Inquilab Logo Happiest Places to Work

اللہ کی رَضا کے لئے جو کام کیا جائے وہ کائنات کی بہت خاص خبر بن جاتا ہے

Updated: July 05, 2025, 1:31 PM IST | Dr. Mohiuddin Ghazi | Mumbai

انسانی تاریخ کے حسین ترین مناظر میں ایک منظر وہ ہے جب بوڑھے ابراہیم علیہ السلام اور نوجوان اسماعیل علیہ السلام مل کر اللہ کے گھر کی تعمیر کررہے تھے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

انسانی تاریخ کے حسین ترین مناظر میں ایک منظر وہ ہے جب بوڑھے ابراہیم علیہ السلام اور نوجوان اسماعیل علیہ السلام مل کر اللہ کے گھر کی تعمیر کررہے تھے۔ اس وقت ان کے لبوں پر بڑی پیاری دعائیں جاری تھیں، جو زمین سے آسمان تک ہر شاہراہ کو معطر کیے ہوئی تھیں۔ ایمان ویقین سے روشن ان دعاؤں میں پہلی اور بہت پیاری دعا یہ تھی:
’’ہمارے ربّ ہم سے قبول فرمالے، بلاشبہہ تو سننے اور جاننے والا ہے۔ ‘‘ (رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا …الْعَلِيمُ)
تصور میں دیکھیں اور سوچیں اللہ کے دو عظیم پیغمبر بڑی آزمائشوں اور عظیم قربانیوں سے سرخرو ہو جانے کے بعد اللہ کے پہلے گھر کی تعمیر میں مصروف ہیں، اور اس وقت بھی سب سے زیادہ یہ فکر دامن گیر ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں ان کا یہ کام قبول ہوجائے۔ یہ کیسی روح پرور کیفیت ہے اور اس میں اچھے کام کرنے والوں کے لئے کیسی گہری نصیحت ہے۔ جب رحمان کے خلیل کو رحمٰن کے گھر کی تعمیر جیسے عظیم کام کے قبول ہونے کی اتنی زیادہ فکر ہے تو عام انسانوں کو دین کے چھوٹے بڑے سب کام کرتے ہوئے قبولیت کی کتنی زیادہ فکر رہنی چاہئے۔ 
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے تو تمام کام اخلاص کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ قبولیت کی فکر تقاضا کرتی ہے کہ کام کا مقصود صرف اللہ کی رضا ہو اور اس میں کسی کے لئے کوئی حصہ نہیں ہو۔ سوشل میڈیا کے اس زمانے میں، جب کہ ہر شخص کے لئے اپنی کارکردگی کی خبر عام کرنا آسان ہوگیا ہے، اخلاص کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ برائی اس میں نہیں ہے کہ آپ کا کام خبر بن جائے، لیکن برائی اس میں ضرور ہے کہ خبر بنانا ہی کام کا مقصد بن جائے، اور اس طرح پستی کی طرف رخ ہونے کی وجہ سے کام کی خبر آسمان پر جانے کے بجاے زمین کی پستیوں میں ہی بکھر کر رہ جائے۔ حضرات ابراہیم ـؑاور اسماعیلؑ نے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کے یہاں قبول ہوجانے کے لئے تعمیر کعبہ کا کام کیا اور اللہ نے اسے قیامت تک کی سب سے زیادہ پڑھی اور سنی جانے والی خبر بنادیا۔ 
واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے جو کام کیا جائے وہ کائنات کی بہت خاص خبر بن جاتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کام خبر بننے کے لئے نہیں بلکہ رب خبیر کے یہاں قبول ہونے کے لئے کیا جائے۔ 
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے، تو اچھے کام کرتے ہوئے دل میں یہ جذبہ جوان رہتا ہے کہ مشکل سے مشکل کام میرے حصے میں آجائے۔ ٹیم میں کچھ لوگ جسمانی طور سے کمزور ہوسکتے ہیں، کچھ کی قوت کار کم ہوسکتی ہے، اور کچھ کی مدت کار تھوڑی ہوسکتی ہے، ایسے میں پوری ٹیم کو قوت ان سے ملتی ہے جو بڑے بڑے بوجھ اٹھانے کے لئے خود کو پیش کرتے ہیں، جنہیں آرام سے بے رغبتی اور کام کا جنون ہوتا ہے، جنہیں مال غنیمت کا شوق نہیں ہوتا ہے بلکہ جامِ شہادت سے عشق ہوتا ہے۔ قبیلہ نخع کے لوگ قادسیہ کے معرکے میں شریک ہوئے اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کام آگئے۔ حضرت عمرؓ نے خبر لانے والوں سے پوچھا، نخع کے لوگ کیوں زیادہ شہید ہوئے؟ کیا دوسرے انہیں محاذ پر تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے؟ انہوں نے وضاحت کی: ’’دراصل ہوا یہ کہ نخع والوں نے اہم ترین محاذ آگے بڑھ کر خود سنبھال لئے تھے۔ ‘‘ (الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ج۱، ص ۱۹۶)جو مشکل کام اپنے ذمے لیتا ہے، اسی کو تکان زیادہ ہوتی ہے، پسینہ بھی اسی کا زیادہ بہتا ہے، چوٹیں بھی اسے ہی زیادہ آتی ہیں، لیکن وہی پوری ٹیم کے لئے جوش اور طاقت کا سرچشمہ بن جاتا ہے اور اسی کو دیکھ کر دوسروں کو کام کرنے کا حوصلہ اور توانائی ملتی ہے۔ 
 قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے، تو آدمی شہرت اور ناموَری سے بہت اوپر اُٹھ جاتا ہے۔ اسے اس کی فکر نہیں ہوتی کہ اخبار میں اس کا فوٹو نہیں چھپا، لوگوں کو اس کے کارنامے معلوم نہیں ہوئے، اسے انعام واسناد سے نوازا نہیں گیا، فکر تو اسے بس یہ رہتی ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں وہ مقبول قرار پا جائے۔ اور یہی تو اصل کامیابی ہے۔ اس عظیم کامیابی کے سامنے کسی اعتراف اور کسی انعام کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک معرکے کے بعد قاصد خبر لے کر حضرت عمرؓ کے پاس پہنچا۔ آپؓ نے پوچھا معرکے میں کون کون کام آگیا؟ اس نے کچھ خاص خاص لوگوں کے نام بتائے، پھرکہا کچھ اور لوگ بھی کام آگئے جنہیں امیر المومنین نہیں جانتے ہیں۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ رونے لگے، اور کہنے لگے: ’’امیر المومنین انہیں نہیں جانتا تو اس میں ان کا کیا نقصان ہے، اللہ تو انہیں جانتا ہے، اس نے تو انہیں شہادت کے اونچے مقام پر فائز کردیا ہے، اور عمر کے جان لینے سے ان کا کیا بھلا ہوگا۔ ‘‘ (البدایۃ والنہایۃ، ابن کثیر، ج۷، ص ۱۲۶) جو اللہ کی قدر پہچانتے ہیں، وہ اسی کو کافی سمجھتے ہیں اور اسی کو ضروری بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کے عمل کو قبول کرلے۔ 
قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے تو کام کا معیار بلند رکھنے کا شوق بھی بڑھ جاتا ہے۔ قبولیت کی طلب کام کے حسن پر ذرا سی بھی آنچ آنا گوارا نہیں کرتی۔ اسے پورا یقین ہوتا ہے کہ جب اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کے لئے کام کیا جائے تو کام بھی شایان شان ہونا چاہئے اور اس میں کوئی نقص نہیں ہونا چاہئے۔ ایک بدو سے جب زکوٰۃ وصول کرنے والے نے اس کے تمام اونٹوں کو شمار کرکے ایک سال کا اونٹنی کا بچہ مانگا، تو اس نے کہا :’’اللہ کے راستے میں اس سے کیا ہوگا، نہ دودھ دے، نہ سواری کے کام آئے، پانچ سال کی تیار اور تنومند اونٹنی لے کر جاؤ۔ ‘‘ شعور اور ذوق کی اس بلندی پر پہنچنے کیلئے بس یہ جذبہ کافی ہوتا ہے کہ میرا مقصود اللہ ہے، اسی کے سامنے اعمال کو پیش ہونا ہے، اس لئے میرا ہر عمل اونچی شان والا ہونا چاہئے۔ 
قبولیت کی سچی طلب ہر اچھے کام کو تکمیل تک پہنچانے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ یہ طلب اس وقت بے مثال تازگی عطا کرتی ہے، جب تھکن کی شدت سے جسم چور ہوجاتا ہے اور حوصلے جواب دینے لگتے ہیں۔ دل میں شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم اتنے ہی کے مکلف تھے، اب باقی کام کوئی اور کرلے گا یا کسی دوسرے وقت ہوجائے گا۔ لیکن جب قبولیت کی جستجو انگڑائی لیتی ہے تو حوصلوں کو جِلا مل جاتی ہے اور جسم کو نئی توانائی حاصل ہوجاتی ہے۔ جب یہ دھن سوار ہو کہ اللہ کی بارگاہ میں یہ کام قبول ہوجائے تو پھر اس کام کو ادھورا کب کیلئے اور کس کے لئے چھوڑا جائے۔ 
 اللہ کی عظمت پر ایمان رکھنے والے اچھے کاموں کو قابل قبول بنانے کی ہر کوشش کرتے ہیں، اور ان کے قبول ہوجانے کی دُعا کرتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK