Inquilab Logo

مردم شماری کو مؤخر کیوں کیا جارہا ہے؟

Updated: August 21, 2022, 10:52 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

مردم شماری ہر ۱۰؍ سال پر ہوتی ہے۔ اس سے پہلے ۲۰۱۱ء میں ہوئی تھی۔ اس اعتبار سے اِسے ۲۰۲۱ء میں ہونا چاہئے تھا مگر حکومت نے کووڈ کا عذر پیش کرکے اسے مؤخر کردیا۔ اب بھی لگتا ہے کہ التواء جاری رہے گا۔ ایسا کیوں؟ یہ ان کالموں میں پڑھئے:

census
مردم شماری

ہندوستان میں مردم شماری مؤخر کردی گئی ہے۔ چنانچہ اس کا جو وقت ہے اُس وقت پر اس کی تفصیل منظر عام پر نہیں آئے گی۔ ۱۵۰؍ سال کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوگا۔ آئیے اسے سمجھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ۱۸۸۱ء سے مردم شماری کو کبھی مؤخر نہیں کیا گیا۔ جنگوں کے دوران بھی نہیں۔ یہ نہایت ضروری دستاویز ہوتی ہے کیونکہ یہ آبادی کی تفصیلات (ڈیٹا) حاصل کرنے کی سب سے بڑی اور وسیع تر سرگرمی ہوتی ہے۔ اس سے یہی معلوم نہیں ہوتا کہ ملک میں مجموعی طور پر کتنی آبادی ہے بلکہ یہ تفصیل بھی ملتی ہے کہ آبادی میں کہاں کتنی تعلیم ہے، افراد کی آمدنی کتنی ہے، اُنہیں کون سی سہولتیں دستیاب ہیں، اُن کا ذریعہ ٔ روزگار کیا ہے وغیرہ۔ اس سرگرمی کو مؤخر کرنے کا مطلب اپنی ہی آبادی کے تازہ ترین ڈیٹا سے دور رہنا اور عوام کیلئے مناسب پالیسیاں مرتب کرنے سے گریز کرنا ہے۔ کووڈ کا عذر پیش کرتے ہوئے مودی حکومت نے کہا تھا کہ مردم شماری ابھی نہیں ہوسکتی۔ لیکن، یہ اصل وجہ نہیں تھی کیونکہ ایسے ہی دیگر سروے بھی حکومت کو منظور نہ ہوئے تو ان کی رپورٹ بھی مؤخر کی گئی، یہ ماضی میں ہوچکا ہے۔ ایک تھا صارفین کے اخراجات کا سروے، جس کے ذریعہ یہ انکشاف ہوا تھا کہ ملک کے عوام غذائی اجناس پر ۲۰۱۲ء کے مقابلے میں ۲۰۱۸ء میں کم خرچ کررہے ہیں۔ جب ایک اخبار نے سروے رپورٹ منظر عام پر آنے سے قبل ہی اس کی کچھ تفصیل شائع کردی تو حکومت نے رپورٹ کے سرکاری سطح پر اجراء کو مؤخر کردیا۔ اس سروے کو Quinquennial (کِنکوئینیئل) کہا جاتا ہے یعنی وہ چیز جو ہر پانچ سال پر ہوتی ہے۔اس سے ملک کے وسیع تر غیر منظم زمرہ کی تفصیل بھی حاصل ہوتی ہے۔ ۱۰؍ سال ہوگئے اِن اُمور پر کوئی تفصیل سرکاری سطح پر جاری نہیں کی گئی ہے۔ مودی حکومت کو وزارت مالیات کے سابق خصوصی مشیرکرشنا مو رتھی سبرامنین کا مشورہ تھا کہ صارفین کے اخراجات کی سروے رپورٹ جاری کردی جائے مگر حکومت نے اَن سنی کردی۔ یہ نامناسب طرز عمل ہے کہ اُن انکشافات کو نظر انداز کردیا جائے جن سے حکومت کی ناقص کارکردگی جھلکتی ہو بالخصوص ایسے معاملات یا رپورٹوں میں جو سرکاری عملے ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہوں۔ افسوس کہ حکومت کا یہ طرز عمل جو کل تھا، وہ آج بھی جاری ہے۔ 
 ایک اور سروے رپورٹ کا بھی یہی حشر ہوا۔ ۲۰۱۹ء میں ایک سرکاری سروے سے انکشاف ہوا تھا کہ ملک میں بے روزگاری اب تک کی ریکارڈ یعنی بلند ترین سطح پر (۶؍ فیصد) ہے۔ یہ سطح آزادی کے وقت کی شرح سے دوگنا زیادہ تھی۔ یہ انکشاف بھی مذکورہ اخبار ہی کے ذریعہ منظر عام پر آیا۔ اخبار ہے بزنس اسٹینڈرڈ۔ چونکہ یہ  انکشاف بھی حکومت کی ناقص کارکردگی کا غماز تھا اس لئے نیتی آیوگ کو درمیان میں لایا گیا جس نے ڈیٹا ناقص ہونے کا عذر پیش کیا۔ اگر ڈیٹا ناقص تھا تو وہی ڈیٹا ’’ضروری اصلاح‘‘ کے بغیر ۲۰۱۹ء کے الیکشن کے بعد جوں کا توں کیسے ظاہر کردیا گیا؟ تب سے اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ بے روزگاری کی شرح کم نہیں ہوئی ہے بلکہ چار سال سے اُسی سطح پر ہے۔
 جہاں تک مردم شماری کا تعلق ہے، حکومت کے شہریت ترمیمی قانون کی وجہ سے اس سرگرمی کو نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا کیونکہ لوگوں میں بے اعتمادی آگئی ہے، وہ اپنی تفصیل بتانے سے ڈریں گے۔ مودی حکومت نے نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کو،  جو کہ رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کی پہلی سیڑھی ہے، مردم شماری سے جوڑ دیا ہے۔ اس کی وجہ سے حکومت اور اس کے مامور کردہ سرکاری ملازمین کو یہ اختیار حاصل ہوجائیگا کہ وہ، جس کے تعلق سے بھی مطمئن نہ ہوں، اسے ’’مشکوک شہری‘‘ کی فہرست میں ڈال دیں۔ ایسے شہریوں کی حق رائے دہی معطل رہے گا چنانچہ اِن شہریوں کو نیشنل رجسٹر آف سٹیزن میں نام درج کرانے کی جدوجہد کرنی پڑے گی ورنہ فارینر ٹریبونل جانا پڑے گا جس کے افسران کو مطمئن نہ کرنے والوں کو، ممکن ہے، حراستی مراکز بھیج دیا جائے۔ اس کے بعد کیا ہوگا یا کیا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ آسام میں پیش آنے والے واقعات سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مردم شماری کرنے والے عملے کے لوگ گھروں پر جائینگے اور سوالات کرکے تفصیل حاصل کرنا چاہیں گے تو اُنہیں یا تو تعاون نہیں ملے گا یا برہمی اور اشتعال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 
 انہی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے محکمہ ٔ شماریات کے سابق سربراہ پرنب سین نے کہا تھا کہ ’’ایسی صورت پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم مردم شماری درست طریقے پر نہ کرپائیں۔ اگر ایسا ہوا تو کسی بھی خاندان یا کنبے کی فراہم کردہ تفصیل آئندہ دس سال تک قابل اعتبار نہیں ہوگی یعنی آپ عجب طرح کی مشکل سے دوچار رہیں گے۔‘‘
 اس سلسلے کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ چند ریاستوں نے کہہ دیا ہے کہ وہ نیشنل رجسٹر وغیرہ کی پابندی نہیں کریں گے۔ مثال کے طور پر کیرالا نے صاف لفظوں میں متنبہ کردیا کہ ریاست میں نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کا نظم نہیں کیا جائیگا کیونکہ اس سے لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔ کیرالا حکومت نے شہریت ترمیمی ایکٹ کو بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ ایم پی میں بھی این پی آر  کی مخالف ہوچکی ہے اور مہاراشٹر میں بھی۔ دیگر ریاستوں میں مغربی بنگال نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ مردم شماری میں تعاون نہ کریں، عملے کو کوئی دستاویز نہ دکھائیں۔ اُدیشہ اور بہار جیسی ریاستوں نے کہا کہ وہ این پی آر کو جزوی طور پر ہی نافذ کریں گے۔ راجستھان کے وزیر اعلیٰ گہلوت نے کہا تھا کہ ان کی ریاست میں اسے لاگو نہیں کیا جائیگا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ اُن کے عوام جیل جائیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر مردم شماری ہوئی تو اس سے حاصل شدہ تفصیلات (ڈیٹا) اپنے آپ میں مکمل اور جامع نہیں ہوں گی۔ ممکنہ طور پر یہی وجہ ہے کہ حکومت مردم شماری کو ٹال رہی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ ایک بار پھر عوامی مظاہرے شروع ہوجائیں۔ 
 مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ این پی آر وغیرہ کا خیال اور منصوبہ ترک کردے۔ اگر وزیر اعظم اعلان کردیں کہ این آر سی، این پی آر وغیرہ کچھ نہیں ہوگا تو مردم شماری میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔n

census Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK