اس کی اصل سے وہ لوگ بھی واقف ہیں جو پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دیگر مذاہب میں بھی اس کا تصور موجود ہے
EPAPER
Updated: January 22, 2021, 11:35 AM IST
|
Maolana Khalid Saifullah Rehmani
اس کی اصل سے وہ لوگ بھی واقف ہیں جو پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دیگر مذاہب میں بھی اس کا تصور موجود ہے اگر کسی وجہ سے دو قوموں کے درمیان جنگ ہو گئی اور اس میں ایک قوم نے فتح حاصل کر لی تو مفتوح قوم کی دولت کے بارے میں فاتح کے لئے کیا حکم ہے؟ اس سلسلہ میں شرعی نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر ان دو قوموں کے درمیان پہلے سے اس سلسلہ میں کوئی معاہدہ موجود ہو تو اس معاہدہ پر عمل کرنا واجب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: باہمی معاہدات کی پاسداری کرو۔ (مائدہ: ۱) یہی حکم اس وقت بھی ہوگا جب بین الاقوامی سطح پر جنگ کا قانون مرتب کیا گیا ہو اور اس پر مختلف ملکوں کے نمائندوں نے دستخط کئے ہوں، وہ سب لوگ اس وعدہ میں شامل سمجھے جائیں گے اور ان کے لئے اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔
اسلام جس دور میں آیا اُس وقت کوئی بین قومی یا بین ملکی معاہدہ نہیں تھا، خاص کر جنگی حالات سے متعلق۔ فاتح قوم جہاں مفتوح قوم کو جانی ومالی نقصان پہنچاتی تھی، ان کی عزت وآبرو سے بھی کھیلتی تھی، مال ودولت بھی لوٹ لیتی تھی۔ اسلام میں مفتوح قوم کے جس مال کو مسلمان فوج اپنے قبضہ میں لے لے’’ مالِ غنیمت ‘‘ کہا جاتا ہے۔ افسوس کہ جن لوگوں کی غارت گری نے پوری دنیا کو تنگ کر رکھا ہے اور جو زیادہ تر دوسروں کے معاشی وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے جنگ کرتے ہیں، وہ ’’ اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق اسلام پر اعتراض کرتے ہیں اور ان آیات کو نشانہ بناتے ہیں، جن میں مالِ غنیمت کا ذکر آیا ہے، خاص طور پر ان دو آیتوں کو:
(۱)’’جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے، اسے پاکیزہ اور حلال سمجھ کر کھاؤاور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ معاف کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔‘‘ (انفال: ۶۹)
(۲)’’اور اﷲ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے جو تم آئندہ حاصل کرو گے مگر اس نے یہ (غنیمتِ خیبر) تمہیں جلدی عطا فرما دی اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دیئے، اور تاکہ یہ مومنوں کے لئے (آئندہ کی کامیابی و فتح یابی کی) نشانی بن جائے۔ اور تمہیں (اطمینانِ قلب کے ساتھ) سیدھے راستہ پر (ثابت قدم اور)گامزن رکھے۔‘‘ (الفتح:۲۰)
ان دونوں آیتوں میں مالِ غنیمت کا ذکر ہے، اس کا ترجمہ وی ایچ پی کے پمفلٹ میں ’’ لوٹ کے مال‘‘ سے کیا گیا ہے اور یہ تصور دیا گیا ہے کہ مسلمان غیر مسلموں کا جو بھی مال لوٹ لیں، وہ ان کے لئے جائز اور حلال ہے، یہ محض ایک پروپیگنڈہ ہے۔ یہ آیات ہر غیر مسلم سے متعلق نہیں ہیں؛ بلکہ یہ ان لوگوں سے متعلق ہیں جو مسلمانوں سے بر سرِ جنگ ہوںکہ اگر مسلمان اُن پر فتح پائیں اور جنگجو حضرات قید کر لئے جائیں تو ان کا مال مالِ غنیمت ہوگا۔ عربی زبان میں مشقت کے بغیر کسی چیز کے حاصل ہونے کو ’’ غنم‘‘ (’’ غ‘‘ پر پیش یا زبر) کہتے ہیں، (القاموس المحیط:۱۴۷۶) چوں کہ جنگ سے حاصل ہونے والے مال میں تجارت یا زراعت کی مشقت نہیں اٹھائی جاتی؛ اس لئے اس کو ’’ مالِ غنیمت‘‘ کہتے ہیں، غنیمت کا ترجمہ ’’ لوٹ کے مال‘‘ سے درست نہیں ہے، لوٹ تو ایک غیر قانونی طریقہ ہے، اسلام میں یہ حکم ہے کہ جب کوئی قوم مسلمانوں سے بر سرِ جنگ ہو اور مسلمانوں کو فتح حاصل ہو تو جہاں تک ممکن ہو، باغات اور کھیتوں کو تاخت وتاراج نہ کیا جائے، مکانات منہدم نہ کئے جائیں، اپنے طور پر شکست خوردہ لوگوں کا مال لے کر استعمال نہیں کیا جائے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۸۱۵۰) غزوۂ خیبر کے موقع سے فوجیوں نے کچھ بکریاں لوٹ لیں اور ذبح کر کے پکانے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بہت خفگی ظاہر فرمائی اور دیگیں الٹوا دیں۔ (بخاری، حدیث نمبر: ۲۴۸۸)
مالِ غنیمت کے سلسلہ میں یہ اُصول ہے کہ اولاً مفتوحین کے مال، حکومت کے پاس جمع کئے جائیں، پھر اس میں سے پانچواں حصہ حکومت کے خزانہ میں محفوظ کر دیا جائے اور اسے رعایا کی بھلائی کے لئے خرچ کیا جائے۔ یہ رقم مسلمان رعایا پر بھی خرچ ہوگی اور غیر مسلم رعایا پر بھی۔ اس زمانہ میں فوجیوں کے لئے الگ ’’ تنخواہ‘‘ نہیں ہوا کرتی تھی؛ اس لئے اس کے بعد جنگ میں حاصل ہونے والے مال کے بقیہ چار حصے فوجیوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔ بعض صورتوں میں حکومت اپنے اختیار ِ تمیزی اور عوامی مصلحت سے کسی مال کو روک بھی سکتی ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عراق کی مفتوحہ اراضی مجاہدین کے درمیان تقسیم نہیں فرمائی؛ بلکہ بیت المال کی ملکیت میں باقی رکھا؛ تاکہ ملک کے تمام شہری اس سے فائدہ اٹھاسکیں، (مرقاۃ المفاتیح: ۶؍۳۵۵۲) بہر حال تقسیم کے بعد جو مال جس کے حصہ میں پڑے گا، وہ اس کا مالک سمجھا جائے گا، اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مالِ غنیمت ہر غیر مسلم کے مال کو نہیں کہیں گے؛ بلکہ دشمن ملک کے حاصل شدہ مال کو مالِ غنیمت کہا جائے گا،اور ایسا بھی نہ ہوگا کہ جس کے ہاتھ جو آئے وہ اس پر قابض ہو جائے؛ بلکہ قانونی طریقہ پر ہی کوئی شخص اس مال کا مالک ہو سکتا ہے۔
مالِ غنیمت کا تصور دنیا کے تمام نظام ہائے قانون اور مذاہب میں رہا ہے، اسلام سے پہلے عرب کے قریب ایرانیوں اور رومیوں کی حکومت تھی، ایرانیوں کے یہاں بھی یہی اُصول تھا کہ وہ مفتوحین کے مال پر قبضہ کر لیتے تھے، رومی (جو عیسائی ہو گئے تھے) تورات کے قانون کو مانتے تھے، یہودی بھی اسی قانون پر عقیدہ رکھتے ہیں، اب دیکھئے کہ بائبل میں مالِ غنیمت کے بارے کیا کہا گیا ہے:
’’ اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کر دیوے، تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر، مگر عورتوں اور لڑکوں اور مویشی کو اور جو کچھ اس شہر میں ہو، اس کی ساری لوٹ اپنے لئے لے اور تو اپنے دشمن کی اسی لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے، کھائیو۔ (استثناء: ۲۰:۱۲- ۱۴)
توریت میں جا بجا مفتوحین کو لو‘ٹنے کا ذکر ہے، یہاں اگر ان سب کا ذکر کیا جائے تو بات لمبی ہو جائیگی؛ لیکن اس سلسلہ میں خاص طور پر ’’گنتی‘‘ اور ’’ استثناء‘‘ نامی صحائف کو پڑھا جا سکتا ہے۔
ویدوں میں بھی اس کا تذکرہ ہے چنانچہ رِگ وید میں ہے: ’’ اے اگنی! تیرے مالدار پجاری خوراک حاصل کریں اور امراء بڑی عمریں پائیں، ہم اپنے دشمنوں سے لڑائی میں مالِ غنیمت حاصل کریں اور دیوتاؤں کو ان کا حصہ نذر کریں، اے اگنی!ہم تیری مدد سے گھوڑوں کے ذریعہ گھوڑے، آدمیوں کے ذریعہ آدمی اور بہادروں کے ذریعہ بہادر فتح کریں۔‘‘ (۱:۷۴: ۵،۹)
دیگر ویدوں میں بھی یہ مضمون وارد ہوا ہے مثلاً یَجروید (۸:۴۴)، سام وید (۲:۲:۱۲:۳) اور اتھروید (۶: ۶۶:۳)۔ ’’ منو سمرتی‘‘ قانون کی کتاب کے درجہ میں ہے اور اسی قانون پر ہندو سماج اور نظامِ حکومت کی اساس ہے،اس میں ہے: ’’رتھ، گھوڑے، ہاتھی، چھتر، مال ودولت، جانور، عورت، گڑ، نمک، مادی چیزیں، تانبا، پیتل وغیرہ چیزیں ان میں جس چیز کو جو جیت کر لاتا ہے، وہ اسی کا ہوتا ہے۔‘‘ (منوسمرتی:۷: ۹۵، ۹۶)
آج بھی جب کوئی ملک دوسرے ملک پر فتحیاب ہوتا ہے تو مفتوحہ علاقوں میں جو چیز فاتحین کو ہاتھ آتی ہے، وہ اسے اپنی صوابدید سے تقسیم کرتے یا استعمال کرتے ہیں؛ لیکن اسلام میں یہ ضروری نہیں کہ لا محالہ مفتوحین کے مال پر قبضہ کر ہی لیا جائے، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مسلم حکومت ان چیزوں کو مفتوحین کی ملکیت میں رہنے دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں فتح کا سب سے بڑا واقعہ ’’ فتح مکہ‘‘ ہے، جس میں مسلمانوں نے شکست خوردہ لوگوں کا ایک تنکا بھی نہیں اُٹھایا؛ بلکہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرتے ہوئے اپنا جو مکان واسباب چھوڑ کر نکل گئے تھے، ان کو بھی واپس لینے کی کوشش نہیں کی۔ یہودیوںکے ساتھ غزوۂ خیبر کے موقع پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کیا تھا۔
موجودہ دور کی عالمی طاقتوں اور ترقی یافتہ قوموں نے تو دولت لو‘ٹنے کے لئے خون کے دریا بہا دئیے، پورے پورے ملک اور پوری پوری قوم کا ـصفایا کر دیا، برطانیہ نے ہندوستان پر کیوں قبضہ کیا؟ اس لئے کہ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ ملک سونے کی چڑیا ہے۔سوویت روس نے افغانستان پر کیوں قبضہ کیا؟ وہاں کی معدنیات پر قبضہ جمانے کیلئے۔ امریکہ نے ملک کے اصل باشندے ریڈانڈینس کی نسل کشی کیوں کی؟ اس لئے کہ وہاں کے مالی وسائل پر قبضہ کر لیا جائے۔ یہ بے چارے ریڈانڈینس ریاست ٹینسیسی کے ایک علاقہ میں بسائے گئے تھے، جب معلوم ہوا کہ اس علاقہ میں سونے کی کانیں ہیں تو ان کو اس سے محروم کرنے کی غرض سے ۲۶؍ مئی ۱۸۳۰ء کو امریکن کانگریس کے صدر اینڈریو جیکسن کے دباؤ میں نقل مکانی ایکٹ بنا؛ تاکہ ریڈانڈینس کو اس سونا اُگلتی زمین سے محروم کر دیا جائے اور یہ سفید فام لوگوں کے قبضہ میں آجائے تب مئی ۱۸۳۸ء میں امریکی صدر وان بیورن نے اس قانون کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور ریڈانڈینس کے قبیلہ چیروکیز کو نہایت بے دردی، بے رحمی اور سفاکیت کے ساتھ سنگینوں کی نوک پر ہنکاتے ہوئے ایک ہزار میل کا سفر کرا کے اوکلاہوما پہنچایا، بے شمار لوگ راستے میں پیدل چلنے کی تکلیف سے بھوک اور برف کی ٹھنڈک سے مرگئے، یہاں تک کہ ۶؍جون ۱۸۳۸ء کو نکلنے والا مظلوموں کا یہ قافلہ ۲۶؍ مارچ ۱۸۳۹ء کو اپنی منزل پر پہنچ سکا، اس کا نام ہی ’’ آنسوؤں کی شاہراہ‘‘ بن گیا اور ریڈانڈین شعراء وادباء نے اس عنوان سے بڑا حزن انگیز ادب تخلیق کیا۔
ماضی قریب میں امریکہ نے عراق اور لیبیا پر جو حملہ کیا اور بڑی تباہی پھیلائی، اس کا مقصد تیل کے کنوؤں پرقبضہ کرنے کے علاوہ اور کیا تھا؟ تو ماضی میں تو جنگوں میں محدود پیمانے پر فاتحین کو مفتوحین کا کچھ مال ہاتھ آجاتا تھا؛ لیکن آج کی دنیا میں تو پورے پورے ملک کو اپنی حرص ولالچ کا شکار بنایا جاتا ہے اور کسی جواز کے بغیر انہیں نشانہ بنا کر حملہ کیا جاتا ہے۔ اسے کیا کہا جائیگا ؟