Inquilab Logo

بورس جانسن کا عبرت ناک انجام

Updated: July 13, 2022, 11:35 AM IST | Agency | Mumbai

جانسن کا عروج اور زوال دونوں ناقابل یقین لگتے ہیں۔ صحافت کی دنیا سے سیاست کی دنیا کا اتنا کامیاب سفر جانسن کے علاوہ کسی اور نے نہیں کیا ہوگا۔ جانسن نے ٹائم، ڈیلی ٹیلیگراف اور سپیکٹیٹر جیسے روزناموں میں بیس سال تک صحافت کرنے کے بعد عملی سیاست میں قدم رکھا۔

Boris Johnson.Picture:INN
بورس جانسن۔ تصویر: آئی این این

بورس جانسن نے استعفیٰ گرچہ سات جولائی کو دیا لیکن وہ اقتدار کی جنگ ایک ماہ قبل ہی ہار چکے تھے۔ کنزرویٹو پارٹی کے اندر اپنے سربراہ کے خلاف بڑھتی بے اعتمادی جب بغاوت میں تبدیل ہونے لگی تو ۶؍ جون کو پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ لیا گیا۔ جانسن نے ۶۳؍ووٹوں کی برتری سے اپنی وزارت عظمیٰ تو بچالی تھی لیکن سیاسی مبصرین نے یہ پیشن گوئی کردی تھی کہ ان کی حکومت کے دن اب گنتی کے رہ گئے ہیں۔ جس قائد کے خلاف ۱۴۸؍ ارکان نے ووٹ ڈالے ہوں بھلا اس کو قیادت کا کوئی اخلاقی جواز کہاں رہ جاتا ہے لیکن جانسن میں اخلاقیات نام کی چیز کا وجود ہی کہاں تھا؟ جانسن کی اخلاقی تنزلی ہی ان کی سیاسی تنزلی کی اہم وجہ بنی۔ جانسن کا عروج اور زوال دونوں ناقابل یقین لگتے ہیں۔ صحافت کی دنیا سے سیاست کی دنیا کا اتنا کامیاب سفر جانسن کے علاوہ کسی اور نے نہیں کیا ہوگا۔ جانسن نے ٹائم، ڈیلی ٹیلیگراف اور سپیکٹیٹر جیسے روزناموں میں بیس سال تک صحافت کرنے کے بعد عملی سیاست میں قدم رکھا۔ ۲۰۰۱ء  میں پہلی بار پارلیمنٹ کا الیکشن جیتنے کے بعد انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ دو بار لگاتار لندن کے میئر بھی بنے اورایک بار برطانیہ کے وزیر خارجہ بھی۔ کنزرویٹو پارٹی میں آج وہ انتہائی ناپسندیدہ شخص بن گئے ہیں لیکن صرف تین سال قبل ان کی مقبولیت آسمان کی بلندیوں پر تھی۔ مارگریٹ تھیچر کے  بعد ۲۰۱۹ء  میں جانسن کی قیادت میں جب کنزرویٹوپارٹی نے عام انتخابات میں کئی دہائیوں بعد بھاری اکثریت حاصل کی توپارٹی اور حکومت دونوں پر ان کی گرفت بے حد مستحکم ہوگئی لیکن ان کو یہ گمان بھی ہوگیا کہ یہ پارٹی کی نہیں ان کی ذاتی کامیابی ہے۔ اس کے بعد ان کے طرز عمل میں آمریت جھلکنے لگی۔ممکن ہے ان کی شخصیت میں شاہانہ رعونت ان کے ترکی ا لنسل ہونے کی وجہ سے ہو۔ جانسن سلطنت عثمانیہ کے آخری وزیر تعلیم علی کمال کے پڑپوتے ہیں۔یہ الیکشن انہوں نے بریگژٹ(یورپی یونین سے برطانیہ کی علاحدگی) کے نعرے پر لڑا تھا۔  پچھلے چند ماہ میں جانسن کی حکومت مختلف تنازعات میں گھرتی چلی گئی اور وہ خود اپنے اعمال اور بیانات کی جال میں پھنستے چلے گئے۔ کورونا سے برطانیہ میں دو لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور خود وزیر اعظم بھی اس موذی وائرس کے ہاتھوں مرتے مرتے بچے۔ جب وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ اور دفتر میں لاک ڈاؤن کے دوران پارٹی منعقد کرنے کی رپورٹیں منظر عام پر آئیں تو برطانوی عوام میں جنہوں  نے ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۱ء میں کئی ماہ تک گھروں میں بند رہ کر سرکاری احکام کی پابندی کی تھی، شدید ناراضگی پھیل گئی اوروہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرنے لگے۔جانسن نے سختی سے ان الزامات کی تردید کی لیکن جب ایسی تصاویر شائع ہوگئیں جن میں جانسن خود جام تھامے ہوئے نظر آرہے ہیں تو ان کی چوری پکڑی گئی۔  جب تنقیدیں تیز ہونے لگیں تو حکومت نے ایک سینئر بیوروکریٹ  ’سوگرے ‘ کو اندرونی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی۔ سونے اپنی جانچ  میں ۱۰؍ ڈاؤننگ اسڑیٹ میں سرکاری عہدے داروں کے ذریعہ کووڈ کے ضابطوں کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو درست پایا اور انہوں نے اس کی ذمہ داری وزیر اعظم پر ڈال دی۔ راتوں رات جانسن کی مقبولیت کا گراف گرنے لگا۔ان کوہٹانے کی مہم جنوری میں ہی شروع ہوگئی تھی لیکن فروری کے اواخر میں روس نے یوکرین پر چڑھائی کرکے جانسن کو آکسیجن فراہم کردیا۔ جانسن کے نزدیک سیاسی مقصدآوری کے لئے سب کچھ جائز ہے اس لئے انہوں نے اس جنگ کو بھی اپنے مفاد کے لئے پوری طرح استعمال کیا۔روسی جارحیت کے خلاف مزاحمت میں جس سربراہ مملکت نے بائیڈن سے بھی زیادہ یوکرین کی معاشی، فوجی اور اخلاقی مدد کی وہ جانسن تھے۔ انہوں نے دو بار یوکرین کا دورہ کرکے صدر زیلینسکی کو جنگ جاری رکھنے کی صلاح دی۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا جانسن کو احساس ہونے لگا کہ پانسہ الٹاپڑگیا ہے اور روس پر پابندی لگا کر یورپ اور امریکہ نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی نے نصف صدی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے، پیٹرول، گیس اور غذائی اجناس کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اور کساد بازاری کا خطرہ منڈلارہا ہے۔ کورونا اور جنگ کی وجہ سے برطانیہ کی معیشت سنگین بحران کے دہانے پر پہنچ گئی ہے۔ ماہرین اور عوام اب یہ سوچنے پر بھی مجبور ہورہے ہیں کہ بریگژٹ کا فیصلہ شاید برطانیہ کے مفاد میں نہیں تھا۔جانسن کے خلاف غم و غصہ بڑھ رہا تھاکہ اچانک خبر آئی کہ جانسن نے اپنے ایک دوست کرس پنچر کو اس کی جنسی بے راہروی سے واقف ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کا چیف وھپ بنادیا۔ اس کے بعد تو جانسن کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان ہوگیااور دو دنوں کے اندر کنزرویٹو پارٹی کے اہم وزراء سمیت پچاس ارکان پارلیمنٹ مستعفی ہوگئے۔ جانسن اس وقت تک کارگذار وزیر اعظم رہیں گے جب تک ان کا جانشیں منتخب نہیں ہوجاتا ہے۔ جانسن کے عبرتناک انجام کا اہم پہلو یہ ہے اس کے پیچھے حزب اختلاف لیبر پارٹی کا ہاتھ نہیں تھا۔ ان کو اپنی پارٹی کے ارکان کی بغاوت کی وجہ سے اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا۔ جانسن کے زوال کے اسباب کی فہرست میں یوں تو سیکس اسکینڈلز اور شراب و کباب کی پارٹیاں اور سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش پر لاکھوں پونڈز کے اخراجات بھی شامل ہیں لیکن میری رائے میں جس لغزش کی وجہ سے نہ صرف برطانوی عوام اور میڈیا بلکہ کنزرویٹو پارٹی کے اعلیٰ عہدے دار بھی ان سے برگشتہ ہوگئے وہ ہے جانسن کی اخلاقی کج روی اور دروغ گوئی۔برطانوی عوام اپنے وزیر اعظم میں قائدانہ صلاحیتوں کے علاوہ دیانت داری، شرافت، شائستگی اوراخلاقی اقداربھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ جانسن میں ان کی بے حد کمی ہے۔ برطانوی سیاست میں اعلیٰ کردار کو اور سچائی کو بے حد اہمیت دی جاتی ہے اورجانسن کے کردار میں دونوں عناصر عنقا تھے۔ گارجین کے مطابق وہ نہ صرف serial liar ہیں بلکہ’’جھوٹ اور فریب کا اوتار‘‘ ہیں جسے کنزرویٹو پارٹی نے ملک پر مسلط کردیا تھا۔
  اگر ہم برطانیہ کے سیاسی بحران کا تجزیہ ترقی پذیر ممالک خصوصاً جنوبی ایشیا کے تناظر میں کریں گے تو ہمیں جانسن کی لغزشیں معمولی لگیں گی۔  کورونا کی دوسری لہر کے دوران بھی جب روزانہ ہزاروں اموات ہورہی تھیں وطن عزیز میں سیاسی لیڈران لاکھوں کا مجمع لگاکر انتخابی بھاشن دے رہے تھے۔ اب رہی بات جھوٹ کی تو ہم لوگ اسے کوئی برائی سمجھتے ہی نہیں ہیں یہ تو سیاست کا جز لاینفک ہے اور ویسے بھی ہم اسے جھوٹ نہیں انتخابی جملہ کہتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK