Inquilab Logo

ذات پر مبنی مردم شماری اور ہندوستانی سیاست

Updated: May 11, 2023, 9:10 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

لالو پرساد یادو نے اپنا موقف واضح کردیا ہے کہ بہار میں ہر حال میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے گی اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ نتیش کمار کے اس سیاسی فیصلے میں قدم سے قدم ملا کر چلیں گے۔

Caste-based census will be conducted in Bihar anyway and Deputy Chief Minister Tejashwi Yadav has also hinted.
بہار میں ہر حال میں ذات پر مبنی مردم شماری کرائی جائے گی اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے بھی اشارہ دیا ہے

اپنے وطنِ عزیز ہندوستان میں ذات پر مبنی  مردم شماری کا مطالبہ کوئی نیا سیاسی مطالبہ نہیں ہے بلکہ آزادی کے فوراً بعد سوشلسٹ لیڈران اور بالخصوص رام منوہر لوہیا کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا تھا کہ ملک میں جس ذات برادری کی جتنی آبادی ہے اس لحاظ سے اسے سیاسی حصہ داری ملنی چاہئے۔اتنا ہی نہیں جغرافیائی اعتبار سے جس علاقے میں جس ذات کی جتنی آبادی ہے اس لحاظ سے اس ریاست میں ممبر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے انتخابی حلقوں میں ٹکٹ تقسیم کے وقت بھی اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ جس علاقے میں جس ذات کی آبادی زیادہ ہے اسے ہی ٹکٹ دیا جانا چاہئے۔رام منوہر لوہیا اور ان کے حامی اس وقت کانگریس کی بر سر اقتدار حکومت کو مسلسل اس بات کے لئے ہدفِ نشانہ بناتے رہے کہ کانگریس پسماندہ طبقے کو خاطر خواہ حصہ داری نہیں دے رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت حکومت نے ان کے مطالبے کو صدا بہ صحرا ثابت کردیا لیکن ۱۹۷۷ء میں جب کانگریس حکومت سے بے دخل ہوئی اور جنتا پارٹی کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس نے سماجوادی نظریے کے لیڈران کے دیرینہ مطالبات کو پورا کرنے کے لئے بندیشوری پرساد منڈل کی قیادت میں ذات پر مبنی ریزرویشن پالیسی تیار کرنے کے لئے ایک کمیشن کی تشکیل دی جسے عام طورپر منڈ ل کمیشن کہا جاتا ہے۔جنتا پارٹی حکومت میں ذات پر مبنی سیاست کو قدرے ترجیحات دی گئی اور مختلف عہدوں پر نامزدگی کے وقت طبقاتی سماج کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف پسماندہ طبقات کے افراد کو اہمیت دی گئی ۔  مرکز اور ریاستی کابینہ میں بھی اس بات کا خیال رکھا گیا کہ پسماندہ طبقے کے ممبرانِ پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کو مرکز اور ریاست کی کابینہ میں جگہ مل سکے۔لیکن بی جے پی حکومت جلد ہی تین تیرہ ہوکر حکومت سے بے دخل ہوگئی پھر کانگریس کی واپسی ہوئی اور اندرا گاندھی کی قیادت میں جو کابینہ تشکیل پائی اس میں اس بات کا خیال رکھا گیا کہ پسماندہ اور دلت طبقات کے نمائندوں کو اولیت دی جائے ۔ غرض کہ اب ذات پات کی سیاست پروان چڑھنے لگی اور ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں میں اس بات کی دوڑ شروع ہوئی کہ کون سی جماعت اکثریت پسماندہ ذات کو زیادہ اہمیت وفوقیت دیتی ہے۔بالخصوص علاقائی سیاسی جماعتوں نے اس سیاسی نظریے کو مزید مستحکم کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی سیاست کا محورومرکز تبدیل ہونے لگا اور جب وی پی سنگھ نے کانگریس سے بغاوت کر کے نیا سیاسی مورچہ تشکیل دیا تو اس بات کی قومی سطح پر وکالت ہونے لگی کہ جس کی جتنی آبادی ہے اس کو اتنی حصہ داری ملنی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ اب ذات پات کی سیاست پروان چڑھ چکی تھی لہٰذا وی پی سنگھ جب وزیر اعظم بنے تو منڈل کمیشن کی سفارش جوبرسوں سے سرد بستے میں بند تھی اسے باہر نکالا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں ’’اگڑے پچھڑے‘‘کا طوفان کھڑا ہوگیا ۔ اگرچہ اس کا خمیازہ وی پی سنگھ حکومت کو بھگتنا پڑا کہ وہ حکومت سے بے دخل ہوگئے لیکن ملک میں منڈل کمیشن کے نفاذ سے ایک نئی سیاسی فضا تیار ہوگئی ا ور اب تک وہ سیاست پروان چڑھ رہی ہے کہ آج کوئی بھی سیاسی جماعت پسماندہ طبقے کی سیاست سے الگ نہیں ہو سکتی۔واضح ہو کہ وی پی سنگھ نے جب منڈل کمیشن کا نفاذ کیا تھا تو اس وقت کی حکومت میں بی جے پی شامل تھی اور اس نے وی پی سنگھ حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی تھی جس کی وجہ سے وی پی سنگھ کو اپنا عہدہ گنوانا پڑا تھا لیکن پورے ملک میں وی پی سنگھ کی شناخت پسماندہ طبقے کے مسیحا کے طورپر مستحکم ہوگئی تھی۔ آج ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی بھی عوامی جلسوں میں خود کو پسماندہ طبقے کا نمائندہ کہہ کر ملک کی سیاست کو ایک نیا اشاریہ دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔بہر کیف! بہار میں ذات پر مبنی سیاست پر سیاست کا طوفان کھڑا ہوگیا ہے ۔ موجودہ نتیش کمار کی قیادت والی عظیم اتحاد کی حکومت جس میں راشٹریہ جنتا دل، کانگریس اور بایاں محاذ کے علاوہ کئی دیگر علاقائی جماعتیں شامل ہیں وہ ذات پر مبنی مردم شماری کی حمایت کر رہی ہیں اور اس کی مخالفت میں کوئی بھی سیاسی جماعت سامنے نہیں آرہی ہے لیکن پسِ پردہ اس ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت بھی ہو رہی ہے اور اب ذات پر مبنی مردم  شماری قانونی دائو پیچ کی شکار ہوگئی ہے ۔ نتیش کمار کی حکومت اپنے سیاسی موقف پر قائم ہے اور وہ ریاست میں ذات پر مبنی مردم شماری کا کام بھی شروع کر چکی تھی مگر دریں اثناء پٹنہ ہائی کورٹ نے اس پر فی الوقت روک لگا دی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ کا فیصلہ کیا ہوتا ہے مگر ہائی کورٹ پٹنہ کے اس روک پر بھی سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا ہے ۔ ایک طرف عظیم اتحاد کی سیاسی جماعتوں نے حزب اختلاف کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے کہ اس کی سازش کی وجہ سے ہی اس طرح کی روک لگائی گئی ہے لیکن حزب اختلاف کا مبینہ الزام ہے کہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے اور وہ صرف سیاسی مفادکیلئے اس طرح کے اقدام اٹھا رہی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک میں ۱۹۳۱ء کے بعد ذات پر مبنی مردم  شماری نہیں ہوئی ہے اس لئے پسماندہ طبقے کی سیاست کرنے والے لیڈروں کا مطالبہ ہوتا رہا ہے کہ ملک میں ذات پر مبنی مردم شماری کی جانی چاہئے تاکہ یہ حقیقت عیاں ہو جائے کہ ملک میں کس ذات کی اکثریت ہے اور اقتدارپر کون لوگ قابض ہیں۔ 
 مختصر یہ کہ ذات پر مبنی  مردم شماری نہ صرف ریاست بہار کے لئے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے بلکہ قومی سیاست کی سمت ورفتار کو بھی اثر انداز کرنے والی ہے ۔اب راہل گاندھی بھی اس بات کی وکالت کرنے لگے ہیں کہ’ جس کی آبادی جتنی بھاری، اس کی اتنی حصہ داری ‘ضروری ہے۔شایداس لئے مرکز کی حکمراں جماعت بھی کھل کر ذات پر مبنی مردم  شماری کی مخالفت تو نہیں کر رہی مگر وہ سیاست کی شطرنجی چال سے باز نہیں آرہی ہے اور جس کا نتیجہ ہے کہ بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری پر گہن لگ گیا ہے۔ راشٹریہ جنتا دل کے سپریمو لالو پرساد یادو نے اپنا موقف واضح کردیا ہے کہ بہار میں ہر حال میں ذات پر مبنی مردم  شماری کرائی جائے گی اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ نتیش کمار کے اس سیاسی فیصلے میں قدم سے قدم ملا کر چلیں گے اور ریاست میں ذات پر مبنی  مردم شماری کسی بھی صورت میں اپنے انجام کو پہنچے گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ریاست میں ذات پر مبنی مردم شماری ہوتی ہے تو اس کا سہرا نتیش کمار کے سر بندھے گا اور اس کے اثرات قومی سیاست پر بھی پڑیں گے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK