Inquilab Logo

سفاکانہ جرائم اور سماج

Updated: November 19, 2022, 2:09 PM IST | Agency | Mumbai

جن ملکوں میں زلزلہ بار بار آتا ہے وہاں کے لوگ مکانات کی تعمیر سے لے کر اپنے رہن سہن کے طریقوں تک میں ایسی تبدیلی کرتے ہیں کہ زلزلہ سے بچ سکیں مگر جن خبروں سے زلزلہ آتا ہے،

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

 جن ملکوں میں زلزلہ بار بار آتا ہے وہاں کے لوگ مکانات کی تعمیر سے لے کر اپنے رہن سہن کے طریقوں تک میں ایسی تبدیلی کرتے ہیں کہ زلزلہ سے بچ سکیں مگر جن خبروں سے زلزلہ آتا ہے، سماج اُن خبروں سے محفوظ رہنے کے طریقوں پر غور نہیں کررہا ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ دل دہلا دینے والی اور لرزہ طاری کردینے والی خبریں اب اپنا اثر کھوتی جارہی ہیں۔ کوئی خبر آتی ہے، سماج چونکتا ہے،اس کے حساس افراد دل مسوس کر رہ جاتے ہیں، دیگر افراد اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیتے،  اُن کی توجہ مبذول کرائی بھی جائے تو یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ یہ تو عام بات ہوگئی ہے۔ لرزہ طاری کرنے والے واقعات بھی اسی لئے بڑھ رہے ہیں کہ سماج ان کا نوٹس لینے کو تیار نہیں ہے۔ اس نے سب کچھ پولیس اور حکام پر ڈال دیا ہے جو واقعات کی تہہ میں جاکر جرم کی تفصیل حاصل کرنے سے لے کر مجرم کی شناخت اور اسے کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش تک، بہت سی ذمہ داریاں ضرور انجام دیتے ہیں مگر جرائم کو روکنے میں قابل ذکر حد تک معاون نہیں بنتے۔ بہتر نظم و نسق وہ ہے جس کے زیر اثر جرائم نہ ہوں، کم از کم وحشت ناک جرائم تو بالکل نہ ہوں۔  یہ ساری باتیں اُس بہیمانہ قتل کے پس منظر میں لکھی جارہی ہیں جو مئی کے مہینے میں دہلی میں ہوا اور جس کا ملزم گزشتہ دنوں وسئی سے گرفتار کیا گیا۔ اس کی گرفتاری کے بعد ہی سے پولیس کے ذریعہ جرم کی تفصیل منظر عام پر آرہی ہے۔ یہ تفصیل اتنی دردناک ہے کہ یقین نہیں آتا کہ کیا یہ سب اِس اکیسویں صدی میں ہورہا ہے جس کی سائنسی اور تکنیکی ترقی نے اب تک کی تمام صدیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جس میں تعلیم عام ہے اور جس میں زندگی گزارنے والے لوگ خود کو مہذب تصور کرتے ہیں! مذکورہ قتل کی تفصیل جاننے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ بعض اوقات انسان کے جسم میں کوئی وحشی جانور داخل ہوجاتا ہےجس کے بعد وہ انسان نہیں رہ جاتا، جسم میں داخل ہونے والے وحشی جانور سے کہیں گنا زیادہ سفاک اور خونخوار ہوجاتا ہے۔  یہ وقت ہے کہ حکومت ماہر سماجی سائنسدانوں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ایک کمیٹی یا کمیشن بنائے جو ایسے جرائم کے حقیقی اسباب کا پتہ لگائے اور ایسا میکانزم سجھائے جس کے ذریعہ جرم کو روکا جاسکے۔ کرائم ریکارڈ بیورو کی جانب سے ہر سال جو اعدادوشمار ظاہر کئے جاتے ہیں وہ بذات خود اس بات کا اعلامیہ ہوتے ہیں کہ ملک میں جرائم کی تعداد بڑھ رہی ہے مگر ان سے شرح معلوم ہوتی ہے، نوعیت نہیں معلوم ہوتی۔ دہلی پولیس سے حاصل کئے گئے اعدادوشمار کی بنیاد پر سفاکانہ اور غیر سفاکانہ جرائم کی تفصیل کچھ عرصہ پہلے منظر عام پر آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اس سال ۱۵؍ جولائی تک دہلی میں تین ہزار سے زائد سفاکانہ جرائم کے واقعات درج کئے گئے تھے جو کہ سال گزشتہ کی اتنی ہی مدت کے جرائم سے کافی زیادہ ہیں۔ جس کسی ریاست کے اعدادوشمار سامنے ہوں گے، یہی کیفیت سامنے آئے گی یعنی جرائم کی کم یا زیادہ شرح ہی معلوم ہوگی، جرائم کی نوعیت منکشف نہیں ہوگی۔ مگر سماجی سائنسدانوں کی کمیٹی جب پولیس سے تفصیل حاصل کرے گی تو تجزیہ کرسکتی ہے اور حکومت کے ساتھ ساتھ سماج کو بھی متنبہ کرسکتی ہے۔ یہی نہیں کمیٹی یہ بھی سجھاسکتی ہے کہ ایسے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں اور روک تھام کیلئے کیا کیا جانا چاہئے۔ صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں کہ اس کا سبب اربنائزیشن ہے، اسٹریس ہے، ٹی وی اور انٹرنیٹ ہے یا بڑھتی ہوئی مادیت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کچھ کیا جائے اور سماج ’’بے حسی کی سوچ‘‘ سے باہر آئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK