ زندگی کو کس طرح برتا یا گزارا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت انسانی زندگی کے ہر عہد اور ہر قرن میں جاری رہی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ کے آخری نبی حضرت مصطفیٰ ﷺ کو مبعوث فرماکر آپ پر دین کو مکمل کردیا۔ فرمایا:
’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو (بطور) دین پسند کر لیا۔ ‘‘ (المائدہ:۳﴾)
نبی اور سول دنیا میں اسی لئے تشریف لائے کہ وہ انسان کو عبد اور معبود کے رشتے سے آگاہ کریں، اللہ کی وحدانیت، رسول کی رسالت اور مرنے کے بعد کی زندگی سے باخبر کریں اور اُسے دنیا میں رہ کر صحیح اور سیدھی راہ پر چل کر زندگی گزارنے کے آداب سکھائیں۔ اللہ کا ارشاد ہے:
’’ہم نے اپنے رسول واضح نشانیاں دے کر بھیجے اور ان کے ساتھ قرآن ﴿کتاب ہدایت اور میزانِ عدل اتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔ ‘‘ (الحدید:۲۵﴾)
مزید ارشاد فرمایا:
 ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا۔ تاکہ وہ اس کو تمام نظامِ زندگی پر غالب کردے۔ ‘‘ (مضمون کا دوسرا حصہ آئندہ ہفتے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK