Inquilab Logo Happiest Places to Work

تیسری عالمی جنگ کا کتنا امکان ؟

Updated: June 22, 2025, 2:26 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

جو اسباب پہلی اوردوسری عالمی جنگوں کے تھے، آج بھی وہی اسباب دنیا میں پنپ رہے ہیں اور جدید ہتھیار بھی ان میں شامل ہوچکے ہیں۔

Netanyahu seems to be trying to bring the entire world to the brink of destruction along with his own destruction. Photo: INN.
نیتن یاہو اپنی تباہی کے ساتھ ہی پوری دنیا کو بھی تباہی کے دہانے پر لے جانے کے درپے نظر آتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

’سبق سکھادیں گے ‘، ’ برداشت نہیں کیاجائےگا‘، ’جنگ کے بھیانک نتائج بھگتنے ہوں گے ‘، ’ ’اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ‘، ’عوام دشمن کے خلاف متحد ہیں ‘، ’حدود کی خلاف ورزی پرمنہ توڑ جواب دیا جائےگا ‘، ملکوں کے سربراہوں اور نمائندوں کی زبان سے اس طرح کے نعرے، اعلانات اور بیانات تنازعات کے اس دور میں بالکل عام ہیں۔ یہ اعلانات اورنعرے ایک ملک کی دوسرے ملک کو تنبیہ کیلئے ہوتے ہیں۔ ان دنوں ایران اسرائیل، ہندپاک، اسرائیل حماس اور روس یوکرین کے درمیان یہی کچھ جاری ہے۔ بمباری ہو رہی ہے، میزائل برسائے جارہے ہیں، راکٹ داغے جا رہے ہیں اور تباہی کے بعد بھی ایک ملک دوسرےملک کو اورایک فریق دوسرے فریق کویہی کہتا ہےکہ’’بھیانک نتائج بھگتنے ہوں گے‘‘یا ’’فلاں منہ توڑ جواب کیلئے تیار رہے۔ ‘‘
اس وقت کم وبیش آدھی دنیا کے یہی حالات ہیں۔ جو جنگ زدہ ممالک ہیں وہاں تو حالات ابتر ہیں ہی لیکن وہ ملک جو جنگ زدہ نہ ہونے کے باجود جنگ میں ملوث ہونے کا اشارہ دے رہا ہے، کسی نہ کسی بہانے سےمتحارب فریقوں میں سےایک کی حمایت کررہا ہے، ان سب کے تعلق سے یہی سمجھاجائے گا کہ وہ دنیا کو اب جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں، وہ ہیں تو امن کے علمبردار لیکن ان کی تسکین جنگ اور تباہی میں ہے۔ ایسا ملک اگر امن کی بات کر بھی رہا ہے تواس کے پیغا م امن کے کوئی معنی نہیں ہے کیونکہ وہ جنگ پہلے ہی بھڑکا چکا ہے۔ 
پہلی اور دوسری عالمی جنگ یورپ کے بڑے ممالک کے درمیان ہوئی تھی اور ان میں امریکہ اور روس بھی مد مقابل تھے۔ جو ان جنگوں کے اسباب تھے، آج بھی کم وبیش عالمی تنازعات کے اسباب کی نوعیت وہی کچھ ہے۔ ۱۹۰۸ء میں یورپی ملک بوسنیا اورہرزے گوویناکے آسٹریا اورہنگری میں الحاق کے بعد اس براعظم میں حالات اندر ہی اندر پکنا شروع ہوئے اورپھر۲۸؍ جون۱۹۱۴ء کو۶؍ بوسنیائی حملہ آوروں کے ذریعے آسٹریا کے آرک ڈیوک فرانز فرنڈیننڈ کے قتل کے بعدلاوا بن کرپھوٹ پڑے اوریورپ جنگ کی لپیٹ میں آگیا۔ اس میں کتنی ہلاکتیں ہوئیں یہ جانے دیں، انسانیت کو کیا نقصان ہو ا، یہ جانے دیں، اس کے کیا اور کیسے نتائج رہے یہ جانے دیں۔ بنیادی وجہ کیا تھی، ایک بالادست ریاست کا دوسری زیردست ریاست کواپنے میں ملا لینا۔ اس میں بالادستی اور زیردستی سے قطع نظر یہ عوامل بھی کچھ کم تباہ کن نہیں ہوتے جن میں ایک ملک دوسرے ملک کے علاقوں پر قبضہ کرلیتا ہے یا قانونی طورپر اور بالاتفاق اس ملک کے علاقے دوسرے کو دے دئیے جاتے ہیں۔ (جس طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد یہودیوں کو فلسطین کے قلب میں ایک ملک قائم کرکے دے دیاگیا )۔ دوسری عالمی جنگ کے اسباب کیا تھے؟ یورپ اور ایشیا میں وسیع ہوتی ہوئی آمرانہ فوجی قیادتیں ، پہلی عالمی جنگ کے وہ تنازعات جن کا تصفیہ نہیں ہو سکا اور جنگ میں شریک طاقتوں کی جارحیت پر قابوپانے میں عالمی سفارت کاری کی ناکامی۔ 
آج بھی روس یوکرین، اسرائیل فلسطین، ہندپاک یا ایران اسرائیل کے درمیان جو تنازعات ہیں ان کی بنیادی وجہ’ قبضہ ‘ ہے اورنئی وجہ جدید ہتھیاروں کی تیاری ہے۔ روس نہیں چاہتاکہ یوکرین کے معاملے میں نیٹو ممالک اس کے ’اختیارات ‘ میں مداخلت کریں ۔ اسرائیل، فلسطین کی سرزمین پر قبضے کو اپنا ’حق‘ سمجھتا ہے۔ پاکستان کے نزدیک کشمیر اس کی ’جاگیر‘ ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے مطابق ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی حق نہیں ہے، اس تعلق سے سارے حقوق صرف انہیں حاصل ہیں ۔ یہ تنازعات آج سے نہیں ہیں، کچھ چند برسوں سے نہیں ہیں بلکہ دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ان کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا ہے۔ 
اس وقت دنیا میں ۹؍ ممالک ہیں جن کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔ ان میں روس، امریکہ، چین، فرانس، برطانیہ، ہندوستان، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا۔ پہلی اوردوسری عالمی جنگوں میں دو محاذ مد مقابل تھے۔ اب بھی ایسے ہی دومحاذ بنتے ہوئےنظر آرہے ہیں لیکن معاملہ اتنا واضح نہیں ہے۔ روس، چین اور شمالی کوریا ورلڈ آرڈر میں امریکی بالادستی کے خلاف ہیں اوراسرائیلی جارحیت کے خلاف وہ ایران کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے معاملے عالمی برادری ایک مختلف اورقدرے پیچیدہ موقف رکھتی ہے۔ دونوں کے معاملے میں عالمی طاقتوں کی واضح گروہ بندی نظر نہیں آتی لیکن ا مریکہ اور چین جیسی طاقتیں متنازع صورتحال میں دونوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا چاہتی ہیں۔ 
اسرائیل نے ایران پر جوحملہ کیا ہے وہ صرف اس بنیاد پر کیا ہےکہ ا یران کاجوہری ہتھیار حاصل کرنے کا مقصد اسرائیل کو تباہ کرنا ہے۔ حالانکہ اس کے پاس اس کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خفیہ ڈیٹا حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ایران کے دعوے کے ۲؍دن بعد اسرائیل نے اس پر حملے کر دئیے۔ روس یوکرین جنگ کو تین سال ہوچکے ہیں۔ اسرائیل وفلسطین اور ہند-پاک تنازعات کاکوئی حل نکلتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ یعنی دوسری عالمی جنگ کے بعدجو نئی دنیا اور نئی سرحدیں تشکیل پائی تھیں، ان سے اٹھنے والے تنازعات اب نہایت تیزی کے ساتھ شدید ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں خدشہ تو تیسری عالمی جنگ کا قوی ہے لیکن اقوام عالم کے درمیان جدید تجارتی، معاشی اورتکنیکی تقاضوں اور موجودہ عالمی نظام کے اندر اپنی بقاکی خواہش کومد نظر رکھ کر دیکھا جائے توطاقتیں ایک بڑی اور خوفناک جنگ میں نہیں کودیں گی مگر جنگ اور جنگ کے نتائج کی دھمکیوں پرمبنی بیانات اور اعلانات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK