مثبت زندگی گزارنے والے یعنی زندگی سے محبت کرنے والے اپنی زندگی میں غیر متوقع حادثات یا واقعات سے ہار نہیں مانتے بلکہ انہیں زندگی کا ایک حصہ سمجھ کر اپنا راستہ نکال لیتے ہیں۔ اپنی زندگی کی لغت میں `مشکل ` لفظ کو وہ چیلنج پڑھتے ہیں۔ یہ لوگ صرف فتح کا جشن نہیں مناتے بلکہ بڑی سے بڑی شکست کو بھی خوش اسلوبی سے جھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
زندگی سے محبت کرکے شخصیت سنورتی ہے
اسلام میں دنیاوی دولت کے موہ کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے لیکن اسی کے ساتھ اس کی بھی وضاحت موجود ہے کہ دین میں رہبانیت اور زندگی سے نفرت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔دنیاوی اُمور سے منہ موڑ کر زندگی کے دن جوں توں کر کے گزارنا یا صرف موت کی تمنا کرتے رہنے کی کوئی گنجائش دین اسلام میں موجود نہیں ہے،بلکہ اس دنیاوی زندگی کے بعد کی سب سے بڑی حقیقت یعنی آخرت میں ساری نعمتوں اوربخششوں کا دارومدار صرف اور صرف اسی دنیاوی زندگی کی کارکردگی پر ہے۔
نوجوانو! اب بھلا کوئی کیونکر اس دنیاوی زندگی اور اس کے تقاضوں کو نظر انداز کر سکتا ہے؟ اس دنیا کی ثروت، شہرت و دولت کے حصول پر جان چھڑکنا کسی کی زندگی کا نصب العین نہیں ہونا چا ہئے کیونکہ اسی سے حرص و ہوس، حسد و جلن اور سازشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے البتہ اللہ نے جو قیمتی زندگی انسان کو عطا کی ہے اس کی قدر، اس کو گزارنے کیلئے کچھ اصول و ضوابط تو بہر حال ضروری ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم زندگی سے محبت کریں۔اس کے برعکس اگر ہم زندگی سے نفرت کرتے ہیں تو سراسر گھاٹے میں رہیں گے، نیز آخرت کیلئے ہم اس دنیا میں جو رپورٹ کارڈ تیار کر رہے ہیں وہ بھی بگڑ جائے گا۔ اسی بنا پر آج ہمارا روئے سخن ان طلبہ اور نوجوانوں سے ہے جو ہمیشہ مایوسی کی چادر اوڑھے رہتے ہیں۔ کسی ناکامی پر وہ ہمت تو کرتے ہیں مگر زندگی اور زمانے سے مقابلے کی نہیں بلکہ موت کو گلے لگانے کی۔انہیں ہم بتانا چاہیں گے کہ زندگی سے پیار کرنے میں کیا جادو ہے؟
زندگی سے حقیقی پیار کرنے والا شخص یہ جانتا ہے اور مانتا ہے کہ یہ زندگی واقعی مختصر ہے ۔اتنی عام سی بات البتہ ان لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی جو زندگی کو نہیں چاہتے۔زندگی کو چاہنے والے ہر لمحے کو قیمتی سمجھتے ہیں ۔وہ اس بنیادی حقیقت کو بھی مانتے ہیں کہ یہ زندگی ایک آزمائش یا امتحان ہے، اسلئے پرچہ تو لکھنا ہوگا اور اس میں کارکردگی پر رزلٹ آئے گا اسلئے وہ زندگی سے فرار کا راستہ تلاش نہیں کرتا۔
زندگی سے پیار کرنے والا بہت منظم ہوتا ہے ۔اپنی زندگی میں نظم پیدا کرنے کیلئے تھوڑا وقت اور تھوڑی اینرجی کو صرف کرتا بلکہ سرمایہ کاری کرتا ہے۔اس تھوڑی سی سرمایہ کاری کی بنا پر اسے زندگی گزارنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔زندگی برتنے کے اس کے اس نظم و ضبط یا ڈسپلن کی بنا پر وہ ذہنی تناؤ کا شکار نہیں ہوتا نیز اسے ہمیشہ سکون قلب حاصل رہتا ہے ۔اس کے برعکس زندگی سے نفرت کرنے والا اپنی زندگی میں غیر منظم ہوتا ہے، اسلئے وہ ہمیشہ ہڑبڑاہٹ، بوکھلاہٹ اور اکتاہٹ کا شکار رہتا ہے۔
زندگی سے محبت کرنے والا وقت کا بڑا قدردان ہوتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ وقت کی بے قدری زندگی سے بے قدری ہے ۔اس میں یہ سمجھنے کی بصیرت بھی ہوتی ہے کہ یہ جو دن ، مہینے اورسال تبدیل ہو رہے ہیں وہ کوئی جشن کی بات نہیں ۔زندگی سے نفرت کرنے والے کو اتنا شعور کہاں کہ وقت کو کسی بدمست ہاتھی کی طرح تباہی کی اجازت دی جائے تو اس کا اپنا ہی نقصان ہے ۔
زندگی سے محبت کرنے والے مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔نفرت کرنے والے ہر قسم کی منفی فکر کو اپنے اوپر لادے رہتے ہیں۔یہ منفی سوچ اسے کئی نفسیاتی بیماریوں کا شکار بنا دیتی ہے جس سے وہ زندگی کے بجائے موت کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔منفی سوچ کا حامل شخص ہر کسی کی کمزوریوں اور عیوب پر نظر رکھتا ہےلہٰذا اسے ہر شخص سے نفرت ہو جاتی ہے۔یہ ساری نفرتیں اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ان نفرتوں سے چھٹکارا پانے کیلئے ضروری قوت ارادی اس کے پاس موجود نہیں رہتی، اس طرح وہ زندگی کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔
زندگی سے محبت کرنے والے صرف اپنے لئے نہیں جیتے۔وہ یہ مان کر چلتے ہیں کہ ان کی زندگی، ان کے وسائل اور ان کی صلاحیتوں پر دوسروں کا بھی حق ہے، اسلئے زندگی سے فرار حاصل کرنے کے منفی خیال جب جب ان کے ذہن میں اُبھرتے ہیں تب وہ اپنے گھر والوں کے بارے میں سوچتا ہی ہے ، اسے یہ فکر بھی ستانے لگتی ہےکہ ان کے وہ دوست و احباب جو اُن سے مستفیض ہوتے آئے ہیں، ان کا کیا ہوگا؟ رب کائنات نے انہیں جو علم دیا ہے، اسے دوسروں تک بانٹے بغیر اگر وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کو کیا جواب دے گا؟
زندگی سے محبت کرنے والے اپنے جذبات پر قابو رکھناجانتے ہیں۔ انہیں کوئی بھی اشتعال دلانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔کسی کی بے ہودہ حرکتوں(جیسے تضحیک آمیز کارٹون ) اذیت ناک باتیں(ان سے ذاتیات پر کیچڑ اچھالنا ) نسل و ذات پر ہونے والی دشنام طرازی (جیسے تعلیمی کیمپس کی ریگنگ )ذہنی ٹارچر (بصورت طعنے و فقرے) وغیرہ سے وہ مشتعل ہونا درکنار متاثر تک نہیں ہوتے۔وہ تو یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ان ساری شر انگیز باتوں پر سوچنے کیلئے بھی ان کے پاس وقت نہیں ہے۔زندگی کے سارے معاملات میں ثابت قدم ثابت رہنے والے یہ افراد زندگی سے منہ موڑنے کا کبھی کوئی ارادہ نہیں کرتے۔
عام طور پر انسان کی یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ توجہ چاہتا ہے۔کچھ لوگوں میں یہ مادہ کم اور کچھ میں یہ زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔توجہ حاصل کرنے کیلئے وہ اوٹ پٹانگ حرکتیں بھی کرتا ہے۔توجہ حاصل کرنے کا یہ بھوت اس کے سر پر کچھ ایسا سوار رہتا ہےکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی موت بھی ہر طرف گفتگو کا موضوع بن جائے۔یہ جنون سیاستدانوں میں زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔وہ تو اپنا مرثیہ بھی اپنے جیتے جی لکھوانا چاہتے ہیں تاکہ وہ یہ دیکھیں کہ کون کون ان کا مرثیہ کیلئے لکھنے تیار ہے۔ان کا بس چلے تو وہ اپنی موت کی خبر اور ان پر مضامین جیتے جی ہی چھپوا لیں کہ ان کی موت پر دوسرے روز ان کی کمی کون محسوس کرتا ہے؟ سیاستدانوں کی یہ خواہش ہمارے نوجوانوں میں ہرگز پیدا نہیں ہونی چاہئے۔ ہمارے نوجوانان یہ یاد رکھیں کہ زندگی سے پیار کرنے والے خوش باش و خوش و خرم لوگ مرکز نگاہ، جان محفل اور توجہ کا مرکز بننے کی تمنا نہیں رکھتے۔زندگی سے منہ موڑ کر کسی کو کوئی بھی `توجہ ` و مقبولیت ملے تو اس سے کیا حاصل؟
زندگی سے محبت کرنے والے شراب، سگریٹ اور نشہ وغیرہ سے اپنے آپ کو اسلئے بچاتے ہیں کہ یہ سب حیات کش اشیاء ہیں۔ اسی طرح سے وہ حسد اور بغض سے بھی دور رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ نفسیاتی بیماریاں بھی ان کو موت سے قریب لے جاتی ہیں ۔
زندگی سے محبت کرنے والے ہمیشہ یہ جانتے ہیں وہ اپنی زندگی کیلئے کتنے ہی اصول و ضوابط مرتب کرلیں اور کتنی ہی محنت و محبت سے ان پر عمل پیرا ہوں البتہ اگر وہ منفی سوچ و فکر رکھنے والے افراد کے ربط میں اور ان کی صحبت میں آگئے تو ان کے سارے اصول دھرے کے دھرے رہ جائیں گے، اسلئے وہ ایسے لوگوں کو دوست نہیں بناتے جو زندگی کی بے قدری کرتے ہیں یا جو ہر دم یاسیت و مایوسی کا لبادہ اوڑھے رہتے ہیں ۔وہ ان لوگوں کو دوست بناتے ہیں جن کا مثلاً یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ انسان کو ہر حال میں اپنی جد و جہد حیات جاری رکھنا ہے کیونکہ کوشش کرنے پر کوئی انسان یا تو جیتتاہے یا کچھ سیکھتا ہے، ہارتا کبھی نہیں ۔
زندگی سے محبت کرنے والے اپنی زندگی میں غیر متوقع حادثات یا واقعات سے ہار نہیں مانتے بلکہ انہیں زندگی کا ایک حصہ سمجھ کر راستہ نکال لیتے ہیں۔ اپنی زندگی کی لغت میں `مشکل ` لفظ کو وہ چیلنج پڑھتے ہیں۔ان جیسے افراد کو اسکول کے زمانے ہی سے صرف فتح کا جشن منانا نہیں سکھایا جاتا بلکہ بڑی سے بڑی شکست کو بھی خوش اسلوبی سے جھیلنے کی تربیت دی جاتی ہے۔
نوجوانو! دیکھا آپ نے اللہ کی دی ہوئی قیمتی شئے یعنی زندگی سے حقیقی محبت کرنے والے ایک خوش باش، خوش و خرم اور معتدل و پر سکون زندگی گزارتے ہیں، اسلئے وہ غیر فطری موت کا تصور بھی نہیں کرتے اور مایوسی، ذہنی انتشار و فرسٹریشن کا شکار ہو کر اپنی زندگی کو جہنم بھی نہیں بناتے۔