Inquilab Logo

احتیاط اپنے لئے بھی، دوسروں کیلئے بھی

Updated: April 11, 2021, 7:36 PM IST

کورونا کے متاثرین کی تعداد میں ویسا ہی اضافہ ہوتا رہا جیسا کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران ہوا ہے تو وہی ہوگا جس کا خطرہ ہے۔ لاک ڈاؤن۔ اس میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔ کاروبار بند، روزگار کے مواقع محدود، معاشی حالات ابتر۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

 کورونا کے متاثرین کی تعداد میں ویسا ہی اضافہ ہوتا رہا جیسا کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران ہوا ہے تو وہی ہوگا جس کا خطرہ ہے۔ لاک ڈاؤن۔ اس میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔ کاروبار بند، روزگار کے مواقع محدود، معاشی حالات ابتر۔ گزشتہ سال،  جو لاک ڈاؤن توسیع در توسیع نافذ رہا اس کو شہریوں نے اس حد تک بھگتا ہے کہ بچہ بچہ اس کے نقصانات سے واقف ہوگیا ہے۔ اب پھر ویسے ہی حالات پیدا ہورہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے فی الحال کچھ سختی اور کچھ نرمی کا معاملہ رکھا ہے مگر خدانخواستہ وباء کو روکا نہیں جاسکا اور ’’زنجیر ٹوٹی نہیں‘‘ (بریک دی چین) تو سختی اور مزید سختی کے علاوہ کوئی چارہ ٔ کار نہیں رہ جائیگا۔کیا عجب کہ ریاستی حکومت بھی ویسا ہی لاک ڈاؤن نافذ کردے جیسا کہ مارچ ۲۰ء میں مرکزی حکومت نے کیا تھا؟ اس لئے ہر خاص و عام کو احتیاط اور مسلسل احتیاط کا دامن تھامے رہنا چاہئے۔ اسے طنز نہ سمجھا جائے کہ بہادری اچھی چیز ہے مگر بہادری کے مظاہرہ میں دانشمندی ضروری ہے۔ جو لوگ یہ سوچ کر احتیاط نہیں کرتے کہ کچھ نہیں ہوتا، اُنہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر کچھ ہوگیا اور ایسا ہی ہوتا رہا تو کب تک کرفیو یا لاک ڈاؤن کی مصیبت اُٹھائی جائے گی؟ ممکن ہے کہ ہماری مالی حالت اچھی ہو مگر جب بے احتیاطی کی وجہ سے وباء، خدانخواستہ، بڑھے گی تو اس کو روکنے کیلئے لاک ڈاؤن ناگزیر ہوجائے گا اور اس کی زد میں سب سے زیادہ وہ لوگ آئیں گے جومعاشی طور پر حاشئے پر رہتے ہیں اور جنہیں روزانہ پانی پینے کیلئے روزانہ کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کی حالت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے جو ایک دن نہ کمائیں تو گھر میں چولہا نہ جلے۔ لاک ڈاؤن کو بہت سے لوگ معاشی نقطۂ نظر سے بآسانی جھیل سکتے ہیں تو سماج کے بہت سے طبقات ایسے ہیں جو ایک دن اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ کیا ان سے ہمدردی کیلئے احتیاط ضروری نہیں؟مارچ سے شروع ہونے والی وباء نے جن ریاستوںکو سب سے زیادہ ہلکان کیا ان میں مہاراشٹر کا نام تسلسل کے ساتھ آتا رہا۔ پورے ملک میں یکم اپریل کو ۸۱؍ ہزار سے زائد، ۲؍ اپریل کو ۸۹؍ ہزار سے زائد، ۳؍ اپریل کو ۹۳؍ ہزار سے زائد،۴؍ اپریل کو ایک لاکھ سے زائد اور ۵؍ اپریل کو کم و بیش ۹۷؍ ہزار نئے کیسیز سامنے آئے۔ ان میں مہاراشٹر کے متاثرین کی تعداد دیگر ریاستوں سے زیادہ بلکہ کافی زیادہ ہے۔ یہ صورتحال تشویشناک تو ہے ہی، اس کی وجہ سے مہاراشٹر کا نام بھی خراب ہورہا ہے۔ کسی اور ریاست میں اتنے کیسیز نہیں ہیں جتنے مہاراشٹر میں ہیں۔ کیا ہم یہ سوچ کر غفلت برت سکتے ہیں کہ ایک ہمارے احتیاط نہ کرنے سے کیا ہوگا؟ اگر ہر شخص یہی سوچے گا تو کوئی بھی خود کو پابند نہیں بناسکے گا۔ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ بے احتیاطی لاک ڈاؤن کو دعوت دینا ہے اور لاک ڈاؤن کو دعوت دینا معاشی مصائب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ پھر جب لاک ڈاؤن نافذ ہوتا ہے تو مذہبی اُمور، سماجی تقریبات، تعلیمی سرگرمیاں، میل جول اور آمدورفت، گویا ہر چیز متاثر کیا موقوف ہوجاتی ہے۔ میت میں شرکت تک ممکن نہیں رہ جاتی۔ قریب ترین رشتہ داروں تک پہنچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کیسیز بڑھتے ہیں تو اسپتالوں میں جگہ نہیں رہتی جس کے سبب ’’غیر کورونا مریضوں‘‘ کو بھی طبی امداد نہیں مل پاتی۔ کون نہیں جانتا کہ متوفین میں کتنے ایسے لوگ تھے جو محض اس لئے چل بسے کہ طبی امداد کا راستہ بند تھا جبکہ وہ علاج کی بہترین سہولت حاصل کرسکتے تھے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK