شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) انشورنس ایجنسی اور آمدنی (۲) صلوٰۃ الحاجہ کی سورہ اور دعا (۳) تکبیر و اذان کا ایک مسئلہ اسلام (۴) رات کے وقت برتنوں کو ڈھکنا۔
EPAPER
Updated: July 05, 2025, 1:14 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai
شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) انشورنس ایجنسی اور آمدنی (۲) صلوٰۃ الحاجہ کی سورہ اور دعا (۳) تکبیر و اذان کا ایک مسئلہ اسلام (۴) رات کے وقت برتنوں کو ڈھکنا۔
انشورنس ایجنسی اور آمدنی
میں جہاں مقیم ہوں وہاں ایک انشورنس ایجنسی کا آغاز کرنا چاہتا ہوں، جہاں میں کمرشیل انشورنس (بالخصوص ٹرکوں اور کاروباری گاڑیوں کے لئے) فروخت کروں گا۔ اس قسم کی انشورنس حکومت کی طرف سے قانونی طور پر لازم ہے، اور میں بطور ایجنٹ یا بروکر کام کروں گا، جو ڈرائیورس کو مناسب کوریج حاصل کرنے میں مدد دے گا۔ اس کام کے بدلے مجھے انشورنس کمپنیوں سے کمیشن ملے گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب یہ انشورنس قانونی طور پر لازمی ہو اور کوئی اسلامی (تکافل) متبادل موجود نہ ہو، تو کیا ایسی انشورنس ایجنسی کو چلانا اور اس سے کمائی حاصل کرنا اسلام میں جائز (حلال) ہے؟ عبد اللہ، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: انشورنس، ربوا اور قمار (سود اور جوا)پر مشتمل ایک خالص غیر شرعی معاملہ ہے۔ لائف انشورنس ہو یا کوئی اور انشورنس ان مفاسد سے کوئی بھی خالی نہیں۔ علماء اس کے متعدد پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑی قیمتی بحثیں کرچکے ہیں۔ اس کا موجودہ نظام جو خالص کاروباری اور ربوا وقمار پر مشتمل نظام ہے، اس میں قدرے تغیر کرکے جواز کے دائرے میں لانے کی تجاویز بھی موجود ہیں مگر اس پر پوری طرح عمل درآمد تاہنوز ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ کچھ حضرات نے بعض صورتوں میں اجازت کا عندیہ بھی دیا ہے لیکن بر صغیر کے اکثر علماء مذکورہ مفاسد کی بنا پر تا ہنوز عدم جواز ہی کے قائل ہیں اور بیمہ یا اس میں تعاون کو سختی سے منع کرتے ہیں اس لئے جواز کی مطلقاً اجازت دشوار ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ کوئی دوسرا کاروبار شروع کریں اور ایسی کسی ایجنسی کا خیال ذہن سے نکال دیں ۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
صلوٰۃ الحاجہ کی سورہ اور دعا
کیا صلوٰۃُ الحاجات میں پڑھنے کی کوئی خاص سورہ اور دعا آپؐ سے ثابت ہے؟ اگر ہو تو بتائیے نیز دو سجدوں کے درمیان میں کون سی تسبیح پڑھنا چاہئے؟ محمد دانش، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صلوٰۃ الحاجہ بھی عام نفل نمازوں کی طرح ہے جو اس نیت سے پڑھی جاتی ہے کہ اس کے بعد اپنے کسی مقصد کے حصول کے لئے اللہ سے دعا کی جائے۔ صلوٰة الحاجہ کا ثبوت حدیث شریف سے ملتا ہے۔ ترمذی شریف کی ایک روایت کے مطابق جب بندے کو کوئی ضرورت درپیش ہو تو وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے اسکے بعد اللہ کی حمد وثنا کرے اسکے بعد درود شریف پڑھ کر یہ دعا کرے : لاالہ الااللہ الحلیم الکریم …رضا الا قضیتہ (الخ)
اس کے بعد اپنے مقصد کیلئے یکسوئی اور حضور قلب کے ساتھ دعا مانگے اصولاً یہ بھی دوسری نمازوں کی طرح ہے لہٰذا سورہ فاتحہ کے بعد کوئی بھی سورہ پڑھ سکتے ہیں۔
دونوں سجدوں کے درمیان رب اغفرلی پڑھ سکتے ہیں اور رب اغفرلی کے ساتھ وارحمني وعافنی واھدنی وارزقني کا اضافہ بھی کئی روایت میں منقول ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
تکبیر و اذان کا ایک مسئلہ اسلام
کیا تکبیر میں حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاح میں اذان کی طرح منہ پھیرے یا نہیں نیز اگر اذان دیتے وقت مؤذن کا چہرہ قبلہ رخ نہ ہو تو کیا اذان معتبر شمار کی جائے گی ؟بدرالاسلام، کلکتہ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: اذان اور اقامت کے کلمات تقریباً یکساں ہیں لیکن اقامت میں حی علی الصلاة حی علی الفلاح کے بعد دومرتبہ قدقامت الصلوٰة کا بھی اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ اقامت کے کلمات اذان کی طرح بآواز بلند اور ٹھہر ٹھہر کر نہیں کہے جاتے۔ اذان میں حی علی الصلوٰة اورحی علی الفلاح کہتے ہوئے دائیں اور بائیں چہرہ گھمانے کا ذکر تو حدیث شریف میں موجود ہے لیکن اقامت کے دوران ان مواقع پر چہرہ گھمانے کا ذکر نہیں ہے، اس وجہ سے بھی اذان واقامت کے کلمات کی ادائیگی کی کیفیات بھی الگ الگ ہیں۔
بعض فقہاء نے اقامت میں چہرہ گھمانے کو مستحب نہیں سمجھا لیکن کئی علماء نے اذان اور اقامت کی یکسانیت کے مدنظر اذان کی طرح اقامت میں بھی حی علی الصلوٰ ة حی علی الفلاح کہتے ہوئے دائیں بائیں چہرہ گھمانے کو بہتر سمجھا ہے (کما فی الدر المختار) اس لئے اقامت میں بھی تحویل وجہ میں چنداں حرج نہیں لیکن اگر کسی نے ایسا نہ کیا تو اس پر نکیر بھی نہیں اس لئے یہ ایسا مسئلہ نہیں کہ اسے موضوع بحث بنایا جائے ۔ مؤذن کا چہرہ دوران اذان قبلہ رخ ہو، یہ مستحب اور اذان کے آداب میں سے ہے نیزعہد رسالت سے آج تک یہی امت کا متوارث طرز عمل بھی ہے اس لئے اس کی خلاف ورزی سنت کے خلاف اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ مقصد کے حصول کی بنا پر اذان تو ہوجائیگی لیکن کراہت تنزیہی کا حکم ہوگا (کمافی البحر)۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
رات کے وقت برتنوں کو ڈھکنا
کیا رات کے وقت برتنوں کو ڈھکنے کے سلسلے میں حدیث پاک میں کوئی ہدایت آئی ہے ؟ محمد اکرم، بھیونڈی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: حدیث شریف میں رات کے وقت برتنوں کو ڈھکنے اور خالی برتنوں کو الٹا رکھنے کا حکم ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ڈھکے ہو ئے برتن میں شیطان داخل نہیں ہو تا۔ جدید تحقیق کے مطابق برتنوں میں جراثیم بآسانی داخل ہو جاتے ہیں، اس لئے ان کا ڈھک کر رکھا جانا ہی بہتر عمل ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم