Inquilab Logo

ذات پرمبنی مردم شماری اپوزیشن کےہاتھوں میں پولرائزیشن کیخلاف اہم ہتھیارثابت ہوگی

Updated: November 12, 2023, 4:17 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

نتیش کمار نے بہار میں ذاتوں کی گنتی کرواکر اور پھراس کی بنیاد پر ریزرویشن میں اضافہ کرکے بی جے پی کیلئے مشکلیں کھڑی کردی ہیں، اب زعفرانی پارٹی کیلئے نہ اس سے انکار کی گنجائش بن رہی ہے اور نہ وہ کھل کر اس کی حمایت کرنے کی پوزیشن میں ہے۔

Bihar Chief Minister Nitish Kumar and Deputy Chief Minister Tejashwi Yadav have upset the BJP by revealing caste-based survey and economic survey. Photo: INN
بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیراعلیٰ تیجسوی یادو نے ذات پرمبنی سروے اور اقتصادی سروے ظاہر کرکے بی جے پی کو پریشان کردیا ہے۔تصویر :آئی این این

بہار اسمبلی میں نتیش حکومت کے ذریعہ پیش کردہ ریزرویشن ترمیمی بل برسراقتدار اور حزب مخالف طبقہ نے اتفاق رائے سے منظورکروالیا۔ چند روز قبل نتیش کابینہ سے بھی اسے منظوری مل گئی تھی۔ اپوزیشن پارٹی بی جے پی کے کچھ اراکین اسمبلی نے چار ترامیم کی تجویز پیش کی تھیں لیکن ریاستی وزیر وجئے چودھری کی صفائی کے بعد وہ تجویز آگے نہیں بڑھائی گئی۔ اس کے بعد تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے درمیان بہار اسمبلی نے ریزرویشن کا دائرہ بڑھا کر ۷۵؍ فیصد کرنے کا بل پاس کر دیا۔بل کو قانون ساز کونسل میں پیش کیا گیا جہا ں حکومت اور حزب مخالف دونوں طبقہ اس بل پر ایک ساتھ تھے، اسلئے اسے وہاں بھی منظور ہونے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ نتیش کمار نے یہ بل منظور کرواکے ایک بڑی چال چل دی ہے جس کے دام میں بی جے پی نہ صرف آگئی بلکہ چھٹپٹابھی رہی ہے۔ 
 ۲۰۲۴ء کے انتخابات سے قبل اپوزیشن پارٹیاں وہ ایک ’میجک فیکٹر‘ کی تلاش میں تھیں جس کے سہارے وہ بی جےپی کی ’پولرائزیشن‘ کی حکمت عملی کو شکست دے سکیں ۔ نتیش کمار نے ذات پر مبنی مردم شماری کے ذریعے اپوزیشن کو وہ فیکٹر فراہم کردیا ہے۔ ویسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کا اصل آئیڈیا ملک کے سب سے سیکولر لیڈر لالو پرساد یادو کا ہے۔ وہ اپنی تقاریر اور ریلیوں میں اکثر اس کا ذکر کرتے رہتے تھے لیکن اسے عملی جامہ نہیں پہناسکےمگر نتیش حکومت میں نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے اس کی حمایت میں نتیش کمار کو رام کرنے اور دیگر پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس گنتی اور اس کے بعدہونے والے اقتصادی سروے نے بہار کی سماجی اور مختلف ذاتوں کی اقتصادی صورتحال کو بالکل آئینے کی طرح صاف کردیا ہے۔ذات پر مبنی گنتی کو تمام اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی اور آر ایس ایس کی تقسیم کی سیاست کا تریاق مان کر اسے ہر ریاست میں نافذ کرنے کا وعدہ کررہی ہیں ۔ گزشتہ ۱۰؍ سال میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کے ہاتھ ایسا ایجنڈہ آیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے انتخابی بیانیہ طے کررہی ہیں ۔ او بی سی کو ریزرویشن (جسے منڈل کمیشن کا نام بھی دیا جاتا ہے) نے ۸۰ء اور ۹۰ء کی دہائی میں بی جے پی کے رَتھ کو تقریباً پٹری سے اتار دیا تھا اور اس مرتبہ بھی یہی امید ہے۔ اس سروے نے بی جے پی کی صفوں میں کتنی ہلچل مچادی ہے اس کا اندازہ محض اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کی انتخابی ریلیوں میں وزیر اعظم مودی سمیت بی جے پی کے متعدد لیڈر یہ اعلان کرتے پھر رہے ہیں کہ ملک میں صرف ایک ذات ہے اور وہ غریب کی ذات ہے۔ ان میں دوسرا کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے۔ اتنا ہی نہیں بی جے پی نے مفت راشن اسکیم میں بھی ۵؍ سال کیلئے توسیع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ آر ایس ایس نے ذاتوں کی گنتی کا توڑ یہ نکالنے کی کوشش کی کہ وہ گھر گھر جاکر ہندوتوا کی مہم چلائے اور عوام کو اپنے ’ہندو ‘ ہونے پر فخر کا احساس کروائے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے یہ تمام اعلانات ظاہر کررہے ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے محض اعلان نے۵؍ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور ۲۰۲۴ء کے پارلیمانی انتخابات میں زعفرانی پارٹی کے امکانات کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی بھرپائی کے لئے آر ایس ایس اور بی جے پی اعلیٰ کمان مسلسل کوششیں کررہے ہیں لیکن نتیش کمار کی حکومت نے گزشتہ دنوں ریزرویشن میں اضافہ کرکے بی جے پی کو مزید جھٹکا دے دیا ہے جس سے باہر نکلنے کیلئے اب پارٹی کو کافی وقت لگ سکتا ہے۔
 اپوزیشن پارٹیاں اِس کے ساتھ ہی ووٹرس کو یہ پیغام دینے میں بھی کامیاب رہی ہیں کہ بی جے پی ہی ذات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کررہی ہے، اسی لئے اپنی ریاستوں میں سروے نہیں کروارہی ہے جبکہ اپوزیشن کی حکومتوں نے اپنی ریاستوں میں خود سروے کرواکر یا اس کا اعلان کرکے بی جے پی کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ سروے نے اس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ بہار میں پسماندہ طبقات کی آبادی دیگر اعلیٰ ذاتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اور انہیں ترقی میں وہ حصہ نہیں ملا ہے جس کے وہ حقدار ہیں ۔ اب تک یہ بات بغیر کسی بنیاد کے کہی جاتی تھی کہ ملک کی اصل آبادی اوبی سی اور پسماندہ ذاتیں ہیں ۔ اعلیٰ ذاتوں کی مکمل آبادی ۱۵؍ سے ۱۶؍ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ بہار کے سروے نے یہ بات بھی ثابت کردی ۔ بی جے پی کے اس سروے سے گھبرانے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اگرپورے ملک میں ذاتوں کا سروے ہوا تو اس کی قلعی مزید کھل جائے گی کہ ملک میں اعلیٰ ذاتیں کل ملاکر ۲۰؍ فیصد سے زیادہ نہیں ہیں ۔ یہ باتیں سماجی طور پر جانی اور مانی جاتی ہیں لیکن سروے کے ذریعے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ بی جے پی فی الحال یہی بات نہیں چاہتی ہے۔
  قارئین کو یاد ہو گا کہ یوپی کی انتخابی مہم کے دوران بار بار بی جے پی کی جانب سے ۲۰؍فیصد بمقابلہ ۸۰؍ فیصد کی بات کہی جارہی تھی جس کے جواب میں اکھلیش یادو نے یہ واضح کیا تھا کہ یہ مقابلہ ۱۵؍ فیصد بمقابلہ ۸۵؍ فیصد کا ہے۔ انہوں نے اس کی وضاحت بھی کی تھی کہ ملک میں اعلیٰ ذاتیں ۱۵؍ فیصد ہیں جبکہ بقیہ تمام ذاتیں اور طبقات ۸۵؍ فیصد ہیں اور یہ لوگ اقتدار سے لے کر ترقی میں اپنا حق مانگ رہے جو فی الحال ۱۵؍ فیصد اعلیٰ ذات والوں کے پاس ہے۔ حالانکہ اکھلیش نے اس موضوع پر انتخابی مہم نہیں چلائی ، اگر وہ ایسا کرتے تو انہیں زیادہ سیٹیں مل سکتی تھیں۔ 
 بہر حال بی جےپی جو پہلےہی ملک میں بے روزگاری اور بے لگام مہنگائی کو قابو میں نہ کرپانے کی وجہ سے اپوزیشن کے ساتھ ہی عوام کے عتاب کا بھی شکار ہو رہی ہے ،ذات پر مبنی مردم شماری کرواکراپنے لئے مزید مصیبت مول نہیں لینا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ملک کے دیگر حصوں میں اس گنتی کی سختی سے مخالفت کررہی ہےلیکن بہار کے معاملے میں اس کے پاس حمایت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کیلئے ذات پر مبنی مردم شماری بالکل ایسا معاملہ ہو گیا ہےکہ نہ اس سے اُگلتے بن رہا ہے اور نہ نگلتے ۔ ہمارے خیال میں بی جے پی کی یہ حالت ۳؍ دسمبر کو یعنی جب انتخابات کے نتائج آئیں گے ،مزید واضح ہو جائے گی کیونکہ اپو زیشن پارٹیوں نے اپنا پورا انتخابی بیانیہ اسی گنتی کے ارد گرد تیار کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK