Inquilab Logo

بجٹ اور بدلاؤ

Updated: February 03, 2022, 1:34 PM IST | Mumbai

واج پاتا جارہا ہے جبکہ اُردو میں کسی چیز کے بدلنے کو بدلاؤ نہیں کہتے، تبدیلی کہتے ہیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

یہاں لفظ ’بدلاؤ‘ کو واوین میں اس لئے لکھا گیا ہے کہ آج کل یہ لفظ اُردو میں بھی رواج پاتا جارہا ہے جبکہ اُردو میں کسی چیز کے بدلنے کو بدلاؤ نہیں کہتے، تبدیلی کہتے ہیں۔ ہمیں متنبہ ہونا چاہئے کہ نیوز اینکروں کی زبان ہماری زبان پر اثرانداز ہورہی ہے۔ خیر، بجٹ سے اُمید کی گئی تھی کہ اس سے تبدیلیوںکا امکان پیدا ہوگا۔روزگار کے مواقع بڑھیں گے، افراط زر کم ہوگا، تجارتی و معاشی سرگرمیوں کو رفتار ملے گی اور عام انسانی زندگی کو سکون و اطمینان حاصل ہوگا جو پہلے نوٹ بندی اور پھر کووڈ کی ضرب سے بُری طرح متاثر ہوئی مگر اس بجٹ نے ان اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ فچ اور موڈیز جیسی بیرونی ایجنسیوں نے بھی بجٹ کو حسب توقع نہیں پایا۔ فچ کا کہنا ہے کہ اس میں ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں پر کم توجہ دی گئی ہے جبکہ موڈیز نے آمدنی و محصولات میں اضافے کیلئے کسی سنجیدہ کوشش کے فقدان پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ اگر اپوزیشن کی بے اطمینانی کو یہ کہہ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ اس کا کام ہی تنقید کرنا ہوتا ہے تو بیرونی ایجنسیوں کو کیا کہہ کر ٹالا جائیگا؟  عموماً عوام کی رائے کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی کہ اخبارات اور ٹی وی چینل اسے منظر عام پر لائیں۔ یہ کوشش ہوتی تو دنیا دیکھ لیتی کہ بہت سے عوامی طبقات ناراض اور اس بات پر حیران ہیں کہ تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار حاصل کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی تبدیلی کو یقینی بنانے میں ناکام ہے۔ اگر کوئی تبدیلی آئی بھی ہے تو یہ ہے کہ حالات خراب سے خراب تر ہوئے ہیں۔  واضح رہنا چاہئے کہ بی جے پی کے خلاف بے اطمینانی، برہمی میں اس لئے بدل رہی ہے کہ اس نے دیگر پارٹیوں کی حکومتوں پر ہمیشہ الزام تراشی کی اور خود کو دوسروں سے بہتر قرار دے کر تبدیلی اور انقلاب کی دُہائی دی خواہ کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کا وعدہ ہو یا کالا دھن واپس لاکر عوام کی زندگی کو خوشحال بنانے کا، خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ ہو یا نوجوانوں کو ۲؍ کروڑ روزگار دینے کا۔ اس تناظر میں بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اب بھی روزگار اور معاشی بہتری کے معاملات میں پھسڈی ثابت ہورہی ہے۔ یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ بجٹ وہ دستاویز ہے جو موجودہ مسائل کے حل کیلئے آنے والے سال کے اقدامات کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ یہ موجودہ مسائل کے حل کی تدبیر کرتی ہے اور آئندہ ایسے مسائل سے تحفظ کی راہ متعین کرتی ہے۔ ایک دانشورانہ مقولہ ہے کہ ’’بجٹ اُن کاغذ یا کاغذات کو نہیں کہتے جن پر اعدادوشمار لکھے جاتے ہیں بلکہ یہ انسانی قدروں کی روشنائی سے لکھی گئی دستاویز ہوتی ہے۔‘‘اس مقولے کی روشنی میں بجٹ کو انسانی مسائل کے حل کی جدوجہد سے عبارت ہونا چاہئے مگر نہ تو ٹیکسوں میں رعایت دی گئی ہے نہ ہی افراط زر کے کم ہونے کی امید جگائی گئی ہے۔ اس کے برعکس ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی بڑھے گی کیونکہ حکومت کا خرچ بڑھ رہا ہے اور حکومت اپنے اخراجات کیلئے یا تو قرض لیتی ہے جس پر سود ادا کیا جاتا ہے یا ٹیکسوں کی شرح بڑھاتی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں عوام زیر باثر ہوتے ہیں۔ ایک اہم اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اُمورِ صحت سے متعلق بجٹ کی رقم میں تخفیف کی گئی ہے جبکہ عالمی ادارۂ صحت کہہ رہا ہے کہ کووڈ کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم نے ملک کے طبی نظام کو درہم برہم دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں سیکھا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ حکومت تبدیلی کی باتیں ضرور کرتی ہے مگر تبدیلی کو یقینی بنانے کیلئے فکرمند نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK