ابن صفی کا کمال صرف کہانی لکھنے میں نہیں بلکہ قاری کے ساتھ نفسیاتی گتھیاں سلجھانے میں ہے ۔ اے آئی کا الگورتھم لکھنے کا انداز پہچان سکتا ہے اور بڑی حد تک اس کی نقل بھی کرسکتا ہے لیکن اپنی تحریر میں’سرپرائز ‘ یا غیر متوقع مزاح پیداکرنا اور — وہ بھی ایسا کہ قاری کی ہنسی چھوٹ جائے اور ذہن چونک جائے — یہ ہنر فی الحال صرف انسان کے پاس ہے اور غالباً صرف ابن صفی کے پاس تھا
ابن صفی کی اصل تصویر سے چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے بنائی گئی آرٹسٹک تصویر۔ تصویر: آئی این این
اگر دنیا بھر کے اے آئی ماڈلس اور نیورل نیٹ ورکس انسانی تاریخ کے اب تک ادب پر نظر ڈالیں تو وہ شیکسپیئر، ٹالسٹائی، آرتھر کانن ڈوئل اور اگاتھا کرسٹی جیسے ناموں پر جا کر کچھ دیر ٹھہر جاتے ہیں لیکن جیسے ہی یہ ڈیجیٹل دماغ اردو ادب کے’ ڈیٹا سیٹ‘ میں داخل ہوتے ہیں انہیں ایک ایسا عجیب و غریب، دلچسپ اور ناقابلِ تقلید مصنف نظر آتا ہے جو کسی سانچے میں نہیں آتا — اور وہ ہے ابن صفی۔ مصنوعی ذہانت کے الگورتھم جب ابن صفی کی تحریروں کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ ان کے سامنے ایک ایسا مصنف کھڑا ہوتا ہے جو جاسوسی ادب لکھتے ہوئے نہ صرف زبان کو شاعری جیسا چمکدار بنادیتا ہے بلکہ کرداروں کو ایسا تہہ دار، مزاحیہ، فلسفیانہ اور تجزیاتی رنگ دیتا ہے کہ اے آئی کو خود اپنی ’سمجھ‘ پر شک ہونے لگتا ہے۔ اے آئی کی دنیا میں ابن صفی کو اردو ادب کا’ الگورتھم شکن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ عالمی اے آئی ٹولز جن میں چیٹ جی پی ٹی ، گوگل جیمنائی، میٹا کا اے آئی، اینتھروپک کلاڈ، چینی ماڈلز جیسے ایرین اور سینس ٹائم شامل ہیں، جب اردو ادب کے خزانے کو اسکین کرتے ہیں تو انہیں ابن صفی کی تحریریں ’خلاف قاعدہ‘لگتی ہیں بلکہ وہ اسے اپنے لئے ’لٹریری گلچ اِن دی میٹرکس‘ قرار دیتے ہیں۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ اس کا جواب خود یہ اے آئی ماڈل دیتے ہیں کہ ایسا اس لئے ہے کہ ابن صفی روایتی بیانیے سے ہٹ کر ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیتے ہیں جہاں زبان مزاح سے لبریز، پلاٹ معمہ خیز اور کردار فلسفیانہ تضاد سے بھرپور ہوتے ہیں۔ وہ اردو زبان کے صرف و نحو میں ایسی لچک لے آتے ہیں جو مشینی منطق کے لئے قابلِ فہم نہیں ہے — کیونکہ وہ ادب کو روایتی فارمولے سے آزاد کر دیتے ہیں۔ جہاں بیشتر مصنف اپنی تخلیقات میں ایک تھیم یا اسلوب کو تھامے رکھتے ہیں وہاں ابن صفی ہر صفحے پر قاری کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے ہیں۔ یہ غیر متوقع نثر ایک اے آئی ماڈل کے لئے چیلنج ہے کیونکہ اے آئی کے یہ ماڈل امکانات کے ڈھرے پر کام کرتے ہیں جبکہ ابن صفی کی دنیا احتمالات سے نہیں، تحیر خیز مزاح سے چلتی ہے۔
بیشتر اے آئی ماڈلز جب علی عمران کے کردار کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ الجھ جاتے ہیں۔ ڈبل رول جیسا لفظ شاید فلموں میں آسان لگے مگر ابن صفی نے علی عمران کو صرف دو چہروں تک محدود نہیں رکھا۔ وہ بیک وقت مجنوں بھی ہے، فلسفی بھی، عالم بھی، نالائق بھی اور مکار بھی — ہے اور ان سب میں مکمل بھی ہے۔ اے آئی اس کردار کی کثیر جہتی خصوصیات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب یہ پروفائل اے آئی کی’ نیورل لیئرس‘ میں جاتا ہےتو اس کا سسٹم سوال کر بیٹھتا ہے کہ یہ کردار آخر چاہتا کیا ہے؟ کیونکہ اس کے فیصلے نہ تو منطقی ہوتے ہیں نہ جذباتی۔ وہ ایک’میٹا کیریکٹر ‘ہے جو قاری کو بھی دھوکہ دیتا ہے، کرداروں کو بھی اور شاید خود مصنف کو بھی۔ اے آئی کے تناظر میں عمران ایک ایسا’ فکشن اسٹرکچر ‘ہے جو کلاسیکل، جدید اورما بعد جدید ادبی تھیوریز کو ایک ساتھ چیلنج کرتا ہے۔ اگر آرتھرکانن ڈوئل کا تخلیق کردہ کردار شرلاک ہومز پوری طرح سے منطق پر مبنی ہے تو ابن صفی کا علی عمران منطق کی مخالفت میں پوشیدہ ’سپر منطق‘ ہے۔ دوسری طرف جب اے آئی کرنل فریدی کا تجزیہ کرتا ہے تو ایک مختلف تجربہ سامنے آتا ہے۔ فریدی اے آئی کے لئے بھلے ہی زیادہ ’قابلِ فہم‘ اور روایتی کردار ہے لیکن اس کی بناوٹ بھی کہیں نہ کہیں اے آئی ماڈلز چکرادیتی ہے۔ سخت گیر، ذہین، بااصول، منظم اور سرد لہجے والا فریدی ان خصوصیات سے لبریز ہے جو ایک ’سسٹیمٹک ماڈل‘ کسی ہیرو میں تلاش کرتا ہےلیکن پھر اے آئی کو احساس ہوتا ہے کہ فریدی باوجود اپنی روایتی ذہانت کے پوری طرح سے پکڑ میں نہیں آسکتا کیونکہ وہ بھی عمران کی طرح ہی مختلف خصوصیات کا مجموعہ ہے ۔
کرداروں کی یہی پیچیدگی اے آئی کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ شاید ابن صفی کے کردار صرف انسانوں کے لئے بنے تھے، ان کو کوڈس میں پرکھا تو جا سکتا ہے مگر محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ اے آئی جب ادب کو پروسیس کرتا ہے تو اکثر مزاح کو ایک کمزور یا سطحی عنصر سمجھتا ہے مگر ابن صفی کے ہاں مزاح ذہانت کی معراج ہے۔ علی عمران کا ہر فقرہ اور ہر لغوی الٹ پھیر ایک ذہنی کھیل ہے جس پر اے آئی کے کسی بھی ٹول کو صرف حیرت ہی ہو تی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابن صفی نے اے آئی سے پہلے ہی وہ طرزِ تحریر ایجاد کر لی تھی جسے آج ہم ’ علم کے باوجود لاعلمی کا ظہار ‘ کی طرز کہتے ہیں اور یہ طرز ابن صفی کے ساتھ ہی چلی گئی۔
اب یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر اےآئی کو ابن صفی کی تمام کتابیں، کردار، سیاق و سباق، تہذیبی ظرافت، اردو کی مٹھاس اور طنز کا مزاج سکھا دیا جائے تو کیا وہ کبھی علی عمران جیسا کردار تخلیق کر سکے گا؟شاید نہیں۔ کیونکہ ابن صفی کا کمال صرف کہانی لکھنے میں نہیں بلکہ قاری کے ساتھ نفسیاتی کھیل کھیلنے میں ہے۔ اے آئی کا الگورتھم لکھنے کا انداز پہچان سکتا ہے اور بڑی حد تک اس کی نقل بھی کرسکتا ہے لیکن اپنی تحریر میں ’سرپرائز ‘ یا غیر متوقع مزاح پیداکرنا اور — وہ بھی ایسا کہ قاری کی ہنسی چھوٹ جائے اور ذہن چونک جائے — یہ ہنر فی الحال صرف انسان کے پاس ہے اور غالباً صرف ابن صفی کے پاس تھا۔ مصنوعی ذہانت کے ڈیٹا بیس میں ابن صفی ایک غیر معمولی ذہن ہیں۔ وہ نہ تو مغرب زدہ جاسوسی مصنف ہیں نہ ہی خالص مشرقی ادیب۔ وہ اپنی دنیا خود تخلیق کرتے ہیں، — ایسی دنیا جہاں کرنل فریدی منطق کا محافظ ہے اور علی عمران منطق کے الٹ بھی کام کرتا ہے لیکن منطق کو ہی سچ کر دکھاتا ہے۔ ابن صفی آج حیات ہوتے تو شاید اے آئی پر بھی ناول لکھ دیتے — جس میں اے آئی خود اپنے وجود پر شک کرتا اور علی عمران اسے آئینے میں اس کا خودساختہ چہرہ دکھاتاکیونکہ جب مشین سوچنا سیکھے، تب بھی ابن صفی کی تحریر پڑھنے والا انسان اس سے ایک قدم آگے ہی رہے گا۔