Inquilab Logo Happiest Places to Work

مرضِ سرطان اور عالمی و قومی صورتِ حال

Updated: February 05, 2021, 12:21 PM IST | Editorial | Mumbai

 ہر سال کی طرح اس سال بھی پوری دُنیا میں کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف عوامی بیداری لانے کے مقصد سے خاص دن منایا گیا۔اس دن کے منانے کا اعلان سن ۲۰۰۰ء میں ہوا تھا۔ تب سے لے کر اب تک ’’ورلڈ کینسر ڈے‘‘ مناتے ہوئے دو دہائیاں گزر گئی ہیں۔

world-cancer-day
فروری میں عالمی یوم کینسر منایا جاتا ہے۔

 ہر سال کی طرح اس سال بھی (۴؍فروری کو) پوری دُنیا میں کینسر جیسے موذی مرض کے خلاف عوامی بیداری لانے کے مقصد سے خاص دن منایا گیا۔اس دن کے منانے کا اعلان سن ۲۰۰۰ء میں ہوا تھا۔ تب سے لے کر اب تک ’’ورلڈ کینسر ڈے‘‘ مناتے ہوئے دو دہائیاں گزر گئی ہیں۔ اس دوران میں حالات یقیناً  بدلے ہیں مگر چونکہ یہ دن عالمی سطح پر یعنی بڑے پیمانے پرمنایا جاتا ہے اس لئے جتنی بڑی تبدیلی آنی چاہئے تھی یعنی مرض کے لاحق ہونے سے پہلے اور بعد میں بچاؤ کی جو کیفیت ہونی چاہئے تھی وہ ایسی نہیں ہے کہ اطمینان کرلیا جائے۔ ۲۰۱۸ء کے جو اعدادوشمار ہمارے سامنے ہیں اُن کے مطابق عالمی سطح پر ۱۸ء۱؍ ملین نئے کیسیز سامنے آئے جبکہ ۹ء۵؍ ملین لوگ فوت ہوئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دُنیا میں ہر چھٹی موت کینسر کی وجہ سے ہوتی ہے جبکہ عوارضِ قلب سے ہونے والی اموات کے بعد کینسر ہی دوسرا سب سے بڑا سبب ہے اموات کا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دُنیا کے ممالک اور اُن میں پائے جانے والے سرکاری و غیر سرکاری ادارے اپنے جذبۂ خیر اور جذبۂ خدمت کے باوجود اس مرض کی روک تھام میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرپائے ہیں۔ 
 حقیقت یہ ہے کہ عوام میں اس مرض کا جتنا خوف پایا جاتا ہے اُتنی بیداری یا معلومات عام نہیں ہے کہ اس سے کیسے بچا جائے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ کینسر یا سرطان سے حفاظت کیلئے تمباکو نوشی سے پرہیز، متوازن اور مقوی غذا (بالخصوص تازہ سبزی ترکاری اور پھلوں) کا استعمال، ورزش اور چلت پھرت، صنعتی اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ، وٹامن ڈی کی اچھی مقدار ، پُرسکون اور حسب ضرورت نیند اور جسمانی وزن کو حد میں رکھنا ضروری ہے۔ مگر کیا ان احتیاطوں کے باوجود لوگوں کو کینسر نہیں ہوا؟ یہ کہنا کہ نہیں ہوا، غلط ہوگا۔ 
 تعجب خیز امر یہ ہے کہ اُن ملکوں میں کینسر کے مریضو ں اور مہلوکین کی تعداد زیادہ ہے جو ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ ان میں سرفہرست آسٹریلیا، اس کے بعد نیوزی لینڈ، آئر لینڈ، ہنگری، بلجیم، فرانس، ڈینمارک اور ناروے شامل ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام بیماریوں کے جو اسباب ہوتے ہیں اور جن کی طرف کم تعلیم اور غربت کی وجہ سے عوام دھیان نہیں دے پاتے، وہی کینسر کے اسباب نہیں ہیں بلکہ کچھ اور بھی ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ طبی تحقیق کا موضوع ہے جس پر اظہار خیال درست نہیں۔ مگر، یہ بھی ہے کہ جو ممالک ترقی یافتہ نہیں کہلاتے وہاں کینسر کی شرح کافی کم ہے۔ اس میں وطن عزیز کا نام خاص طور پر لیا جائیگا جہاں ایک لاکھ افراد میں کینسر کے ۱۰۶؍ مریض ہیں جبکہ آسٹریلیا میں ایک لاکھ میں ۴۶۸؍ اور نیوزی لینڈ میں ۴۳۸؍ مریض ہیں۔ عالمی اوسط ۱۹۸؍ کا ہے۔
 یہا ں یہ اعتراف ضروری ہے کہ میڈیکل سائنس نے اُن کیسیز سے نمٹنے میں قابل ذکر کامیابی حاصل کی ہے جن میں مرض کی شناخت ابتدائی مرحلہ میں ہوگئی۔ اگر اس مرحلہ میں مرض خود متاثرہ شخص کی سمجھ میں نہیں آیا اور ڈاکٹروں کے ذریعہ اس کی تشخیص نہیں ہوپائی تو اس کا علاج مشکل ہوجاتا ہے۔ اس سال چونکہ ہماری مرکزی حکومت نے صحت عامہ کیلئے پہلے سے کہیں زیادہ بجٹ مختص کیا ہے اس لئے اُمید کی جاسکتی ہے کہ ہماری سرزمین پر طبی تحقیق کو خاص طور پر جلا ملے گی اور مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج کا بہتر انتظام ہوسکے گا۔ تب ہمارے یہاں کینسر سے متاثر ہونے والے اور فوت ہونے والوں کی شرح اور بھی کم ہوجائیگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK