Inquilab Logo

رزق ِ حلال اور حرام، دونوں انسانی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں

Updated: February 24, 2023, 12:08 PM IST | Shireen zada | Mumbai

آج اگر دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں، اخلاص و یکسوئی کے باوجود عبادات میں لطف و سُرور محسوس نہیں ہوتا، معاشرہ روحانی ابتری اور اخلاقی تنزل کا شکار ہے تو اس کا ایک بنیادی سبب رزقِ حلال میں محتاط رویہ نہ اپنانا ہے۔

If a person lives a righteous life with the observance of halal and tayyab sustenance, then it is as if he nurtured the beauty of this world and the beauty of the hereafter as well.
اگر کوئی شخص رزقِ حلال و طیب کی پابندی کے ساتھ عمل ِ صالح میں زندگی گزارتا ہے، تو گویا اس نے حسنہ ٔ دنیا کو بھی پالیا اور حسنۂ آخرت کو بھی


غذا تمام جانداروں بشمول انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ اگر غذا صحیح، متوازن اور اچھی ہو تو اس کے اثرات دیگر انسانی صحت پر بھی اچھے مرتب ہوں گے۔ اس کی نشوونما اچھی اور جسم تندرست و توانا ہوگا۔ وہ امراض و عوارض اور موسم کی سختیوں کو اچھی طرح جھیلے گا لیکن غذا اگر ناقص اور غیرمتوازن ہوگی تو اس کے نتائج بھی اسی طرح ظاہر ہوں گے۔
عام جانداروں اور انسانی غذا میں سب سے اہم اور بنیادی فرق حلال و حرام کا ہے۔ عام جاندار جیسے نباتات، حشرات، حیوانات وغیرہ حلال و حرام کی حدود سے ماورا ہیں لیکن انسان اشرف المخلوقات ہے اس لئے اچھی اور متوازن غذا کے ساتھ اس کا حلال ہونا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جس طرح غیرمتوازن اور ناقص غذا کے منفی اثرات انسانی صحت پر پڑتے ہیں، بالکل اسی طرح رزق حرام کے منفی اثرات بھی انسانی روح اور قلب پر پڑتے ہیں۔ اس کی روحانی اور قلبی نورانیت کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ روحانی طور پر کمزور اور بیمار پڑتا ہے۔ اس میں بُرائیوں کے خلاف قوت مدافعت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ وہ غلط کاموں کی طرف جلد راغب ہوجاتا ہے۔ حرام غذا کے اثرات کی وجہ سے انسان ذہنی اور قلبی ابتری کا شکار ہوجاتا ہے۔
رزقِ حلال کی اہمیت و برکات
قرآن حکیم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رزقِ حلال کی بہت تاکید کی ہے۔ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین نے لقمۂ حرام سے پرہیز کی یادگار مثالیں رقم کی ہیں۔ ان کی زندگیاں قرآن اور حدیث کی عملی تفسیریں تھیں۔ سورئہ بقرہ میں ارشاد خداوندی ہے:’’ لوگو! جو چیزیں زمین میں حلال و طیب ہیں، وہ کھائو۔‘‘(بقرہ :۱۶۸)
دوسری جگہ ارشاد ہے
’’اے پیغمبرو ؑ! پاکیزہ چیزیں کھائو اور عملِ نیک کرو۔‘‘ (المومنون :۵۱) 
کتاب و سنت میں رزقِ حلال اختیار کرنے اور پاکیزہ غذا کھانے پر اس لئے زور دیا گیا ہے کہ غذا کا اثر انسان کے قلب و دماغ پر پڑتا ہے۔ اس کا اثر انسان کے جذبات پر پڑتا ہے۔ اس کا اثر اولاد پرپڑتا ہے۔ اس کا اثر انسان کے اعمال پر پڑتا ہے۔ رزقِ حلال کے طفیل دل میں رقت و لطافت پیدا ہوتی ہے، یا دل وحشت سے لبریز ہو جاتا ہے۔ اس میں شکر و صبر اور استغفار کے جذبات پرورش پاتے ہیں۔ ذہن و دماغ میں پاکیزہ خیالات جنم لیتے ہیںاور انوار کی بارش محسوس ہوتی ہے ۔ اگر رزق حرام ہوگا تو معاملہ اس کے برعکس ہوگا۔ نور کے بجاے ظلمت دل و دماغ پر چھا جائے گی۔ نیکی اور قبولِ ہدایت کی صلاحیت اور استعداد ختم ہوجائے گی۔ دل اور دماغ پر منفی اثرات غالب آئیں گے۔
اگر کوئی شخص رزقِ حلال و طیب کی پابندی کے ساتھ عمل ِ صالح میں زندگی گزارتا ہے، تو گویا اس نے حسنہ ٔ دنیا کو بھی پالیا اور حسنۂ آخرت کو بھی! مذکورہ آیت (مومنون:۵۱) میں مختصر سے کلمے میں یہ نمایاں اشارہ موجود ہے کہ پاکیزہ روزی یا حلال رزق کے بغیر اعمالِ حسنہ اور اخلاقِ عالیہ کا ہونا ممکن نہیں، اور اسی طرح اعمالِ حسنہ یا اخلاقِ حسنہ سے جس شخص کی زندگی خالی ہو، یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے دامنِ معیشت کو حرام کی آلائشوں سے بچائے گا اور رزقِ حلال کمانے کیلئے غیرمعمولی جہدومشقت کرے گا۔ حضوؐر نے بروایت عبداللہؓ بن مسعود فرمایا کہ رزقِ حلال کا کسب فرض ہے۔ 
امام غزالیؒ کیمیائے سعادت میں لکھتے ہیں کہ غذا سے بدن کا گوشت اور خون پیدا ہوتا ہے۔ پس اگر غذا حرام ہو تو اس سے قساوت، یعنی سختی پیدا ہوتی ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ عبادت کے ۱۰ جز ہیں۔ ان میں نو کا تعلق رزقِ حلال سے ہے۔
طبرانی کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے کھڑے ہوکر عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے لئے دُعا کیجیے کہ اللہ مجھے مستجابُ الدعوات بنا دے۔ آپؐ نے فرمایا: اے سعد! اپنی خوراک کو پاکیزہ کرلو، تمہاری دعائیں قبول ہونے لگیں گی۔
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐنے فرمایا: بلاشبہ کسی جان کو اس وقت تک موت نہ آئے گی جب تک کہ وہ اپنا رزق پورا نہ کرلے۔ خبردار! اللہ سے ڈرو اوررزق طلب کرنے میں احسن طریقہ اختیار کرو۔ رزق کا دیر میں ملنا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے ذریعے رزق طلب کرو، کیوںکہ جو کچھ ہے اللہ کے پاس ہے۔ (مشکوٰۃ)
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جلد از جلد آگے بڑھنے کی حرص میں مشیت الٰہی کا انتظار نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دل و دماغ کو حرام کا چسکا لگ جاتا ہے اور پھر ہمارا مزاج اس قدر بگڑجاتا ہے کہ وہ حلال غذا قبول ہی نہیں کرتا۔ بالکل اس بیمار کی طرح جو ہاضمے کی خرابی کے باعث اچھی غذا کو ہضم نہیںکرسکتا اور ہم بابِ رحمت خود اپنے ہاتھوں سے اپنے اُوپر بند کرواد یتے ہیں۔
امام غزالیؒ لکھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص متواتر حلال روزی کھاتا ہے جس میں حرام کی آمیزش نہ ہو، حق تعالیٰ اس کے دل کو پُرنور کردیتا ہے اور حکمت کے چشمے اس کے قلب سے جاری کردیتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ تو یہاں تک نماز پڑھے کہ پیٹھ ٹیڑھی ہوجائے اور اس قدر روزے رکھے کہ بال کی طرح باریک ہوجائے، اس کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ یہ قبول ہوں گے جب تک حرام سے پرہیز نہ کرے۔
حضرت تُستریؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص حرام کھاتا ہے اس کے عضو گناہ میں پڑتے ہیں خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے جبکہ جو شخص حلال کھاتا ہے اس کے تمام اعضاء اطاعت میں رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسے خیر کی توفیق دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں نے رزق کے معاملے میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے۔ (کیمیائے سعادت)
اسلاف کا طرزِعمل
 حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ایک غلام تھا جو ان کی زمین کا محصول (خراج) وصول کرتا تھا۔ اس نے ایک دفعہ کھانے کی کوئی چیز آپؓ کو دی جسے آپؓ نے تناول فرمایا۔ اس کے معاً بعد آپؓکو خیال آیا اور غلام سے پوچھاکہ یہ کہاں سے ملی تھی؟ غلام نے کہا کہ زمانۂ جاہلیت میں مَیں نے ایک آدمی کے لئے کہانت کہی تھی حالانکہ کہانت کا مجھے کوئی ڈھنگ نہیں آتا تھا۔ بس اسے بے وقوف بنایا۔اب اس شخص سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے یہ چیز مجھے دی تھی جو میں نے آپؓ کو تناول کیلئے دی ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے منہ میں انگلی ڈال کر قے کردی۔
یہ روایت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی دینی احتیاط، تقویٰ اور رزقِ حلال کے بارے میں انتہائی محتاط رویے کی واضح مثال ہے۔ قے کے باوجود آپؓ نے توبہ و استغفار کی اور دُعا مانگی: اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس قدر غذا کیلئے جو میری رگوں میں رہ گئی ہے۔(ایضاً)
lخلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓکی خدمت میں ایک دفعہ دودھ پیش کیا گیا۔ آپؓ نے دودھ تو پی لیا مگر اس کا ذائقہ کچھ عجیب سا لگا۔ 
آپؓ چونک اُٹھے اور پوچھا: یہ دودھ کہاں سے لیا ہے؟ دودھ پیش کرنے والے نے کہا: میں ایک چشمے پر گیا جہاں زکوٰۃ کی اُونٹنیوں کو پانی پلایا جارہا تھا۔ شتر بانوں نے ان کا دودھ دوہا اور اس میں سے تھوڑا مجھے بھی دیا جو میں نے آپؓ کی خدمت میں پیش کیا۔ یہ سن کر حضرت عمرؓنے فوری طور پر اپنے حلق میں انگلی ڈالی اور قے کر دی کیونکہ بیت المال کی اُونٹنیوں کا دودھ آپ اپنے لئے حرام سمجھتے تھے۔
 ایک آدمی نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا: دل کیسے نرم ہوتا ہے؟ آپؒ نے فرمایا: ’’حلال کھانے سے۔ ‘‘(طبقات الحنابلہ)
 آج اگر دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں، اخلاص و یکسوئی کے باوجود عبادات میں ایسا لطف و سُرور محسوس نہیں ہوتا جو یاد الٰہی کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے، معاشرہ ذہنی اور روحانی ابتری، اخلاقی تنزل اور بے سکونی کا شکار ہے، تو اس کا ایک بنیادی سبب رزقِ حلال میں محتاط رویہ نہ اپنانا ہے۔ رزقِ حلال سے قلب و روح کو جِلا ملتی ہے۔ آج بھی اگر رزقِ حلال کا اہتمام کیا جائے تو اسی سُرور ولذت سے قلوب آشنا ہوسکتے ہیں جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا 
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
 عجب چیز ہے لذتِ آشنائی 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK