حال ہی میں آل اِنڈیا میڈیکل داخلہ امتحان (نیٖٹ) میں ملک بھر کے لاکھوں طلبہ کے ساتھ بڑا ظالمانہ برتائو کیا گیا۔
EPAPER
Updated: June 22, 2025, 1:29 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
حال ہی میں آل اِنڈیا میڈیکل داخلہ امتحان (نیٖٹ) میں ملک بھر کے لاکھوں طلبہ کے ساتھ بڑا ظالمانہ برتائو کیا گیا۔
داخلہ امتحانات : وہی ڈھاک کے تین پات
ملک کے تعلیمی نظام میں رائج مقابلہ جاتی امتحانات کی زبوں حالی کا تذکرہ ان کالموں میں کئی بار کرچکے ہیں مگر اِن امتحانات میں پروائی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حال ہی میں آل اِنڈیا میڈیکل داخلہ امتحان (نیٖٹ) میں ملک بھر کے لاکھوں طلبہ کے ساتھ بڑا ظالمانہ برتائو کیا گیا۔ اس سال کے امتحان کے بعد اُن طلبہ اور اُن کے والدین میں صف ماتم بچھ گئی۔ بھرپور تیاری کرنے والے طلبہ بھی امتحان ہال میں شدید ذہنی اضطراب کا شکار ہوگئے۔ وجہ کیا تھی؟ اس انتہائی اہم امتحان کا انعقاد کرنے الی ایجنسی این ٹی اے، ماہرین تعلیم اور پرچہ مرتّب کرنے والے ماہرین نے طلبہ کو ہر لحاظ سے ذہنی اذیت پہنچانے کا سامان تیار کیا تھا! ملاحظہ کیجئے۔
(۱) طبعیات (فزکس) کے حصے میں کُل ۴۵؍سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ اس بار اُن میں سے ۱۵؍سوالات کچھ ایسے پوچھے گئے تھے جن کو گزشتہ ایک ماہ سے فزکس کے پروفیسر حضرات حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر نہیں کر پارہے ہیں۔ جی ہاں !آپ نے صحیح پڑھا کہ جو سوالات سینئر پروفیسر نہیں حل کر پارہے، اُن سوالات کو طلبہ سے ۱۵؍منٹ میں حل کرنے کی توقع کی جارہی تھی۔
(۲) نیٖٹ کا امتحان ختم ہونے کے ایک ماہ کے بعد بھی اگر فزکس کے پروفیسر اُن ۱۵؍سوالات کو حل نہیں کرپارہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ سوالات غلط ہوں گے۔ کسی بھی مہذب اور انصاف پسند مُلک میں امتحان میں دانستہ غلط سوالات مرتّب کرنے والے افراد کوکیا سزا ہونی چا ہئے، سوائے اس کے کہ اُن پر فوجداری مقدمے دائر کئے جائیں۔ کسی کو اُن ’اعلیٰ‘ تعلیم یافتہ افراد کیلئے یہ سزا کچھ سخت دِکھائی دے گی البتہ اُن ا فراد کو اس اہم ترین ذمہ داری کو سونپنے سے پہلے اُن کی ذہنی کیفیت کا پتہ لگانا ضروری ہے۔ اُن کابرین میپنگ ہو، تاکہ پتہ چلے کہ اُن پرچہ مرتّب کرنے والے افراد کے شعور و لاشعور میں کیا پوشیدہ ہے؟
(۳) سرکاری ماہرین تعلیم ہمارے طلبہ کو ذہنی کوفت میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اپنے اس ’مشن‘ کو پورا کرنے کیلئے اُنھوں نے نیا پینترا یہ اپنایا کہ اب وہ ایسے سوالات پوچھنے لگے جن کے بیک وقت کئی جواب ہوسکتے ہیں۔ اس قسم کے سوالات ریسرچ کے طلبہ کو پوچھ کر اپنی دانشوری کا شوق پورا کرسکتے ہیں مگر جونیئر کالج کی سطح کے داخلہ امتحان کے طلبہ سے سوال پوچھ کر وہ تعلیمی نظام میں انتشار کیوں پھیلانا چاہتے ہیں ؟
(۴) معروضی سوالات میں دستور یہ ہے کہ فزکس، کیمسٹری (اور انجینئرنگ کے داخلہ امتحان میں۔ ریاضی) کے سوالات زیادہ سے زیادہ تین یاچار سطروں پر مشتمل حل ہونے چاہئیں۔ اس بار پوچھے گئے سوالات کو حل کرنے کیلئے ۸؍تا ۱۰؍سطروں سے گزرنا پڑا۔
(۵) بائیولوجی کو طلبہ سارے مضامین میں آسان سمجھتے ہیں البتہ اس مضمون کو بھی دقیق، پیچیدہ و دُشوار بنانے کیلئے ایک طریقہ اپنایا کہ طویل سوالات پوچھے جائیں۔ اس کے نتیجے میں ہر طالب علم کو ہر سوال پڑھنے کیلئے ایک منٹ درکار ہوتا ہے، سمجھنے کیلئے ایک مزید منٹ، حل کرنے کیلئے ایک اور منٹ اور سوال حل کریں یا نہیں (کیوں کہ منفی مارکنگ ہے) اس کا فیصلہ کرنے میں ایک منٹ، اس طرح ہر سوال کیلئے کُل ۴؍منٹ جو بائیولوجی کے پرچے کیلئے بہت زیادہ وقت ہے اور اس طرح طلبہ کا پورے پرچے کا ٹائم مینجمنٹ بگڑ جاتا ہے۔ اپنے پسندیدہ مضمون میں اپنی یہ دُرگت دیکھ وہ کیمسٹری اور فزکس تک پہنچتے پہنچتے ہانپنے لگ جاتے ہیں۔
(۶)لگ بھگ ہر سال اِس امتحان کے آخری دِنوں میں این ٹی اے طلبہ کو ہڑ بڑاہٹ اور کنفیوژن کا شکار کرنے کیلئے کچھ اعلان کرتا ہے کہ سارے سوالات بارہویں کے ہوں گے، کبھی گیارہویں + بارہویں کی بات کرتے ہیں۔ اس سال یہ ترتیب نہ جانے کس بناء پر یہ رہی، طلبہ جس کی اُمیدنہیں کررہے تھے۔ فزکس میں گیارہویں جماعت کے نصاب پر ۲۳؍سوالات تھے اور بارہویں کے نصاب پر ۲۲؍۔ امتحان کے صرف ۴؍ ماہ قبل امتحانی اِدارے نے یہ بھی اعلان کردیا کہ فزکس کے ۱۲؍، کیمسٹری کے ۸؍اور بائیولوجی کے ۱۰؍عناوین اب نصاب سے خارج ہیں۔ سال بھرپڑھائی کرنے والے طلبہ کے ساتھ کیا یہ مذاق نہیں ہے؟
(۷)ہمارا خیال ہے کہ جنھیں طبمیں کریئر بنانا ہے وہ بھی میتھ میٹکس یا ریاضی کو نہ چھوڑیں۔ ایک تو ریاضی سے طلبہ کا ذہن منطقی بن جاتا ہے اور فزکس کے پرابلم حل کرنے میں بھی یہ کام آتا ہے۔ کوچنگ کلاس والے اکثر ہمارے طلبہ کو گمراہ کرتے رہتے ہیں کہ ریاضی کو چھوڑدینے میں عافیت ہے البتہ شاید اُنھوں نے اب ہوش کے ناخن لئے ہوں گے جب اُنھوں نے دیکھا کہ فزکس میں پوچھے جانے والے سوالات جے ای ای (ایڈوانس) کے نصاب سے ماخوذ تھے۔ طلبہ و والدین اب بھی وقت کے تقاضے کو سمجھیں کہ ہر کریئر میں ریاضی مضمون کو ساتھ رکھیں۔ یہ وہ مضمون ہے جو کریئر کی ڈوبتی نیّا کوبچاسکتا ہے۔
غیر ملکی یونیورسٹیاں
۴۵؍سال پہلے جب کوکن کے اپنے آبائی گائوں سے ہجرت کا سوچا تب نئی ممبئی میں واشی میں سکونت اختیار کرلی کہ ممبئی کے سارے مضافات میں وہ علاقہ میرے من کو بھاگیا۔ ایک منصوبہ بند شہر اور اُس وقت وہاں ٹرین کا گزر نہیں تھا مگر وہاں ہمیں مستقبل نظر آیا لہٰذا اخبارات ورسائل میں مضامین اس عنوان کے ساتھ لکھنے شروع کئے: ’’مسلمانو! نئی ممبئی کی نئی بستی کی طرف چلو‘، ’کھاڑی کے اُس پار مستقبل انتظار کر رہا ہے‘، ’یہ شہر ایک تعلیمی شہر بننے جارہا ہے‘ وغیرہ۔ کچھ لوگ ہنستے بھی تھے کہ وہاں ابھی اسٹریٹ لائٹ نہیں ہے، ٹرین کا گزر ممکن نہیں کہ درمیان میں کھاڑی ہے البتہ ہم مصر تھے کہ یہ ایک نئی بستی بننے جارہی ہے۔ ۱۹۸۴ء اور ۱۹۹۲ء کے ہولناک فسادات میں نئی ممبئی جو اَب پنویل، اُرن اور تلوجہ وغیرہ تک پھیل چکی ہے، فسادات سے پاک رہی اور اب پوری نئی ممبئی ایک تعلیمی مرکز بلکہ تعلیمی شہر بن چکی ہے۔ ۱۹۸۰ء میں مرحوم ایڈوکیٹ عبدالعظیم کھٹکھٹے اور مرحوم سیّد عبدالغفور کے ساتھ مل کر ہم نے انجمن اسلام کے صدر مرحوم اسحٰق جمخانہ والا کو واشی آنے کا اصرار کیا کیوں کہ وہاں سڈکو نے تعلیمی اِدارے قائم کرنے کیلئے کئی پلاٹس سستے داموں میں بیچنے کیلئے تعلیمی اِداروں کو دعوت دی تھی۔ انجمن کے ذمہ داروں نے بادل نخواستہ صرف ایک پلاٹ خریدنے کی رضامندی کی کہ وہ شہر کبھی نہیں بسے گا۔ فادر ایگنل اور دوسرے اِدارے سارے پلاٹس خریدنے کیلئے ٹوٹ پڑے اور نئی ممبئی میں تعلیمی اِداروں کا جال بچھایا۔ اس کے کئی برس بعد صابو صدیق کالج کی اولڈ اِسٹوڈنٹس اسوسی ایشن نے عبدالرزّاق کالسیکر صاحب کے خطیر عطیے سے ایک پلاٹ خریدا، ایک پالی ٹیکنک قائم کی، پھر کروڑوں روپے کی لاگت سے کالسیکر صاحب نے ایک پورا ٹیکنیکل کیمپس قائم کیا۔ نئی ممبئی میں اِکّا دُکّا، چھوٹے موٹے تعلیمی اِدارے مسلمانوں نے قائم کئے البتہ بڑا اِدارہ صرف کالسیکر کیمپس ہی ایک ہے اور بس قصّہ ختم۔
اب نئی ممبئی میں سب سے بڑا انٹرنیشنل ایئر پورٹ قائم ہورہا ہے، ٹرینیں، میٹروٹرین، ٹرمنس سب کچھ دستیاب ہے۔ گجراتی لابی کو سمجھ میں آگیا کہ اس شہر کی اہمیت کیا ہے؟ بس پھر کیا تھاایک ساتھ درجن بھر انٹرنیشنل یونیورسٹیوں کو یہاں آباد کرنے کیلئے اس گجراتی لابی نے اپنے برہمن وزیر اعلیٰ کو متحرک کردیا اور اب یہاں پر جو دُکانداری شروع ہوجائے گی وہ کسی طریقے سے قابو میں نہیں آئے گی۔
یہاں ہمارے ہندوستانی اِداروں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے اور اپنامحاسبہ کرنا ہے کیوں کہ نئی ممبئی میں آج آدھ درجن ڈیمڈ یونیورسٹیاں قائم ہوچکی ہیں۔ جائزہ یہ لینا ہے کہ یہ غیر ملکی یونیورسٹیاں کہاں بھاری پڑیں گی، کیا نِت نئی چیزیں متعارف کرائیں گے، اُن کاطریقہ کار کیا ہوگا، اُن کی مارکیٹنگ کیسی ہوگی اور کوئی نہ کوئی محاذ ایسا یقیناً ہوگا جس پر ہندوستانی تعلیمی اِدارے، مسلمانوں کا واحد بڑا تعلیمی اِدارہ اُس پر کام کرے گا اور اپنی شناخت قائم کرے گا۔ دوسرا وہ محاذ ہے جس پر نئی ممبئی کے مسلمان اب بھی کام کرسکتے ہی وہ یہ کہ پنویل، تلوجہ اور اُرن یہ مسلم بستیاں رہی ہیں، یہاں مسلمانوں کی کافی وقف کی زمینیں موجود ہیں۔ اب بھی یہاں بڑے تعلیمی ادارے قائم ہوسکتے ہیں۔ اُن زمینوں کے مالکان اگر وہ زمینیں قوم کے حوالے کرتے ہیں تو اُن پر تعمیرات کیلئے اپنا دھن دولت صرف کرنے کیلئے لوگ تیار ہیں۔